چہل قدمی کرتے ہوئے

ابرار احمد: کہیں ایک باغ ہے غیر حتمی دوری پر سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا کہیں کوئی آواز ہے بے نہایت چپ کے عقب میں بے خال و خد، الوہی، گھمبیر کہیں کوئی دن ہے بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا

نغمۂ جنوں

رانا غضنفر: میرے حرفِ جُنوں کے سندیسے بزمِ آفاق سے اُبھرتے ہیں اور میں نغمہِ جنوں لے کر پھر کسی جُستجو میں نکلا ہوں

رستہ سہل نہیں ہے

اپنے من کے اندر چھپ کر جب بھی تجھ سے ملنے نکلوں باتیں کرتی ہوا سے مل کر شاخیں شور مچاتی ہیں سڑکوں کی دو رویہ آنکھیں روشن ہوتی جاتی ہیں

تمثیل

سُرمئی شام کے بڑھتے ہوئے سنّاٹوں میں دف کی آواز پہ اک شور بپا ہوتا ہے پھیلتا جاتا ہے آسیب گُذرگاہوں پر آگ کا شعلہ سرِ شام رہا ہوتا ہے مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں بستی والے دیکھیے رات کی آغوش میں کیا ہوتا ہے؟

ھل من ناصرًا ینصرنا

کوزہ گر، تو نے جب مجھ کو تشکیل دی تھی تو اتنا تو کرتا مجھے اک مبارز بناتا مرے ہاتھ میں ایک تلوار دیتا کہ اپنی حفاظت مرا کام ہوتا مگر میں نہتّا، اکیلا کھڑا دیکھتا ہوں عدو چاروں جانب سے یلغار کرتے ہوئے آ رہے ہیں

گورا قبرستان

اُٹھے ہوئے ہاتھ ٗ گردنیں تو صلیب و گنبد میں ڈھل رہے ہیں نئے نئے سائے تازہ قبروں سے بے خودی میں نکل رہے ہیں اور اس دھوئیں کی کثافتوں میں تمام منظر پگھل رہے ہیں

بیل ذبح ہو گیا

پھر بازار کے بیچ میں صبح سویرے بیل کی رسی کھلتی سب لوگوں نے دیکھی دیکھتے دیکھتے کھال کی کترن کٹ کے دھڑیوں میں گوشت کو چانپ چانپ بکھیر گئی اور دیکھتے دیکھتے خلقِ خدا سب ران گوڑ کو چتون چتون چاٹ گئی

ہمیں اس جنگ سے کس دن مفر تھا

قسم رب کی اور اس سب کی جسے اس پالنے والے نے پالا ہے ہمیں اس جنگ سے کس دن مفر تھا مگر یہ کہ عباؤں میں تمہارا اپنی تلواریں چھپانا اور سجدوں میں ہمارا قتل ہو جانا روایت ہے