[blockquote style=”3″]
انور سین رائے کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
شاعر: انور سین رائے
ستاروں سے مجھے وہ سیاہی درکار تھی
جو نظمیں لکھنے کے کام آ سکتی تھی
لیکن وہ غیر ضروری ذمہ داریوں میں الجھے رہے
پہلے سے بڑھ گئی ہیں ستاروں کی ذمہ داریاں
پہلے وہ صرف راتوں اور اندھیرے کے خوف کم کرتے تھے
صبح تک سڑکیں ناپنے والوں کی دلجوئی کرتے تھے
بھٹکے ہوؤں کو راستے سجھاتے تھے
ہم لڑکپن میں داخل ہونے کے لیے اپنے بچپن کو ان کے پاس چھوڑ سکتے تھے
لیکن اب میں نظمیں لکھتا ہوں
یہ جانے بغیر کہ کیوں لکھتا ہوں کب تک لکھوں گا
اور کیا ہو جائے گا اگر نہیں لکھوں گا ایک میں
میں نظمیں ہی لکھوں گا
چاہے ستارے سیاہی سے خالی ہو جائیں
اور آسمان کاغذ بننے سے انکار کردے
چاہے زمین سیاہی سے خالی ہو جائے
اور بادل دیوار بننے سے انکار کر دیں
چاہے محبت کی دوات الٹ جائے یا کرچی کرچی ہو جائے
اور خواب نوٹ بک بننے سے انکار کر دیں
میں آخری وقت تک نظمیں لکھوں گا
چاہے لکھنی پڑیں پلکوں سے، نظروں سے
یا آخری لمس سے
حالاں کہ جب میں نظم لکھتا ہوں
تو لگتا ہے کہ آ گیا ہے میرا آخری وقت
نظم اپنی ابتدا کرتی اور مجھے قتل کرنا شروع کرتی
نظم ناز کرتی اٹھلاتی بڑھتی جاتی ہے اور میں مرتا جاتا ہوں
نظم ختم ہو تی ہے،
ایک ستارہ تلاش کرتی ہے اپنے لیے اور میرے لیے
مجھے اُس ستارے سے جوڑ دیتی ہے
تا کہ جی اٹھوں ،
تا کہ قتل کیا جا سکوں ایک بار پھر
جو نظمیں لکھنے کے کام آ سکتی تھی
لیکن وہ غیر ضروری ذمہ داریوں میں الجھے رہے
پہلے سے بڑھ گئی ہیں ستاروں کی ذمہ داریاں
پہلے وہ صرف راتوں اور اندھیرے کے خوف کم کرتے تھے
صبح تک سڑکیں ناپنے والوں کی دلجوئی کرتے تھے
بھٹکے ہوؤں کو راستے سجھاتے تھے
ہم لڑکپن میں داخل ہونے کے لیے اپنے بچپن کو ان کے پاس چھوڑ سکتے تھے
لیکن اب میں نظمیں لکھتا ہوں
یہ جانے بغیر کہ کیوں لکھتا ہوں کب تک لکھوں گا
اور کیا ہو جائے گا اگر نہیں لکھوں گا ایک میں
میں نظمیں ہی لکھوں گا
چاہے ستارے سیاہی سے خالی ہو جائیں
اور آسمان کاغذ بننے سے انکار کردے
چاہے زمین سیاہی سے خالی ہو جائے
اور بادل دیوار بننے سے انکار کر دیں
چاہے محبت کی دوات الٹ جائے یا کرچی کرچی ہو جائے
اور خواب نوٹ بک بننے سے انکار کر دیں
میں آخری وقت تک نظمیں لکھوں گا
چاہے لکھنی پڑیں پلکوں سے، نظروں سے
یا آخری لمس سے
حالاں کہ جب میں نظم لکھتا ہوں
تو لگتا ہے کہ آ گیا ہے میرا آخری وقت
نظم اپنی ابتدا کرتی اور مجھے قتل کرنا شروع کرتی
نظم ناز کرتی اٹھلاتی بڑھتی جاتی ہے اور میں مرتا جاتا ہوں
نظم ختم ہو تی ہے،
ایک ستارہ تلاش کرتی ہے اپنے لیے اور میرے لیے
مجھے اُس ستارے سے جوڑ دیتی ہے
تا کہ جی اٹھوں ،
تا کہ قتل کیا جا سکوں ایک بار پھر