یمین نقوی، قرۃ العین، ثنا شہاب
تعلیمی اداروں میں ملازمت کرنے والی خواتین اور تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں جنسی ہراسانی کا شکار ہو تی ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے زیادہ تر واقعات کا شکار طالبات ہوتی ہیں جنہیں ساتھی طلبہ، اساتذہ ، غیر تدریسی عملہ یا تعلیمی اداروں کے داخلی دروازوں پر موجود افراد کے ہاتھوں مختلف نوعیت کی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ان میں سے زیادہ تر خواتین جنسی ہراسانی کے قوانین سے ناواقفیت ، بدنامی کے خوف یا معاشرتی دباو کے باعث ہراساں کرنے والوں کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی ہیں۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے زیادہ تر واقعات کا شکار طالبات ہوتی ہیں جنہیں ساتھی طلبہ، اساتذہ ، غیر تدریسی عملہ یا تعلیمی اداروں کے داخلی دروازوں پر موجود افراد کے ہاتھوں مختلف نوعیت کی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ان میں سے زیادہ تر خواتین جنسی ہراسانی کے قوانین سے ناواقفیت ، بدنامی کے خوف یا معاشرتی دباو کے باعث ہراساں کرنے والوں کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی ہیں۔
جنسی ہراسانی (Sexual Harassment) کا شکار ہونے والی طالبات میں سے اکثر کے لئے یہ تجربہ خوف، شرمندگی اور احساس جرم کا باعث بنتا ہے۔ لالٹین سے بات کرنے والی طالبات کے مطابق ان واقعات کے بعد انہیں شدید نفسیاتی دباو کا سامنا کرنا پڑا اور بعض حالات میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے یا تعلیمی ادارہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔اپنے ہم جماعت طلبہ کے ایک گروہ کی جانب سے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی، نجی کالج کی ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،” میرے لئے کالج جانا اور پڑھنا تقریباً نا ممکن ہو چکا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے سارے کیمپس کے پاس اس کے سوا کوئی اور موضوع نہیں۔”
جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے افراد کو مختلف نفسیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سر گنگا رام ہسپتال کی کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر مِرت گل کے مطابق جنسی ہراسانی کا شکار خواتین ذہنی دباو، تناو، کم خوابی، بے سکونی اور اعتماد کی کمی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ جنسی ہراسانی کا شکار خواتین ہراسانی کے واقعات دوسروں کو بتانے میں دقت محسوس کرتی ہیں جس کے باعث انہیں خود پر اعتماد نہیں رہتا اور اگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا رہے تو نفسیاتی اور جسمانی عوارض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے افراد کو مختلف نفسیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سر گنگا رام ہسپتال کی کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر مِرت گل کے مطابق جنسی ہراسانی کا شکار خواتین ذہنی دباو، تناو، کم خوابی، بے سکونی اور اعتماد کی کمی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ جنسی ہراسانی کا شکار خواتین ہراسانی کے واقعات دوسروں کو بتانے میں دقت محسوس کرتی ہیں جس کے باعث انہیں خود پر اعتماد نہیں رہتا اور اگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا رہے تو نفسیاتی اور جسمانی عوارض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
"یہ توکہیں بھی ہو سکتا ہے”
کنیئرڈ کالج برائے خواتین کی طالبات کی اکثریت کو ادارے کے داخلی دروازہ کے باہر یا سڑک پار کرنے کے لئے بنائے گئےپُل پر کھڑے افراد کے نامناسب اور فحش رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پنجاب یونیورسٹی اور کنیئرڈ کالج کے پُلوں پر ہراسانی کے واقعات میں اضافہ دہوا ہے۔
https://laaltain.pk/a-new-wave-of-fear-sexual-harassment-on-overhead-bridges-of-pu/
کنیئرڈ کالج کی طالبات کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصہ سے سڑک پار کرنے کے پل پرایک برہنہ شخص کی موجودگی اور فحش حرکات کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں،جسے طالبات کی شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔۔پنجاب یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ایک طالبہ میمونہ کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعات کہیں بھی ہو سکتے ہیں،”یہ تو کہیں بھی ہو سکتا ہے ، کلاس روم ، لائبریری ، بس، کیفے ؛ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ایسا نہ ہوتا ہو ۔”
لالٹین سے بات کرنے والی طالبات کے مطابق اساتذہ اور عملہ کے افراد کی جانب سے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی طالبات کو امتحانی نتائج، بہتر گریڈز یا قواعدوضوابط میں نرمی کے عوض جنسی عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات کی ایک بڑی تعداد کو ساتھی طالب علموں کی جانب سے موبائل فون پر پیغامات، فحش اشاروں اور جملہ بازی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لالٹین تحقیق کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں عارضی تدریس کے فرائض سرانجام دینے والی ایک خاتون استاد نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہراساں کرنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے،” یونیورسٹی انتظامیہ بدنامی سے بچنے کے لئے ایسے واقعات کو چھپانے اورمعاملہ ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں ایسے واقعات زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں کے اساتذہ کی ملازمت کو زیادہ تحفظ حاصل ہوتا ہے اور انتظامیہ خواتین کے خلاف جرائم روکنے میں سنجیدہ نہیں ہوتی۔ "
https://laaltain.pk/a-new-wave-of-fear-sexual-harassment-on-overhead-bridges-of-pu/
کنیئرڈ کالج کی طالبات کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصہ سے سڑک پار کرنے کے پل پرایک برہنہ شخص کی موجودگی اور فحش حرکات کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں،جسے طالبات کی شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔۔پنجاب یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ایک طالبہ میمونہ کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعات کہیں بھی ہو سکتے ہیں،”یہ تو کہیں بھی ہو سکتا ہے ، کلاس روم ، لائبریری ، بس، کیفے ؛ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ایسا نہ ہوتا ہو ۔”
لالٹین سے بات کرنے والی طالبات کے مطابق اساتذہ اور عملہ کے افراد کی جانب سے جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی طالبات کو امتحانی نتائج، بہتر گریڈز یا قواعدوضوابط میں نرمی کے عوض جنسی عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات کی ایک بڑی تعداد کو ساتھی طالب علموں کی جانب سے موبائل فون پر پیغامات، فحش اشاروں اور جملہ بازی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لالٹین تحقیق کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں عارضی تدریس کے فرائض سرانجام دینے والی ایک خاتون استاد نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ہراساں کرنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے،” یونیورسٹی انتظامیہ بدنامی سے بچنے کے لئے ایسے واقعات کو چھپانے اورمعاملہ ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں ایسے واقعات زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں کے اساتذہ کی ملازمت کو زیادہ تحفظ حاصل ہوتا ہے اور انتظامیہ خواتین کے خلاف جرائم روکنے میں سنجیدہ نہیں ہوتی۔ "
قانون تو ہے مگر ۔۔
جنسی ہراسانی کے انسداد کا خصوصی قانون 2010 میں منظوری کے بعد نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت ” جنسی ترغیبات، جنسی پیش قدمی، جنسی استدعا اور جنسی تذلیل کی تمام ناپسندیدہ صورتیں خواہ وہ تحریری ، زبانی یا جسمانی نوعیت کی ہوں قابل تعزیر جرم” قرار دی گئی ہیں۔ اس قانون کی موجودگی اور نفاذ کے باوجود تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی واقعات پر شکایت درج کرانے اور سزا دینے کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم آشا کے مطابق اس کی ایک اہم وجہ معاشرتی دباو اور معاشرے کی پدری اقدار ہیں۔
"یونیورسٹی انتظامیہ بدنامی سے بچنے کے لئے ایسے واقعات کو چھپانے اورمعاملہ ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
http://aasha.org.pk/Women_Harassment_Docs/qaima%20committee.pdf
آشا سے وابستہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعات کی بہت زیادہ شرح کے باوجود مقدمات درج کرانے اور سزا کی شرح بے حد کم ہے، ایک اندازے کے مطابق جنسی ہراسانی کے 90فی صد سنگین واقعات کی شکایت درج نہیں کرائی جاتی ۔ پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم پانے والی طالبہ ثوبیہ اکرم کا کہنا تھا کہ شکایت کرنے کے باوجود ہراساں کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں، اس لئے شکایت درج کرانے کی بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھا جاتا ہے، ” جنسی ہراسانی کا شکاراکثر خواتین ایسے واقعات کی شکایت ہی درج نہیں کراتیں، اور اگر شکایت درج کرائیں تو موثر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ہراساں کرنے والے افراد سزا سے بچ جاتے ہیں، چپ رہنے میں بدنامی بھی نہیں ہوتی۔” سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنسی ہراسانی پر خواتین کے سامنے نہ آنے کی اہم وجہ اس قانون سے ناواقفیت اور سماجی دباو ہے جس کے باعث خواتین ہراساں کرنے والوں کو نظر انداز کرنے یا ان واقعات کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔
جنوری 2014 میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام اباد میں پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعہ میں ناکافی ثبوت کی بنا پر سزا نہیں دی گئی تھی، جبکہ سیاسی اثرورسوخ کے حامل افراد سزا سے بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔2011 میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک سینئر فیکلٹی ممبر کوجنسی ہراسانی کے الزام کے تحت معطل کیا گیا تھا ، تاہم اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ان کی سزا معاف کر دی۔
جنوری 2014 میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام اباد میں پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعہ میں ناکافی ثبوت کی بنا پر سزا نہیں دی گئی تھی، جبکہ سیاسی اثرورسوخ کے حامل افراد سزا سے بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔2011 میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک سینئر فیکلٹی ممبر کوجنسی ہراسانی کے الزام کے تحت معطل کیا گیا تھا ، تاہم اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ان کی سزا معاف کر دی۔
تعلیمی اداروں کی صورت حال
جنسی ہراسانی کی روک تھام کے 2010 میں منظور ہونے والے قانون کے مطابق تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے ، جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیق کی خصوصی کمیٹی بنانے اور اس قانون کو نمایاں جگہ آویزاں کرنے کے پابند ہیں۔ مختلف تعلیمی اداروں میں کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں اس قانون سے آگاہی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ فارمین کرسچن کالج کے علاوہ زیادہ تر تعلیمی اداروں میں اس قانون کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ روبینہ مشتاق کے مطابق انہیں اس قانون کے حوالے سے آگہی تب بھی نہیں تھی جب انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔”میں نہیں جانتی تھی کہ اگر کوئی شخص ہمیں ہراساں کرے تو کیا کرنا چاہئے، اور اکثر اوقات یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کیا چیز جنسی ہراسانی کے زمرے میں آتی ہے۔”
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے تدارک کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 2011 میں انسداد جنسی ہراسانی پالیسی کا اعلان کیا تھا ،تاہم ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 138ڈگری ایوارڈنگ اداروں میں سے 98 اداروں میں تاحال جنسی ہراسانی کے تدارک کی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ طلبہ کے مطابق تعلیمی اداروں کی انتظامیہ جنسی ہراسانی کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود 2010 میں قانون منظور ہونے کے بعد سے قائد اعظم یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پشاور، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے خلاف کاروائی کی جا چکی ہے۔
http://www.hec.gov.pk/MediaPublication/News/Documents/Large%20Book.pdf
ایچ ای سی کے پاس جنسی ہراسانی کے واقعات اور شکایات کے مستند اعدادوشمار موجود نہیں تاہم 2013 میں یونیورسٹی ورلڈ نیوز نامی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اب تک 70 سے زائد شکایات درج کرائی جا چکی ہیں ، جن میں سے زیادہ تر سرکاری اداروں سے متعلق تھیں۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سماجی دباو ، ملازمت چلے جانے اور بدنامی کے خوف کے باوجود اس تعداد میں خواتین کا جنسی ہراسانی کے خلاف سامنے آجانا بھی نہایت اہم ہے۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے تدارک کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 2011 میں انسداد جنسی ہراسانی پالیسی کا اعلان کیا تھا ،تاہم ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 138ڈگری ایوارڈنگ اداروں میں سے 98 اداروں میں تاحال جنسی ہراسانی کے تدارک کی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ طلبہ کے مطابق تعلیمی اداروں کی انتظامیہ جنسی ہراسانی کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود 2010 میں قانون منظور ہونے کے بعد سے قائد اعظم یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پشاور، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے خلاف کاروائی کی جا چکی ہے۔
http://www.hec.gov.pk/MediaPublication/News/Documents/Large%20Book.pdf
ایچ ای سی کے پاس جنسی ہراسانی کے واقعات اور شکایات کے مستند اعدادوشمار موجود نہیں تاہم 2013 میں یونیورسٹی ورلڈ نیوز نامی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اب تک 70 سے زائد شکایات درج کرائی جا چکی ہیں ، جن میں سے زیادہ تر سرکاری اداروں سے متعلق تھیں۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق سماجی دباو ، ملازمت چلے جانے اور بدنامی کے خوف کے باوجود اس تعداد میں خواتین کا جنسی ہراسانی کے خلاف سامنے آجانا بھی نہایت اہم ہے۔
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے تدارک کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) نے 2011 میں انسداد جنسی ہراسانی پالیسی کا اعلان کیا تھا ،تاہم ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 138ڈگری ایوارڈنگ اداروں میں سے 98 اداروں میں تاحال جنسی ہراسانی کے تدارک کی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔
جنسی ہراسانی؛ حل کیا ہے
مختلف نجی تعلیمی اداروں میں عمرانیات کی تدریس سے وابستہ ڈاکٹر صفدر علی نے جنسی ہراسانی کے واقعات کی بڑی وجوہ میں مردانہ برتری اور طاقت کا اظہار، صنفی امتیاز، عورتوں کو کم تر اور محض جنسی وجود سمجھنا اور اختیارات کی تقسیم میں عورت کی کم تر نمائندگی کو جنسی ہراسانی کی وجہ قرار دیا،”پدری اقدار کی وجہ سے عورت کم تر سماجی حیثیت قبول کرنے پر مجبور ہے، اسہی وجہ سے کہ اسے ایک Sex Object اور کم تر صنف تصور کیا جاتا ہے جس پر مرد اپنی حاکمیت اور طاقت کا اظہار جنسی ہراسانی اور تشدد کے ذریعہ کرتے ہیں۔” جنسی ہراسانی سے جڑے روایتی تصورات کو رد کرتے ہوئے انہوں نے ایسے تصورات کو شعور اور آگہی کی کمی قرار دیا،”لباس یا عورت کے رویہ کو جنسی ہراسانی کی وجہ سمجھنا غلط ہے۔اس کی اصل وجہ مردانہ برتری کا تصور ہے۔”
قانونی ماہرین نے جنسی ہراسانی کے واقعات کے حل کے لئے قانون کے نفاذ اور شعور و آگہی کو پھیلانے پر زور دیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق فرسودہ عدالتی نظام، انصاف تک عورتوں کی رسائی میں رکاوٹ، شہادت کے نامناسب قانون اور ان قوانین سے ناواقفیت کی وجہ سے خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کی روک تھام اور متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہوتی۔
قانونی ماہرین نے جنسی ہراسانی کے واقعات کے حل کے لئے قانون کے نفاذ اور شعور و آگہی کو پھیلانے پر زور دیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق فرسودہ عدالتی نظام، انصاف تک عورتوں کی رسائی میں رکاوٹ، شہادت کے نامناسب قانون اور ان قوانین سے ناواقفیت کی وجہ سے خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کی روک تھام اور متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہوتی۔
shameful act , govt should take it serious, implement law against sexual harassment. Where religion is dominant, there women always suffer.
Miss Yameen Naqvi has done it in a wonderful way. The references given by her are also very good. But I want to comment here that why we people produce such a biased peice of literature. Why she is looking like, I think I must say not a female activist but a female biased. Don’t you think girls take advantage of such mentality of common people and exploit it. They enter their teacher’s rooms and blackmail them to pass them in exam which they had actually failed, otherwise they have the tool to scream. Otherwise she will post on Facebook that that teacher tried to harass her.Teaching profession’s as well as institution’s dignity is on stake.
assalam u alaikum. mard nazar neechi rakhain aur auratain pardah karain. inshaALLAH sab aman he aman hoga. ya ALLAH meri tobah
محض نظر نیچی رکھنا یا پردہ کرنا حل نہیں، بلکہ پائیدار حل ذہن اور سوچ کا پاک ہونا ہے۔ مرد و زن دونوں کا ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے قبول کرنا اور بحیثیت انسان ان کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اپنے معاملات زندگی انجام دینے کا حق دینا ضروری ہے۔جب ان دونوں انسانوں (مرد و زن) کو معاشرے میں ساتھ چلنا ہے تو ان کے درمیان بات چیت اور دوسرے معاشرتی عوامل وقوع پذیر ہونگے۔ کوئی کب تک نظریں جھکائے یا پردے میں رہ سکتا ہے لہذا شعور کی بالیدگی اہم ہے
بہت اچھا مضمون ہے لیکن واقعی ہماری اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ وہ کون سے امر ہیں جو جنسی امتیازی رویے یا ہراسانی کی ذیل میں آتے ہیں۔ مسلسل کسی کا گھورنا، وجہ بے وجہ مخاطب ہونا یا تحائف یا مراعات کی فراہمی یا ذومعنی فقرات اچھالنا اور ان سب میں بھی اس بات کا تعین کہ کون سا امر قابل دست اندازی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہماری سوچ میں تبدیلی جو کہتی ہے کہ اگر عورت گھر سے باہر قدم نکال رہی ہے تو اسے خود کو پہلے ان تمام "باتوں” کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر کے نکلنا چاہیے اور فساد کھڑا کرنے میں خود اس کی بدنامی ہے۔ میں اس میں صرف عورت ہی کا نام نہیں لوں گی بے شک اس مسئلے کا بڑا شکار عورت ہی ہے لیکن آج اگر دیکھا جائے تو بلاتخسیص جنس مرد کو مرد عورت کو عورت یا عورت کو مرد یا مرد کو عورت ہر صورت میں ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صنفی امتیاز یا جنسی ہراس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یقینا ہر ادارے میں ایسے قوانین اور ان کے مکمل اور آزادانہ اطلاق کا ہونا ضروری ہے۔