Laaltain

نتیجہ وہی مگر شور نہیں

23 نومبر، 2015
کتناعجیب سیاسی سفر ہے، کہاں مینارِپاکستان پر اکتوبر 2011ء کے جلسے کی بلندی اورکہاں بلدیاتی انتخابات میں ذلت آمیزپستی۔ ہمیں اکتوبر 2011ء کے بعدکا وہ ماحول بھی اَزبَر ہے جب گھرگھر کپتان کے چرچےتھے۔ تب لوگ کہتے تھے کہ ہر گھر سے بھٹو تو نہیں نکلا لیکن ’’سونامیہ‘‘ ضرورنکلتا ہے۔ کپتان صاحب کی شخصیت کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا تھا اورپاکستان میں سوائے تحریکِ انصاف کے اور کوئی سیاسی جماعت نظرہی نہیں آتی تھی۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے لیے کپتان صاحب بہت مرغوب ومحبوب تھے اورکالم نگار دھڑا دھڑ اُن کی شان میں قصیدے لکھ رہے تھے۔ وہ جہاں بھی جلسہ کرتے خلقِ خُدا ٹوٹ ٹوٹ پڑتی۔۔۔۔ پھرچشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ خاں صاحب کو لاہور کے صرف ایک حلقے (122) کے ضمنی انتخاب میں جیت کے لیے گلی گلی کی خاک چھاننی پڑی لیکن کامیابی پھر بھی مقدرنہ ٹھہری۔ حقیقت یہی ہے کہ کپتان صاحب شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر تیزی سے پستیوں کی جانب گامزن ہوگئے۔ وہ غلطی پہ غلطی کرتے چلے گئے اور ملم لیگ نواز ان غلطیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھاتی رہی۔ پہلی غلطی یہ کہ اُنہوں نے نوجوان سونامیوں سے وعدہ تو صاف ستھری قیادت دینے کا کِیا لیکن اپنے گرد کرگسوں کا انبوہِ کثیر اکٹھا کر بیٹھے جس سے نہ صرف سنجیدہ طبقے بلکہ ’’سونامیے‘‘ بھی بَددِل ہوئے۔ دوسری غلطی 2013ء کے انتخابات سے پہلے ’’درون جماعت انتخابات‘‘ کرانا تھا جس میں کھُلم کھُلا دھاندلی ہوئی اورپیسے کا بے دریغ استعمال بھی۔ نتیجہ یہ کہ تحریکِ انصاف اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ تیسری غلطی ، تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے بارے میں انتہائی غیرپارلیمانی زبان کا استعمال ہے جسے سنجیدہ طبقوں نے شدید ناپسندکیا۔ چوتھی اورسب سے بڑی غلطی 2013ء کے انتخابات کو تسلیم نہ کرنا اور دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے احتجاجی سیاست کا چلن اپنانا۔ حیرت ہے کہ اُدھر قومی وبین الاقوامی جائزے خاں صاحب کی مقبولیت کوپستیوں کی طرف گامزن دیکھ رہے تھے لیکن پھربھی وہ پتہ نہیں کس برتے پہ کہتے رہے کہ تحریکِ انصاف دوتہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ انتخابات ہوئے اورنتیجہ شماریاتی جائزوں کے عین مطابق نکلا اور دو تہائی اکثریت کی دعویدار تحریکِ انصاف تیسرے نمبرپر رہی۔

 

پھرچشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھا کہ خاں صاحب کو لاہور کے صرف ایک حلقے (122) کے ضمنی انتخاب میں جیت کے لیے گلی گلی کی خاک چھاننی پڑی لیکن کامیابی پھر بھی مقدرنہ ٹھہری۔ حقیقت یہی ہے کہ کپتان صاحب شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر تیزی سے پستیوں کی جانب گامزن ہوگئے۔ وہ غلطی پہ غلطی کرتے چلے گئے اور ملم لیگ نواز ان غلطیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھاتی رہی۔
خاں صاحب کی ایک اور غلطی خیبرپختونخوا حکومت کاحصول تھا۔ اُنہوں نے حکمرانی کے شوق میں حکومت توبنالی مگر پھر اُس کی طرف مطلق توجہ نہ دی۔ اگر وہ خیبرپختونخوا کو اپنے دعووں کے عین مطابق ’’مثالی صوبہ‘‘ بنانے کی تگ و دَوکرتے تو ہو سکتا تھا کہ 2018ء کے انتخابات اُن کے خوابوں کی تعبیر میں ڈھل جاتے لیکن اُنہیں تو وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت تھی اِس لیے اُنہوں نے احتجاجی سیاست اور دھرنوں کا راستہ اپنایاجس نے رہی سہی کسربھی نکال دی۔ خاں صاحب کو تو یقین دلایا گیا تھا کہ اُدھر خاں صاحب ڈی چوک اسلام آباد پہنچے اور اِدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی لیکن وہ انتظار ہی کرتے رہے اور ’’انگلی‘‘ کھڑی نہ ہوسکی۔ بہترہوتا کہ خاں صاحب مولاناقادری کی طرح کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر بستربوریا لپیٹ لیتے لیکن اُن کی ضد اور ہَٹ دھرمی نے اُنہیں روکے رکھا۔ 126 روزہ دھرنے میں خاں صاحب کے حصّے میں کچھ بھی نہیں آیا البتہ سیاسی طورپر اُنہیں بے تحاشہ نقصان ضرور پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں کے بعد جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے کسی ایک میں بھی تحریکِ انصاف سُرخ رو نہ ہو سکی، حتیٰ کہ اُن کی اپنی حکومت کے زیرِ انتظام ہری پور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اُن کے اُمیدوار کو 40 ہزارسے زائد ووٹوں سے شکست کاسامنا کرنا پڑا حالانکہ عام انتخابات میں یہ فرق محض چھ، سات سو ووٹوں تک محدود تھا۔

 

ویسے تو تحریکِ انصاف کے لیے لال حویلی والے شیخ رشیدہی کافی تھے لیکن ہوا یہ کہ چودھری سرور بھی گورنری ’’تیاگ‘‘ کر تحریکِ انصاف سے آن ملے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اُنہیں پنجاب کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا گیا جس کا شاہ محمود قریشی نے بہت برامنایا اور وہ عملی طورپر ’’نُکرے‘‘ لگ گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریکِ انصاف کو ہزیمت کاسامنا کرناپڑا اور وہ تیسرے نمبرپر آئی البتہ چودھری سروربڑے فخرسے کہہ رہے تھے کہ اُنہوں نے جو اندازہ لگایا وہ بالکل درست نکلا کیونکہ اُنہوں نے تو تحریکِ انصاف کے لیے دَس فیصد کا اندازہ لگایا تھا جودرست نکلا۔ 19 نومبرکو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے پر نتیجہ پھر وہی۔ اِس مرحلے پرخاں صاحب کو اپنے آبائی حلقے عیسیٰ خیل میں بھی بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا اور تحریکِ انصاف 16 میں سے 15 نشستیں ہار گئی۔ اب چودھری سرور ایک دفعہ پھرکہہ رہے ہیں’’ ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اُڑائی گئیں، اربوں روپے کے فنڈز سے نالیاں اور گلیاں بن رہی ہیں اور سوئی گیس کے پائپ بچھائے جا رہے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے حکومت تبدیل نہیں ہوتی اِس لیے بلدیاتی انتخابات حکومت کے ہوتے ہیں‘‘۔ اِس کے باوجود بھی وہ خوش کہ تحریکِ انصاف نے پہلے مرحلے سے زیادہ ووٹ لیے۔ اگر چودھری صاحب کی اِس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ بلدیاتی انتخابات حکومت ہی کے ہوتے ہیں تو پھر سوائے حکمران جماعت کے کوئی بھی سیاسی جماعت بلدیاتی انتخابات میں حصّہ ہی نہ لے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی بلاشرکتِ غیرے حکمران ہے لیکن پھر بھی بدین (جوپیپلز پارٹی کاگڑھ سمجھا جاتاہے) میں آصف زرداری صاحب کے سابق دوست اورموجودہ بدترین دشمن ذوالفقار مرزا نے پیپلزپارٹی کا جنازہ نکال دیا اور حیدرآباد ایم کیو ایم لے اُڑی۔ ملم لیگ نواز کے کسی بھی نامی رہنماء نے سرے سے سندھ کا رُخ ہی نہیں کیا لیکن پھر بھی اُس کے حصّے میں 100 سے زائد نشستیں آئیں جبکہ بلاول زرداری کے نئے ’’چاچا‘‘ عمران خاں سندھ میں جلسے کر کرکے تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘ گئے لیکن ملاکیا؟ صرف 8 نشستیں۔ تسلیم کہ حکمران جماعت کا تھوڑا بہت اثر ضرور ہوتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں جتنا چودھری صاحب بتارہے ہیں۔ اگر ایساہی ہوتا تو وفاقی وزیرسارہ افضل تارڑ کے والد افضل حسین کو شکست کاسامنا نہ کرناپڑتا۔

 

19نومبرکو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے پر نتیجہ پھر وہی۔ اِس مرحلے پرخاں صاحب کو اپنے آبائی حلقے عیسیٰ خیل میں بھی بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا اور تحریکِ انصاف 16 میں سے 15 نشستیں ہار گئی۔
دوسرے مرحلے کے انتخابات کی ہمارے نزدیک سب سے مثبت بات یہ رہی کہ پہلے مرحلے کی طرح خونریزی دیکھنے میں نہیں آئی۔ دوسری مثبت تبدیلی یہ ہے کہ تحریکِ انصاف بھی ’’ٹھنڈی ٹھار‘‘ ہوکے بیٹھ رہی۔ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں تو چودھری سرور نے آسمان سرپہ اُٹھا رکھا تھا کہ تحریکِ انصاف کے ووٹرز کو راتوں رات دوسرے حلقوں میں منتقل کر دیا گیا لیکن ثبوت وہ کوئی ایک بھی پیش نہ کرسکے (اُنہوں نے اعلان کررکھا ہے کہ اگروہ ثبوت پیش نہ کرسکے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ پرویز رشیدصاحب اسی کو بنیاد بناکر اُن سے ایفائے عہدکا تقاضہ کررہے ہیں)۔ اب دیکھیں بلدیاتی انتخابات میں چودھری صاحب شکست کا کیا بہانہ تراشتے ہیں۔

Image Courtesy: Sabir Nazar

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *