با لآخر یونس بھاگنے پر تیار ہوگیا۔ اس بارے سوچتے،ارادہ بناتےتو اسے ہفتوں ہو چلے تھے مگر آخری گرہیں جوڑتے رسیاں دھاگوں سی صورت بنا لیتیں اورکئی سوال اس کے آگے اندھےغار کی طرح منہ کھول کر کھڑے ہوجاتے اور وہ پیٹھ پھیرلیتا۔ سوال تو اب بھی منہ پھاڑے ہوئے تھے۔ کسی ایک کو بھی بند نہیں کر پایا تھااور کرے بھی کیسے؟ افلاس میں گھرا گھر، بوڑھے ماں باپ،ضروریات کے اسیر بیوی بچے، ہمیشہ خالی رہنے والی جیب۔ اگر چند ٹیوشنیں حاصل نہ ہوتیں تو پرائیویٹ اسکول کی معمولی تنخواہ سے پیٹ بھی بھر نہ پاتے۔ کچھ مدد حکمت بھی کردیتی جو اس کے والد ساری عمر کرتے رہے۔ مگر اب ماہ میں دو چار مریض ہی حکیم محمد صالح کے ہاتھ لگتے جس سے چند سو ہاتھ آجاتے۔ صورت یہ تھی کہ کسی عید پر بچوں کے کپڑے بن جاتے، کسی پر دھلے ہوتے۔ اچھا یہ تھا کہ اسکول مالک کی مہربانی سے تینوں بچے پڑھ رہے تھے۔ نہیں تو پیلااسکول تو تھا ہی۔ اور چوتھا بچہ ابھی چھوٹا ہی تھا۔ پر سوالوں میں اس کا بھی شمار ہوتا تھا۔ مگر شگفتہ کا ان سوالوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ صرف ایم یونس کو جانتی تھی۔ یہ شگفتہ کون ہے؟ وہی جویونس کو بھگا کر لے جارہی ہے۔ اس بھاگنے کے پیچھے سب کچھ اسی کا تھا۔ اس کا ہاتھ، اسی کا پیسہ، اسی کا منصوبہ۔ حتیٰ کہ ہمت بھی اس کی تھی۔ یونس کے پاس تو صرف سوال ہی تھے۔ ایک اور بات بھی ہے۔ یونس سے رابطہ کی مضبوطی اور تعلق جسے آپ محبت کہیں، وہ بھی شگفتہ کے سر تھی۔ ذریعہ بنا فیس بک۔ سوالوں کے ساتھ یونس کے پاس صورت بھی تھی۔ فیس بک پر اس کی تعارفی تصویرمتوجہ کیے بنا نہیں چھوڑتی تھی۔ شگفتہ بھی متوجہ ہوئی۔ اورہوکے ہی رہ گئی۔ کنڈا اٹک جائے تو رہائی کہاں ملتی ہے اور رہائی چاہتا کون ہے؟ فیس بک پر وقت گذاری کرتے ایک گروپ میں شگفتہ شامل ہوئی تو یونس اس گروپ کے دلچسپ ہونے کا ایک سبب تھا۔ جس پوسٹ پر وہ نظر آتا وہاں مستی مزاح اپنا اثر ظاہر کرتی۔ وہ سنجیدہ بات کوبھی مزاحیہ رنگ دیتااور پھر دوسروں کے کمنٹس کو جس طرح ذو معنی بنا کر اپنا مطلب بیان کرتا، وہاں پھلجھڑیاں اڑنے لگتیں اور بس کمنٹس کے دھیڑ لگے رہتے۔ شگفتہ اس پوسٹ سے چپک کر رہ جاتی۔ وہ ایم یونس کے نام سے بنی آئی ڈی کی ہر پوسٹ،ہر کمنٹ لائک کرتی رہتی۔ کالج سے گھر پہنچتے ہی اپنے لیپ ٹاپ کی طرف دوڑ لگاتی اور فیس بک سے جڑ کر بیٹھ جاتی۔ کیونکہ یونس دو پہر کو ایک سے ڈیڑہ گھنٹاہی گروپ میں نظر آتاتھا۔ وہ توبعدمیں شگفتہ کو پتہ چلا یونس اپنے اسکول کے کمپیوٹر پر چھٹی کے بعد چار بجے تک آفیس میں فیس بک چلا لیتا ہے۔یہ وہی چار بجے تھے جس دوران شگفتہ اپنے بیڈ پر یونس کے کمنٹ پڑھتی اور ہنس ہنس کر دُہری ہوتی رہتی۔ گھر میں ماموں مشتاق ہوتے تو وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دبائے بغیر آواز ہنسی سے ہلتی رہتی۔ کیونکہ اگر وہ اس کی ہنسی کی آواز سن لیتے تو پھر اپنے درس سمیت آجائے۔ نصیحت چلنا شروع کردیتی۔ ہنسنے کی قباحتیں،نیک لوگوں کے طور اطوار، شریف گھرانوں کا چلن، انٹرنیٹ کی بیہودگی۔یہ سب کچھ سننا پڑجاتا۔ اثر تو وہ خاک لیتی پرسر جھکائےمجرم بنے سننا آسان تو نہیں نا۔ کبھی کبھی اماں کو رحم آتا تو آکر آزادی دلادیتیں اورکبھی ماموں کے ساتھ مل کر ناصح بن جاتیں۔بھلا وہ بھی کریں کیا؟ شوہر عرب ریاست میں کام کرتے تھے۔ سال میں ڈیڑھ دو ماہ کے لیے آتے۔ ساری ذمہ داری وہی محسوس کرتیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا،جو آخر میں تھا۔ ان کی تعلیم تربیت، گھر کو سنبھالنا۔ اگر ماموں مشتاق ساتھ نہ رہتے تو وہ کہاں نبھا پاتیں۔ یہ ماموں مشتاق تھے تو اماں کے بھائی پر بچوں نے اماں کی عادت بھی ماموں کہنے پر بنا دی تھی۔عرصہ آٹھ سال سے انہی کے ہاں رہتے تھے۔ قریب کی مارکیٹ میں فوٹو اسٹیٹ مشینیں ڈالی ہوئی تھیں۔ کمپوزنگ کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ ان کا اچھا گذارہ ہوجاتا۔ ابھی چھڑے بھی تو تھے۔ اوپر سے ابا بھی بلا ناغہ ان کے لیے اماں کو تاکیدی پیسے بھجواتے۔ ویسے تاکید کی ضرورت تھی تو نہیں پر ابا کی طبیعت۔اور تاکید وہ بچوں کے لیے کرتے”انہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو”کمی وہ کیوں محسوس کرتے؟۔ گھر میں ہر چیزکی زیادتی تھی لیکن ایک کمی تھی اور وہ تھے ابا۔ مگر وہ ابا کے بھی بس میں نہ تھی۔ سال بعد ابا گھر آتے تو گھر میں سیلاب آجاتا۔ کپڑوں لتوں کا، جیولری کا، پرفیومز کا، سینڈلز کا، عادل کے لیے کھلونوں کا اور سب سے زیادہ خوشیوں کا۔ کبھی تاش چل رہی ہے، کبھی کیرم بورڈ سجا ہوا ہے،کبھی لڈو کھیلا جا رہا ہے، ٹی وی ہے کہ سارادن چلائی جا رہی ہے، موسیقی کے آواز سے گھر کے در و دیوار بجے جا رہے ہیں،ہنسی مذاق قہقہے تھمنے کو نہیں۔ بس ماموں مشتاق بیٹھے پیچ وتاب کھارہے ہیں۔
“سلیم بھائی خود انہیں بگاڑ رہے ہیں۔ ہر وقت ہنسی، ٹھٹھا، ٹی وی پر ہندوستانی ڈرامے چل رہے ہیں، فلمیں دیکھی جارہی ہیں، کیا سیکھیں گے؟ بھجن پوجا پاٹ؟ ہندوانہ طور اطوار گھر میں گھسے آرہے ہیں اور۔بھائی صاحب کوئی فکر ہی نہیں۔”
“چھوڑو ماموں۔ اب کچھ دن کے لیے تو آئے ہیں سلیم۔بچوں کو خوش ہولینے دو۔”اماں کی بات ماموں کو کہاں چپ کروا سکتیں۔کبھی تو وہ ابا سے بول بیٹھتے
“سلیم بھائی ہر وقت بچوں کا ڈرامے فلمیں دیکھنا اور ہنسی مذاق ان کے اوپر اچھا اثر نہیں ڈالے گا” ابا جوابامسکرا دیتے۔اب بھلا مسکراہٹ کے جواب میں کیا بولا جائے؟ ابا جوں ہی ابو ظہبی روانہ ہوتے وہ سب پژمردہ ہوجاتے۔ جیسے کسی نے کھلونوں میں سے بیٹری نکال دی ہو۔ شگفتہ اور اس کی بڑی بہن مریم کے لیے لمحے اکتاہٹ سے بھر جاتے۔ چھوٹا عادل بھی بھلنے تک چند دن لے لیتا۔ اور اماں تو بولائی بولائی پھرتی۔باقی ماموں مشتاق بااختیار ہوجاتے۔ تاش بند، کیرم بورڈ اسٹورروم میں پہنچ جاتا اور ٹی وی ماموں کے زیر انتظام دیکھی جانے لگتی۔ بلند آواز میں میوزک کا نام و نشان تک نہ ملتا۔ جس نے سننا ہے وہ کانوں پر ہیڈفون لگا کر سنتا رہے۔ اسی طرح زندگی بے رنگ کٹ رہی تھی کہ شگفتہ نے فیس بک تک رسائی حاصل کرلی۔ کالج سے فیس بک کا سن اور سیکھ آئی۔ اکاؤنٹ بنے۔ گھر میں ایک ہی لیپ ٹاپ تھا جو اکثر عادل کے گیموں کا ذریعہ تھا۔ اب وقت مقرر ہوئے۔ عادل کا، مریم کا، شگفتہ کا، دو دو گھنٹے۔ اور پھر شگفتہ ایم یونس کی ہر پوسٹ اور ہر کمنٹ کو لائک کرتی جاتی۔اس نے کمنٹ کرنا شروع کیا۔ جس پوسٹ پر وہ نظر آتا، ضرور گھستی۔ کچھ دنوں میں گروپ ممبرز نے اسے قبول کیا۔ اس کی کمنٹس کو داد اور جواب ملنے لگے۔ وہ جانی پہچانی جانے لگی مگر یونس نے اسے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ نہ وہ اس کی پوسٹ پر آتا اور نہ ہی اس کے کسی کمنٹ کا جواب دیتا۔ کچھ مرتبہ تو شگفتہ نے سے ٹیگ تک کیا مگر جواب ندارد۔ شگفتہ نے خود کو غیر اہم ہوتے محسوس کیا۔ جیسے اس کا ہونا نہ ہونا ہو۔
“سلیم بھائی ہر وقت بچوں کا ڈرامے فلمیں دیکھنا اور ہنسی مذاق ان کے اوپر اچھا اثر نہیں ڈالے گا” ابا جوابامسکرا دیتے۔اب بھلا مسکراہٹ کے جواب میں کیا بولا جائے؟ ابا جوں ہی ابو ظہبی روانہ ہوتے وہ سب پژمردہ ہوجاتے۔ جیسے کسی نے کھلونوں میں سے بیٹری نکال دی ہو۔ شگفتہ اور اس کی بڑی بہن مریم کے لیے لمحے اکتاہٹ سے بھر جاتے۔ چھوٹا عادل بھی بھلنے تک چند دن لے لیتا۔ اور اماں تو بولائی بولائی پھرتی۔باقی ماموں مشتاق بااختیار ہوجاتے۔ تاش بند، کیرم بورڈ اسٹورروم میں پہنچ جاتا اور ٹی وی ماموں کے زیر انتظام دیکھی جانے لگتی۔ بلند آواز میں میوزک کا نام و نشان تک نہ ملتا۔ جس نے سننا ہے وہ کانوں پر ہیڈفون لگا کر سنتا رہے۔ اسی طرح زندگی بے رنگ کٹ رہی تھی کہ شگفتہ نے فیس بک تک رسائی حاصل کرلی۔ کالج سے فیس بک کا سن اور سیکھ آئی۔ اکاؤنٹ بنے۔ گھر میں ایک ہی لیپ ٹاپ تھا جو اکثر عادل کے گیموں کا ذریعہ تھا۔ اب وقت مقرر ہوئے۔ عادل کا، مریم کا، شگفتہ کا، دو دو گھنٹے۔ اور پھر شگفتہ ایم یونس کی ہر پوسٹ اور ہر کمنٹ کو لائک کرتی جاتی۔اس نے کمنٹ کرنا شروع کیا۔ جس پوسٹ پر وہ نظر آتا، ضرور گھستی۔ کچھ دنوں میں گروپ ممبرز نے اسے قبول کیا۔ اس کی کمنٹس کو داد اور جواب ملنے لگے۔ وہ جانی پہچانی جانے لگی مگر یونس نے اسے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ نہ وہ اس کی پوسٹ پر آتا اور نہ ہی اس کے کسی کمنٹ کا جواب دیتا۔ کچھ مرتبہ تو شگفتہ نے سے ٹیگ تک کیا مگر جواب ندارد۔ شگفتہ نے خود کو غیر اہم ہوتے محسوس کیا۔ جیسے اس کا ہونا نہ ہونا ہو۔
“آئندہ میں کبھی فیس بک پر ہی نہ جاؤں گی”اس نے اپنا اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کیا اورلیپ ٹاپ عادل کو دے کر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گئی۔ آدھا گھنٹہ گذرنے سے پہلے وہ دوبارہ اکاؤنٹ ایکٹیویٹ کر چکی تھی۔”میں اس لعنتی کی وجہ سے فیس بک کیوں چھوڑوں؟ میں اس گروپ میں نہیں جاؤں گی بس۔”اس نے خود سے وعدہ کیا۔اسی شام وہ دوسرے ممبرز کی پوسٹس پڑھتے ہوئے یونس کے کمنٹ نظر انداز کیے جارہی تھی۔ اگلے دن کالج سے جلد واپسی کی اور ” لعنتی “کا ہر کمنٹ پڑھ کر لائک کیے دو بجے کا انتظار کر رہی تھی۔دو بجنے سے تھوڑی دیر بعد شگفتہ نے یونس کو گروپ میں کمنٹ کرے ہوئے دیکھتے ان باکس کیا۔
“سلام”
“وسلام بہن” وقفے کے بعد جواب نظر آیا۔
“مجھے بہن کہنے والے اور والیاں دونوں ہیں۔یہ لفظ آپ اپنے پاس سنبھال رکھیں۔”
“سوری میں معذرت چاہتا ہوں۔”
“چاہیں”
“جی میں سمجھا نہیں”
“یہ بھی ایک مسئلہ ہے”
“کیا؟”
“چلیں چھوڑیں، ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟”
“جی پوچھیں؟”
“آپ بزی تو نہیں؟”
“نہیں نہیں”
“ایزی ہیں؟”
“جی ہاں”
“مائنڈ تو نہیں کریں گے؟”
“نہیں۔”
“آپ لاٹ صاحب کو جانتے ہیں؟”
“نہیں تو”
“لاٹ صاحب سے کوئی رشتہ داری ؟”
“بالکل نہیں”
“پھر یہ بتائیں میں نے آپ کی پوسٹس پر جاکر کمنٹ کیے۔ آپ کو ٹیگ کرکے متوجہ کیا، اپنی پوسٹ لگا کر دوسروں کے ساتھ آپ کو بھی کمنٹ کرنے کو کہا۔ مگر آپ کا کوئی رسپانس ہی نہیں۔میں نے سوچا لاٹ صاحب نہیں تو اس کے رشتہ دار تو ضرور ہوں گے۔”
“میں معافی چاہتا ہوں۔” اس سے آگے کچھ سجھائی ہی نہیں دیا ہوگا۔
“وسلام بہن” وقفے کے بعد جواب نظر آیا۔
“مجھے بہن کہنے والے اور والیاں دونوں ہیں۔یہ لفظ آپ اپنے پاس سنبھال رکھیں۔”
“سوری میں معذرت چاہتا ہوں۔”
“چاہیں”
“جی میں سمجھا نہیں”
“یہ بھی ایک مسئلہ ہے”
“کیا؟”
“چلیں چھوڑیں، ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟”
“جی پوچھیں؟”
“آپ بزی تو نہیں؟”
“نہیں نہیں”
“ایزی ہیں؟”
“جی ہاں”
“مائنڈ تو نہیں کریں گے؟”
“نہیں۔”
“آپ لاٹ صاحب کو جانتے ہیں؟”
“نہیں تو”
“لاٹ صاحب سے کوئی رشتہ داری ؟”
“بالکل نہیں”
“پھر یہ بتائیں میں نے آپ کی پوسٹس پر جاکر کمنٹ کیے۔ آپ کو ٹیگ کرکے متوجہ کیا، اپنی پوسٹ لگا کر دوسروں کے ساتھ آپ کو بھی کمنٹ کرنے کو کہا۔ مگر آپ کا کوئی رسپانس ہی نہیں۔میں نے سوچا لاٹ صاحب نہیں تو اس کے رشتہ دار تو ضرور ہوں گے۔”
“میں معافی چاہتا ہوں۔” اس سے آگے کچھ سجھائی ہی نہیں دیا ہوگا۔
“میرا نام شگفتہ سلیم ہے،سلیم میرے والد کا نام ہے، بی اے فائنل میں پڑھتی ہوں۔ شہر کا نام فی الحال نہیں بتا رہی۔اوکے؟”
“جی بہتر”
” تصویر بھی بھیج دوں؟”
“نہیں پلیز۔”
“ابھی وہ اتنا لکھ پایا تھا کہ ان باکس میں تصویر آ پہنچی۔
“اس پکچر کو کسی اور تک نہیں پہنچنا چاہیے۔”
“نہیں پہنچے گی، اعتماد کا شکریہ۔” ایم یونس نے جواب لکھا۔بھلا بیچارا اور کیا لکھتا۔ بس اسی طرح ابتدا ہوئی اور پھر چل سو چل۔ آٹھ ماہ کے بعد کی کہانی اولین سطریں بیان کر چکی ہیں۔ان آٹھ ماہ کی کچھ اور باتیں بھی سن لیں۔ آپ کو اندازہ تو ہوگا نا کہ محبت کس طرح بندے کو اس کے ماحول اور مسائل سے الگ کردیتی ہے۔ بس وہی ہوا۔ فون پر ایک دوسرے سے گھنٹوں باتیں اور ساری کی ساری اچھی اچھی۔ دماغ تک کچھ غلط سوچ نہیں سکتا۔ ویسے اگر آپسی تعلق چھے ماہ کے اوپر کا عرصہ نکال لیتا ہے تو یقین کرلیں کہ کچھ نہ کچھ اس میں ہوتا ہے۔ تو آٹھ ماہ میں باتوں کے ڈھیڑ، لاتعداد وعدے اور تین عدد ملاقاتیں بمع تحائف۔ تینوں کے تینوں شگفتہ کی طرف سے دیے گئے۔ خیر دیا تو کرایہ بھی گیا تھا۔ تینوں مرتبہ بس بمع رکشہ۔ اورتحائف کیا تھے؟ ٹچ اسکرین موبائل، لیپ ٹاپ اور پرفیوم۔ تینوں کی خریداری دونوں نے کٹھی کی تھی۔ یونس اپنے چھوٹے سے شہر سے چل کر بڑے شہر پہنچتا۔ شگفتہ کالج چھوڑ آتی۔ دونوں پہلے پارک میں بیٹھتے اور پھر میٹرو اسٹور کا رخ کرتے۔ وہیں سے یہ تینوں چیزیں خریدی گئیں تھیں۔ تو بس آٹھ ماہ کا حاصل یہی تھا اور یہ بھی کہ یونس بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ اب بھاگا کیسے جائے؟ یہ سوال دونوں کے لیے نیا تھا۔پوچھتے تو کس سے؟بس دونوں نے اندازہ کیا۔ یونس نے کچھ معلومات لیں۔ اپنے کسی کلاس فیلو کے وکیل بھائی تک رسائی کی۔ ہدیہ مبلغ دس ہزار عوضانے سے وکیل صاحب نے کورٹ میں ان کے نکاح کی کارروائی مکمل کروادی۔ ویسے تو گاؤں چھوٹے شہروں کے لوگ اپنے تعلق ناتوں سے بغیر کسی پیسے کے ایک دوجے کے کام کردیتے ہیں لیکن وکیل تو وکیل ہوتا ہے۔باقی بچے دو لاکھ اڑتیس ہزار روپے۔ انہی پیسوں میں سے جو شگفتہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ ساتھ میں کوئی دس بارہ تولے سونا بھی تھا۔ شادی تو ہوگئی اب کہاں جائیں؟ یہ بات طے کرنے سے رہ گئی تھی۔ شگفتہ کو تو کوئی پریشانی ہی نہیں تھی۔ وہ تو کہے جارہی تھی کہیں بھی رہ لیں گے۔ اب “کہیں “یونس کہاں سے لائے۔اب تک تو جو بھی مراحل تھے وہ شگفتہ نے طے کروائے تھے مگر اب اسے بھی کچھ کرنا تھا۔ اس نے اپنے شہر کے رخ کرنے کا ارادہ کیا۔ دوران سفر وہ اسے تسلیاں دینے آئی۔ وہی پہلے والی۔
“کچھ بھی نہیں ہوگا۔پریشانی کی کیا بات ہے؟”
“ابا مجھے ایک لفظ بھی نہیں کہتے چاہے میں کچھ بھی کرلوں”۔
“اصل میں امی نہیں مانتی اور میں نے تمہارے بارے میں جب سے انہیں بتایا ہے انہوں نے رشتہ بھی کردیا ہے۔ بس ابو کےآنے کاانتظار ہے”شہر پہنچے یونس کے دوست کے تعلق دار کے خالی فلیٹ میں ٹھہر گئے۔ ایک دن، دودن، تین دن۔ فلیٹ سے نکلے ہی نہیں۔فون آتے رہے۔ یونس نے گھر بتادیا کہ دوستوں ساتھ گھومنے نکلا ہوں۔ دو تین دن میں آؤں گا۔ شگفتہ کیا بتاتی اور وہاں گھر میں تو سب کو پتہ چل گیا تھا۔ تیسرے دن ابو کا میسیج آیا۔
“یہ بھاگنے کی کیا تک ہے بھائی۔بے وقوف ہو تم۔گھر واپس آ جاؤ”شگفتہ کو میسیج پڑھتے رونا آگیا۔
“ابو ہم آرہے ہیں”
“اچھا ہے۔ “اور پیسے زیور کی بات تک نہ کی۔حالانکہ وہ سب کا سب واپس جارہا تھا۔ بس وکیل کی فیس کے علاوہ چند ہزار اور کم ہوئے تھے۔ شگفتہ گھر اکیلے جانا چاہتی تھی مگر یونس ماننے پر آمادہ ہی نہیں۔
” میں تمہیں گھر پہنچا کر واپس چلا جاؤں گا۔ “عصر سے تھوڑا پہلے وہ گھر جا پہنچے۔ گھر میں کیا داخل ہوئے ہنگامہ اورغل برپا ہو گیا۔ شور، گالیاں، دھمکیاں، رونا، دوہتڑ، بدعائیں،تھپڑیں، بالوں سے پکڑنا، کھینچا تانی، پھٹی ہوئی شرٹ سب شامل تھا۔ ایک کمرے میں شگفتہ نشانہ بن رہی تھی ایک میں یونس۔ شگفتہ کے لیے ماں کی طرف سے دوہتڑ اور ادھر یونس کو دھکیل کر دیوار سے ٹکرایا گیا تھا۔ ساتھ میں کچھ تھپڑ، پھٹا گریبان، ننگی گالیاں۔ یہ کاروائی ماموں، شگفتہ کے ابو کے بڑے بھائی، شگفتہ کے خالو اور ان کے فرزند، جو شگفتہ کے متوقع منگیتر تھے،کی طرف سے عمل میں لائی گئی۔ اس دوران شگفتہ کے ابو چپ چاپ کرسی پر بیٹھے تھے۔جب کارروائی ٹھنڈی پڑتی محسوس کی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ہوگیا بس ہوگیا۔اب آپ لوگ جائیں باقی میں دیکھ لوں گا۔ انھوں نے بلند آواز اور بلند ہاتھ کر کے دو تین بار بولا۔یہ سن کر مزید چلم چلی ہوئی۔کچھ اور تھپڑ گالیوں کے ساتھ پڑے۔
“میں آپ لوگوں کو بعد میں بلاؤں گا۔ فی الوقت آپ چلے جائیں۔”قہر برساتی آنکھیں، خطرناک دھمکیاں دیتی زبانوں اور پٹختے پاؤں کے ساتھ وہ لوگ جانے لگے اسی اثنا میں ابو نے متوقع منگیتر کا ہاتھ بھی پکڑا تھا۔
“بیٹا تمہارے ابو نے مارلیا ہے نا۔ فی الحال وہ کافی ہے۔ باقی بعد میں۔ شاباش۔”ابو نے سب کو چلتا کرکے گھر کا گیٹ بند کیااورواپس اپنے کمرے میں آئے۔کمرے کے فرش پر یونس اپنی بدحالی کے ساتھ موجودتھا۔
“ارے میاں یوں زمین پر تو نا بیٹھو۔”ابو نے یونس کا بازو پکڑ کر کرسی پر بٹھاتے کہا۔
“اور ماموں تم ایسے ہی کھڑے ہو۔جاؤ میاں جا کر پانی لے آؤ۔”یہ کہہ کر ذرا رکے اور پھر ماموں کو اور حکم کیا
“نہیں پانی لانے سے پہلے اپنی بہن کو لے آؤ۔”ماموں کیا اپنی بہن کو بلا لائے بس کمرے میں بگولا گھس آیا۔
“کمینے، بےشرم،بے غیرت۔تجھے اور کوئی نہیں ملا ؟ لعنت ہو تمہارے ماں باپ پر جنہوں نے ایسابے غیرت پیدا کیا ہے۔ ہماری عزت مٹی میں ملاکر ہمارے گھر آکر یوں صوفے پربن ٹھن آ بیٹھا ہے۔ بے حیا۔ وےمشتاق ان سے تو کچھ ہونے سے رہا۔پر تو یوں کھڑا ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔ اس حرامی کو ایک ہاتھ بھی نہیں مارا جاتا تجھ سے؟” ماموں غصے سے میں یونس کی طرف بڑھے۔ابا جب تک بڑھ کر روکیں تب یونس نے منہ میں نمکین ذائقہ محسوس کیا۔
“کیڑے پڑیں تجھے، قبر بھی نصیب نہ ہو، تم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔”
“بیگم ایسا نہ کہو اور یہ اپنے ماموں نہیں کہتےکہ زور زور سے بولنا شریفوں کو زیب نہیں دیتا۔ جاؤماموں اپنی بہن کو لے جاؤ۔ بلڈپریشر والی دوائی کھلا اور پانی وانی پلا۔ پھر یہاں پانی لے آنا۔”
“پانی کیوں ؟اسے روح افزا پلا روح افزا۔”اماں چلانے لگیں تو ابا خود سے پانی لے آئے۔
“یہ پانی پی لو بیٹا۔کہیں چوٹ ووٹ تو نہیں لگ گئی؟ لگی ہے۔ اچھا۔سر میں۔ ہاں وہ دیوار سے ٹکر ہوگئی نا۔ اس میں لگ گئی ہوگی۔۔اٹھواٹھو۔ شاباس بیڈ پر لیٹ جاؤ۔سفر کی بھی تھکن ہوگی۔ ارے بھائی جوان بنو۔اٹھو۔بیڈ پر لیٹ جاؤ۔ایک تکیہ کافی ہے؟ اچھا۔ دوسرے کی ضرورت ہو تو وہ بھی لے آؤں؟ نہیں؟ ٹھیک ہے۔ بیٹا دل میں نہ کرنا۔ زینت دل کی بری نہیں۔ زینت یہ شگفتہ کی ماں۔ بس اسے بھی تکلیف ہوئی ہوگی۔ تو اس لیے میں نے روکنا ٹھیک نہیں سمجھا۔ اور باقی میرے بڑے بھائی اور دوسرے تھے شگفتہ کے خالو۔ان لوگوں کا شگفتہ سے رشتے کا خیال تھا۔ بس سمجھو کہ ہم بھی راضی تھے۔ تواس بات سے انہیں دکھ ہوا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے تمہارے ساتھ یہ تھوڑا غلط کردیا۔ اصل میں غلطی میری ہے میں شگفتہ کو کہہ دیتا کہ وہ فی الحال تمہیں ساتھ نہ لائے۔ معاف کردینا بیٹا۔ لیکن یہ بھی ہےاچھا ہوا جو تم آگئے۔ سب کا غصہ بھی ہلکا ہوگیا نا۔ تم ٹھیک تو ہونا۔بول ہی نہیں رہے؟”
“سر میں درد ہورہا ہے۔” یونس کے الفاظ اور آنسو ساتھ نکلے۔
“ارے ارے۔ رو مت بیٹا۔ شاباس شاباس۔ میں ابھی گولی لے آتا ہوں۔ گولی کھالو۔ شاباش۔ اب میری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاؤ۔ لیٹ جاؤ ہاں ٹھیک ہے۔ تم بڑے اچھے لڑکے ہو۔ بڑے پیارے۔ تمہارے ساتھ واقعی زیادتی ہوگئی۔ لیکن کبھی کبھی ایسے ہوجاتا ہے بیٹے۔ ہر ایک اپنے دکھ کے آگے مجبور ہوتا ہے اس لیے انہوں نے تمہارےاوپر ہاتھ اٹھا ڈالا۔ رؤو مت۔ اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔سر زیادہ درد کر رہا ہے؟ اچھا یہ گولی تھوڑی دیر میں اثر کر لے گی۔ تم ٹھیک ہوجاؤگے۔آیوڈیکس کے مالش بھی بڑا فائدہ دیتی ہے۔میں آیو ڈیکس لے آتا ہوں۔ دیکھو بیٹا اگر مجھے شگفتہ بتا دیتی تو اس تکلیف کی نوبت ہی نہیں آتی۔ میں خود دھوم دھام سے تمہاری شادی کرواتا لیکن کوئی بات نہیں۔ تم کل پرسوں ہی اپنے والدین کو لے آؤ۔رسم دنیا ہے۔تو تمہاری رخصتی کردیتے ہیں۔بڑی دھوم دھام سے۔ہم بھی خوش ہو جائیں گے لوگ بھی خوش۔یہ ضروری تو نہیں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ایسے کرنا پڑتا ہے اور پھر ایک بار تم لوگوں نے اپنی مرضی سے ایک بار ہمارے مرضی سے۔ہاں؟ کیسے؟ ٹھیک ہے نا؟ تمہاری پہلے شادی ہے؟ نہیں نہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ واقعی پانچ بچے؟ سچ میں؟ تم نے مشکل بنا دیا۔ مسئلہ تو مشکل ہو گیا۔ ایسے تو شگفتہ کی ماں اور رشتے دار بالکل بھی نہیں مانیں گی۔ تمہاری غلطی نہیں ہے بیٹا۔ تم معافی نہ مانگو۔ اٹھو نہیں۔ اٹھو نہیں۔ لیٹے رہو۔ تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں۔ اب درد کچھ کم ہوا ہے؟ ہوجائے گا۔ ہوجائے گا۔ مالش ہو رہی ہے نا۔تو جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن بات مشکل ہوگئی۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ رواج ہی نہیں ہے۔ کیا کریں؟ تم نے شگفتہ کو بتایا ہوا ہے؟ اچھا پھر اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا؟ بس بھئی پھر تو بات ہی ختم۔ اصل فیصلہ تم دونوں کا ہے۔ تم دونوں راضی ہو تو دنیا کو بھی راضی ہونا چاہیے لیکن ہمیں ابھی عادت نہیں ہے۔ خیر ہوجائے گی۔ مگر اس بات کا کیا کریں۔ مجھے حل سمجھ نہیں آرہا۔ دیکھو بیٹا۔ اب توایک بات ہی ہوسکتی ہے۔تم دونوں ایک بار پھر بھاگ جاؤ اور کوئی راستہ نہیں۔ آج رات تم دونوں نکل جاؤ۔ میں یہیں ہوں۔ سب سنبھال لوں گا۔ فکر نہ کرو۔ میں بالکل خوشی سے کہہ رہا ہوں۔تم دونوں کی خوشی کی بات ہے۔ ارے ارے اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ یوں نہ کرو بیٹا۔ اچھا نہیں لگتا۔ میرے پاؤں چھوڑدو شاباس۔ تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ کوئی فکر نہ رکھو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہیں لیٹے رہو۔ ابھی تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ میں سر دباتا ہوں۔ سوجاؤ شاباس سوجاؤ۔ تم نے آدھی رات کو نکلنا بھی ہے۔ ” پھر دھیرے دھیرے یونس سو گیا۔ پھر اٹھا۔پتا نہیں کس وقت؟ ابا رات گئے کمرے میں اسے اٹھانے گئے تو وہ پھر بھاگ نکلا تھا۔اکیلا۔
Image:JOEY GUIDONE