Laaltain

تم نہیں دیکھتے

15 جولائی, 2017
Picture of ابرار احمد

ابرار احمد

دلوں سے دہلیزوں اور
خوابوں سے تعبیروں تک کا سفر
طے کرتی ہیں آنکھیں
یا قسمت
یا پھر طے ہو جاتا ہے یہ سفر
محض اتفاق سے
اور ہر سفر کی اپنی منزل ہوتی ہے اور صعوبت
اور آدمی کے پاس ہوتی ہیں
صرف آنکھیں

آنکھیں دیکھتی ہیں
دور کے راستوں کو
اور رگوں کو بھر دیتی ہیں
موسموں اور منظروں کی آگ سے
اتار دیتی ہیں تھکن اور دیکھتی رہتی ہیں
رات دن ، چمکتے جگنوؤں کی طرح
تھوڑا زاد سفر باندھ دیتی ہیں
یاد داشت کی گٹھری میں ——–
ہنستی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں
کھلتے ہوے پھول ، بارش میں بھیگتے ہوے درخت اور آدمی
دریاؤں کے کنارے ، آبادیوں میں اترنے والی شام ،مسکراتی ہوئی دھوپ
اور مکتب سے نکلتے بچوں کی اجلی وردیاں ———
روتی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں
ایڑی میں چبھ جانے والی کیل ، اڑتے ہوے بادل ،معدوم ہوتے ہوے ماہ و سال
ابدیت کے جنگل میں بھٹکتی ہوئی چاندنی
اور ہاتھوں سے گرتی ہوئی مٹی

آنکھیں نکل جاتی ہیں قدموں سے آگے
اور مکمل کر دیتی ہیں سفر
بھر جاتی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں
گزری ہوئی بستیاں ،اور ان میں ایستادہ گھر
اور دہلیز پر کھلا ہوا پھول
اور آغاز کی سر خوشی اور ملال کے سائے

آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں
لیکن تم نہیں دیکھتے
پڑے رہتے ہو عقب کے اندھیروں میں، لمبی تان کر
اور نہیں جانتے
آنکھیں کیا کچھ دیکھ سکتی ہیں !!
Image: Duy Huynh

ہمارے لیے لکھیں۔