Laaltain

چلو کوئی بات نہیں

26 جولائی, 2016
Picture of سعد منیر

سعد منیر

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

چلو کوئی بات نہیں

[/vc_column_text][vc_column_text]

ڈھا دو یہ دن اور اس دن کی آستین میں بلکتے سانپ
اور ان کے سنپولوں سے میری پرانی دوستی کی دیوار
اور بہا دو مجھ پر رات اور رات کے اکیلے جنازے
جن میں کھڑے لوگوں کے آدھے جڑے شانے
اور ان شانوں پر کئی سورجوں کی مکّاری کا بوجھ
میں کہتا ہوں کہ تم ڈھا دو بہا دو مجھ پر
میں وقت کی لکیر، وہ ممکناتِ عدم سے کھنچی ہوئی
وہ شہرِ ششدر کی فصیلوں پر بجھی ہوئی
اس لکیر کی پیمائش پر مامور حیرت
اور اس کا پہلا آخری سفر
میں اس پر چمٹ کر بیٹھا ہوا
نرم پانیوں کا کچھوا
میں سکوت کے آخری چند لفظ کی استعارہ آواز میں
ٹوٹ گئی ہچکی کا بدن ہوں
میں خدا کی سوچ کا وزن ہوں
یہ دنیا، یہ طوفانِ نوح میں گھری ہوئی مٹی
اور اس مٹی میں ایک اکیلا تنکا
سینہ پھاڑ کر کہتا ہے
میرے اعصاب ہیں ایک ایک ذرے کے جذبات
میں ستاروں کے حلق میں اٹھتی جلن ہوں

 

تمہیں کیا پتا میں نے کتنی زمینیں
اور ان زمینوں کے حاتم آسمانوں میں کتنے سناٹے سیاروں کے
بھیک مانگتے اندھیرے
جلا دیے ہیں
ایک “چلو کوئی بات نہیں” کو ڈھونڈتے مانگتے
میں نے ہدایتوں کے شکایتوں کے
وہ دیوان کیے ہیں مرتب
کہ سفینہِ نوح کے لواحقین
ٹوٹتے سورج تک نصیحتوں کے لیے
آسمان کی چادر نہیں کھینچیں گے
تمہیں کیا پتا ان دلدلوں کا کہ جن میں
اپنے ہزار اجسامِ فلکی و مٹی
میں ڈوبتے چھوڑ آیا ہوں
وہ دیواریں کہ جن کے مرکز کی آخری اینٹ میں دبی ہے اندوہناک خاموشی
اور ادھر اس خاموشی کے پہلو میں چنا ہوا
ادھر آگے تم سے ہمکلام ہنستا ہوا
میں المیہ ساز، کہانی باز
اپنے سراب چھوڑتا ہوا جا رہا ہوں

 

تم میری جیب میں چھنکتی دھوپ کو دیکھو
یہ منحوس روشنی میری تمہاری ہوئی یہ لو!
میری جرابوں میں اڑسے اندھیرے
ایک “چلو کوئی بات نہیں” پر دان ہوں گے
تمہارے ہاتھوں کی لکیروں کے تخیل میں ڈوبتے جہازوں پر کھڑا ملاح
میری کشتی کو مانتا نہیں ہے کشتی
مجھ فقیروں کے سناٹے قافلے
رکا نہیں کرتے
ایسی لکیروں سے جڑا نہیں کرتے

 

اے محبت کے راگ اور تمہاری الاپ
تمہاری کاٹ اور جوق در جوق کٹتے پھوٹتے ہوے آدمیوں
کی بھاپ
تمہاری بند آنکھیں
ان سے وضو کرتے پتھر
اور ان پتھروں کے مقدر میں لکھے سر
ان سروں کی قسم
یہ میرے ڈوبنے کا منظر ہے
یہ رات کا پینتالیسواں گھنٹہ
ہزارویں دفعہ بجا ہے
اور تم اترتے ہو
میرے اثرات کے پردے سے
ایک خداِ بزرگوار کی طرح
ہاتھ بڑھا کر تھامتے ہو
مسکرا کر کہتے ہو
“چلو کوئی بات نہیں”
اور جرابوں میں اڑسا
اندھیروں کا ملبہ
پہلی اینٹ پر
رکھتا ہے
دوسری اینٹ کا تصّور

Image: Daehyun Kim
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

ہمارے لیے لکھیں۔