وسیم الطاف
نام مریض :مولوی محمد خان شیرانی
عہدہ: چیئرمین
تعلیمی قابلیت: درس نظامی (بنوں سے)
علامات: زیادہ بھوک لگنا، زیادہ پیاس لگنا،بار بار پیشاب آنا ۔
تجویز کردہ ٹیسٹ: HBA1c
تشخیص: زیا بیطس
مولانا کا ردعمل: انگریزی ٹیسٹ۔ تشخیص اور تجویز کردہ طریقہ علاج پر مکمّل اعتماد اور اطمینان کا اظہار اور علاج کے لئے کسی مغربی ملک جانے کی خواہش ۔
_____________________________________________________________
ام مریض: محمّد حنیف جالندھری
عہدہ: ممبر
تعلیمی قابلیت: حافظ قرآن
علامات:تھکن ‘جوڑوں میں درد ‘بھوک نہ لگنا ‘معدے میں درد کی ٹیسیں اٹھنا ‘بیماری محسوس ہونا
تجویز کردہ ٹیسٹ: ALT
تشخیص: ہیپاٹائیٹس سی
مولانا کا ردعمل: انگریزی ٹیسٹ تشخیص اور تجویز کردہ طریقہ علاج پر مکمّل اعتماد اور اطمینان کا اظہار اور علاج کے لئے کسی مغربی ملک جانے کی خواہش۔
_____________________________________________________________
نام مریض:افتخار حسین النقوی
عہدہ: ممبر
تعلیمی قابلیت: میٹرک
علامات: رات کو نیند نہ آنا۔کسی کام میں دل نہ لگنا۔ بےچینی اور خالی پن کا احساس ہونا۔ خود کشی کی خواہش پیدا ہونا۔
تجویز کردہ ٹیسٹ: گولڈ برگ ڈپریشن ٹیسٹ
تشخیص: ذہنی دباؤ
مولانا کا ردعمل: انگریزی ٹیسٹ تشخیص اور تجویز کردہ طریقہ علاج پر مکمّل اعتماد اور اطمینان کا اظہار اور علاج کے لئے کسی مغربی ملک جانے کی خواہش۔
_____________________________________________________________
نام مریضہ: پاکستانی عورت
تعلیمی قابلیت: باشعور
علامات: ریپ (زنا بالجبر) کا شکار، غیرت کے نام پر قتل، سماجی عدم قبولیت کا شکار، انصاف کے دروازے پر انتظار کی طویل قطار پر۔
تجویز کردہ ٹیسٹ: ڈین۔این۔اے معائنہ کے ذریعے ریپ کا معروضی ثبوت
تشخیص: فرسودہ سماجی قدریں
مریضہ کا ردعمل: ٹیسٹ کے نتائج پر اعتماد کا اظہار۔ انصاف ملنے کی قوی امید
مولانا کا ردعمل: استغفراللہ ۔نامنظور! نامنظور! نامنظور!!
_____________________________________________________________
اوپر دیے گئے تین کیس ملک کی نظریاتی کونسل کے رہنماؤں کی علالت کے دوران اسپتال ریکارڈ سے حاصل کی گئی شخصی معلومات پر مبنی ہیں۔ ان علمائے دین نے خود کو لاحق جسمانی مسائل کے علاج کے لیے صدیوں سے رائج چلے آ رہے ٹونہ اور چلہ کے طریقے استعمال کرنے کی بجائے جدید سائنسی طریقۂ کار کے تحت علاج کروانے کو مناسب سمجھا اور طبی معائنے کے بعد تجویز کردہ ٹیسٹوں پر اعتماد کرتے ہوئے انگریزی ادویہ کو استعمال کرنے میں بیماری سے عافیت سمجھی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ نسبتا ماہرانہ طرز علاج کے لیے مغربی ممالک کا سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ان دستیاب شدہ مثالوں کے علاوہ بھی ملک کے سبھی مذہبی رہنما ہاضمے کی خرابی سے لے کر مردانہ کمزوری تک، ہر قسم کے عوارض کے علاج کے لیے ہومیو پیتھک اور دیگر جدید سائنسی طریقہ ہائے علاج کو اختیار کرتے ہیں۔ اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
جبکہ چوتھا معاملہ ملک کی نو کروڑ سے ذیادہ خواتین کے ساتھ لاحق، ریپ کے مسئلہ سے متعلق ہے۔ اس روز افزوں جرم کی تفتیش کے لیے دنیا بھر میں ڈین۔اے۔ٹیسٹ کے ذریعے ملزم پر جرم ثابت کیا جاتا ہے اور اس میں غلطی کا امکان صفر کے برابر ہے۔ پاکستان میں سرکاری طور پر قائم مذہبی پیشواؤں کی کونسل نے دیگر تمام معاملات میں سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو جائز سمجھنے کے باوجود زنابالجبر کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی معائنے کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ ڈی۔این۔اے ٹیسٹ سے چونکہ مجرم کے لیے اصولی طور پر کوئی راہ فرار باقی نہیں رہتی، لہذا اس سے ناصرف اس جرم میں کمی آنے کی امید ہے، بلکہ ملک میں عورت کے مقام و مرتبہ میں بہتری آنے کی توقع بھی بہت روشن ہے۔ عورت کے سماجی مرتبہ میں بہتری کے اس “خدشہ” کے پیش نظر ملک بھر کے پیشواؤں کی اکثریت نے اسے اپنی من چاہی قدروں کے خلاف خطرہ سمجھ لیا ہے۔
پاکستان میں قتل اور چوری سمیت تمام جرائم کی تفتیش میں پوسٹ مارٹم رپورٹ، خون کے معائنے اور فنگر پرنٹ کے جائزے وغیرہ جیسے طریقوں کو ایک تسلیم شدہ حل کے طور پر استعمال کیا جاتا اور مجرم تک قانون کی رسائی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ لیکن عورت کو انصاف دلانے کے معاملے میں،زنابالجبر کے لیے مذہبی رہنماؤں کا معروضی سائنسی جائزے پر فتووں کی بوچھاڑ پر یہی کہا جا سکتا ہے؛
ہے جناب شیخ کا فلسفہ بھی عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے، جو یہاں پیو تو حرام ہے!!
2 Responses
Double standards of our society.