رات کے اڑھائی بجے فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف جانی پہچانی آواز تھی۔ سلام دعا کے بعد پوچھا کہ اسلام آباد کے حالات کوکیسے دیکھ رہے ہیں میں نے کہا جیسے سب دیکھ رہے ہیں ہم بھی ویسے ہی دیکھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف سے قہقہ لگا اور مانوس آواز نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ایک وزیر عبدالقادر بلوچ کا کردار کل کی نسبت کافی اہم ہو گا۔ میں نے ایک لمبی سے ہوں کی اور فون رکھ دیا اور ٹپ پر کام شروع کر دیا۔
خبر یہ ہے کہ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ جو کہ جنرل راحیل شریف کے محسن اعظم ہیں، فوج اور حکومت کے بیچ فائر بندی کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
اگلے دن ٹی وی پر ہاہاکار مچی ہوئی تھی، قبلہ قادری نے پارلیمنٹ کا گھیراو کر لیا تھا، اور قبلہ عمران کی آنکھوں میں بھی خون اترا ہوا تھا۔ حالات بہت کشیدہ دکھائی دے رہے تھے کہ سہ پہر کو ہواوں کے رخ بدلنا شروع ہوگئے۔ قبلہ قادری کی گھن گرج کو کچھ دیر کے لیے سانپ سونگھ گیا۔ عبدالقادر بلوچ ہمراہ خواجہ سعد رفیق قبلہ قادری اور ان کے رفقا سے ملنے ان کے کنٹینر پر پہنچ گئے۔ وہ خود تونہیں ملے تاہم ان کے رفقا نے مہمانوں کی آو بھگت کی۔ ڈھیر سارے سوال میرے ذہن کو بھنبھوڑ رہے تھے؛ رات کی فون کال، انتہائی کشیدہ حالات کے بعد اچانک بہتری کے آثار۔۔۔۔ تو گتھی کو سلجھانے کی کوشش شروع کر دی۔ کچھ تحقیق کے بعد کافی چیزوں سے دھند چھٹ گئی۔
خبر یہ ہے کہ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ جو کہ جنرل راحیل شریف کے محسن اعظم ہیں، فوج اور حکومت کے بیچ فائر بندی کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ناصرف کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ تیزی سے ڈرامے کو ڈراپ سین کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ جنرل بلوچ جب کور کمانڈر کوئٹہ تھے تو انہوں نے راحیل شریف کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور چیف آف آرمی سٹاف بنانے کی ساری لابنگ بھی جنرل بلوچ نے کی تھی۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ دونوں کا عزت و احترام کا رشتہ بہت گہرا ہے اور بالکل ایسا جیسے ایک اچھے استاد شاگرد کا۔
لیکن کہانی اب اتنی سادہ بھی نہیں کیوں کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم او جنرل راحیل کی طرح حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ گو حکوت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے وہ تمام "احکامات” مان لیے ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو نواز شریف کوسبق سکھانے کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔ جو "احکامات” مانے گئے ان میں مشرف کو مقدمے سے نکالنا، کچھ حضرات کی نوکریوں میں توسیع اور خارجہ امور میں فوج کے تسلط کی بحالی جیسے معاملات تھے۔ عمران خان کا غصہ بجا ہے کیونکہ جو لوگ ان کو یہاں تک لائے تھے وہ اپنے تمام مقاصد پورے کر کے اب پیچھے ہٹ چکے ہیں اور خان صاحب بیچ چوراہے میں تنہا رہ گئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اکٹھ نے بھی اصل آقاوں کو مضبوط پیغام دیا ہے کہ اب کی بار موسم پہلے جیسا نہیں ہے۔
خبر یہ ہے کہ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ جو کہ جنرل راحیل شریف کے محسن اعظم ہیں، فوج اور حکومت کے بیچ فائر بندی کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ناصرف کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ تیزی سے ڈرامے کو ڈراپ سین کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ جنرل بلوچ جب کور کمانڈر کوئٹہ تھے تو انہوں نے راحیل شریف کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور چیف آف آرمی سٹاف بنانے کی ساری لابنگ بھی جنرل بلوچ نے کی تھی۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ دونوں کا عزت و احترام کا رشتہ بہت گہرا ہے اور بالکل ایسا جیسے ایک اچھے استاد شاگرد کا۔
لیکن کہانی اب اتنی سادہ بھی نہیں کیوں کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم او جنرل راحیل کی طرح حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ گو حکوت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے وہ تمام "احکامات” مان لیے ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو نواز شریف کوسبق سکھانے کی ضد لگائے بیٹھے ہیں۔ جو "احکامات” مانے گئے ان میں مشرف کو مقدمے سے نکالنا، کچھ حضرات کی نوکریوں میں توسیع اور خارجہ امور میں فوج کے تسلط کی بحالی جیسے معاملات تھے۔ عمران خان کا غصہ بجا ہے کیونکہ جو لوگ ان کو یہاں تک لائے تھے وہ اپنے تمام مقاصد پورے کر کے اب پیچھے ہٹ چکے ہیں اور خان صاحب بیچ چوراہے میں تنہا رہ گئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اکٹھ نے بھی اصل آقاوں کو مضبوط پیغام دیا ہے کہ اب کی بار موسم پہلے جیسا نہیں ہے۔
عمران خان کا غصہ بجا ہے کیونکہ جو لوگ ان کو یہاں تک لائے تھے وہ اپنے تمام مقاصد پورے کر کے اب پیچھے ہٹ چکے ہیں اور خان صاحب بیچ چوراہے میں تنہا رہ گئے ہیں۔
شخصی ذرائع کے مطابق مزید یہ کہ جیسے ہی ڈی جی آئی ایس آئی نے ہاں میں سر ہلا دیا انقلاب اور آزادی مارچ خزاں کے زرد پتوں کی طرح اڑ جائیں گے۔ اورسابق ڈی جی آئی ایس آئی پاشا کی عمران اور قادری سے حالیہ ملاقاتوں سے یہ بھی کھل کے سامنےآ گیا ہے کہ سابق افسران کا اثر و رسوخ کس بلا کا نام ہے۔ اور اسی دوران ہر وہ ممکنہ طریقے سوچے جا رہے ہیں جو خان صاحب کو اس دلدل سے مزید نقصان پہچائے بغیر نکال سکیں۔ ان طریقوں میں سرفہرست ان کی گرفتاری ہے۔ جبکہ قادری کو نکالنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ ایک "اچھے سے” معاہدے کی مار ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ سکرپٹ رائٹر نے سکرپٹ تو اچھا لکھا تھا لیکن بہرحال کرداروں میں کچھ نہ کچھ خامیاں رہ ہی جاتی ہیں۔ آرمی چیف نے جو منہ سے نکالا انہیں مل گیا جبکہ پاشا اینڈ کمپنی اس وقت تھوڑے تذبذب کا شکار ہیں۔ اور جیسے ہی وہ تذبذب سے باہر آئیں گے سب اچھا ہو جائے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سکرپٹ رائٹر نے سکرپٹ تو اچھا لکھا تھا لیکن بہرحال کرداروں میں کچھ نہ کچھ خامیاں رہ ہی جاتی ہیں۔ آرمی چیف نے جو منہ سے نکالا انہیں مل گیا جبکہ پاشا اینڈ کمپنی اس وقت تھوڑے تذبذب کا شکار ہیں۔ اور جیسے ہی وہ تذبذب سے باہر آئیں گے سب اچھا ہو جائے گا۔
Apkay analysis kisi had tak darust hain par aap do baatain wazay kar daytay to acha hota, Aik Extension of DG ISI aur dosri Interior Minister ka is sab dramay k pechay role.
اجمل جامی کا نعره واقعی مستانے کا نعره هے حقیقت سے کوسوں دور.اگر عمر کم اور تجربه سے دامن خالی هو تو بات کرنے سے پهلے کسی سیانے سے اصلاح آرٹیکل کروالینا کوئی هتک کی بات نهیں.انسان آهسته آهسته سیکهتا هے کوئی بهی انسان ماں کے پیٹ سے پڑها پڑهایا پیدا نهیں هوتا.اجمل جامی کی یه کهانی چهوٹا منه بڑی بات هے.ویسے بهی مقوله هے”کمبلا گل کرے تے سیانا قیاس کرے”اجمل جامی کا سانس بهی بڑا مختصر لگتا هے جاوید چودهری کی طرح لمبے سانس والا نهیں.شاید اس لیے که”نواں آیاں ایں سوهنیا”
ذرا بچ کے اگر بچپن میں هی بری لت پڑه گئی تو جاوید چودهری کی عمر کو پهنچتے پهنچتے تمهارا کیا حشر هو گا شاید تمهیں اس بات کا اندازه هی نهیں.
Totally disagree with this lafafa journalist
Rai saab, you words are kind of a LORI to Mian sab k so jaen everything is fine and taken care of. But these LORIs become less effective when Mian sb is awaken by the shouts and slogans of the charged up crowd in the middle of the night. There is no cure left for Mian sb.. He is becoming weak with every passing hour, SC has given them shut up call, Police requires written orders, Model Town FIR cannot be delayed, Army has genuine concerns and above all THE PEOPLE NOW UNDERSTAND THAT THIS SYSTEM IS POISONING PAKISTAN AND MUST BE CHANGED …. CHANGE IS THE WRITING ON THE WALL …
You can try your best but still cannot take the seat from Irfan Siddiqui …
Well done
i think ye ksi k bnye hue soch he real me jo chal rha he wo such he …
احتجاج چاہے جو کروائے نتائج جمہوریت کے لئے اس حوالے سے اچھے نکلتے ہیں کہ برسراقتدار پارٹی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کردیتے ہین اورکوشش کرتے ہیں کہ موجودہ با خبر عوام کے مزاج کے مطابق حکمرانی کرے۔میں یہاں عرض ضرور کروں گا کہ اگر اسمبلیوں کی مدت تین سال کردی جائے تو احتجاجوں میں کمی ہوگی کیونکہ حزب مخالف پانچ سالوں تک بغیر حکمرانی کے مرتے ہیں۔تین سالہ مدت اسمبلی کی صورت میں ان لیڈران کو جلد جلد عوام کی دہلیز پر جانا پڑے گا۔۔۔۔عوام کی عزت نفس میں اضافہ ہوگا۔۔۔موجودہ پانچ سالہ مدت میں حکومتیں ہمیشہ آخری سال ترقیاتی منصوبوں پر زورشروع کردیتے ہیں تاکہ عوام پھر ووٹ دیں۔ تین سالہ مدتی ہونے پر ہردو سال بعد ترقیاتی کاموں کا جال بچھے گا، انش ا للہ
I can write story better then this .
Make sense.. Uander kee Baat theek lugteee hey,,,,
Even if you make a story from yourself , you need to be aware of facts in a better manner, so that you could manipulate confusions. My dear you are not well aware of facts as well. Therefore your story seems to be from old suspense digest. Better try your luck in those magazines.
Nothing more than a conspiracy theory. Without concrete evidence he jumped over the conclusion. I wish the things were so simple to understand and easy to do.
Quite a single point extrapolation. You should try pursuing career as story writer that will suit your skills better.
this is and old story which has been copied by rai shah nawaz
Wake up….U are saying Model Town Incident was Fake…In this Country killing of 14 citizen is not enough for registering the FIR…We all saw the rigging cases live on TV but why Government was afraid of opening 4 Constituencies. Its being 15 months PTI talked on every forum for this specific issue. Took all formal steps for the solution. But Government influences the departments and I would say they manipulate whole system and make justice unreachable for people of this country. Now they are saying we will open all Constituencies….y didn’t they agree on first instance….even that is the legal right of PTI. Sir, With due all respect this is not democracy or a democratic way of handling sensitive issues in this country. We all know that this elections was massively rigged but we don’t want to wake up…because we have lost our confidence from the system….we don’t believe that there could be a man who stand up for us and fight for us…Now some of us want a slavery but telling you Sir, this nation has waked up…as a journalist it is your responsibility to tell the facts to this nation not just your assumptions or dictation from others.
Regards,
Qasim Ali