دوسرے دن صبح صبح گھر کی کنڈی بجی۔ صبح صبح گھر کی کنڈی کا بجنا اُس زمانے میں کسی کی موت کی خبر آنا تھا اور وہی ہوا۔ معلوم ہوا کہ گاؤں میں عصمت چچّا ممّا ریل سے کٹ کر مر گئے۔ اُنہوں نے خودکشی نہیں کی تھی۔ وہ تو رساول کی ہانڈی لے کر کسی رشتے دار کے گھر جارہے تھے، مگر جس کو وہ سڑک یا پگڈنڈی سمجھ کر چلتے جارہے تھے، وہ دراصل گاؤں کے قریب سے نکلنے والی ریل کی پٹری تھی۔
عصمت چچّا ممّا کا کمزور اور تقریباً بوڑھا ہوچلا جسم، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا اور رساول کی ہانڈی پرزے پرزے ہوکر واپس مٹّی کی جون میں آگئی۔
یہ خبر سنتے ہی گھر کے تمام افراد پریشانی اور عجلت میں گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔ صرف نورجہاں خالہ اور اچھّن دادی رہ گئیں۔ اچھّن دادی تو کولہے کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث بالکل معذور ہوچکی تھیں اور بستر سے اُٹھ کر چلنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
وہ بستر پر ہی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتی تھیں اور اب اُن کے جسم پرجگہ جگہ زخم بھی پڑ گئے تھے، کیونکہ وہ کروٹ بھی نہیں لے پاتی تھیں۔ اُن کے کھانے پینے کی اشیاء اُن کے سرہانے ہی رکھی ہوتیں، جنھیں جب اُن کی طبیعت چاہتی، ہاتھ اُٹھاکر منھ میں ڈال لیتیں۔ باقاعدہ کھانا کھانا تو نہ جانے کب کا چھوٹ گیا تھا، مگر بہرحال اُن کے پیٹ میں ابھی آنتیں زندہ تھیں اور اسی لیے اُن کے بستر کے قریب پہنچتے ہی بدبو کا ایک زبردست بھبکا ناک میں جاتا تھا۔ اِس لیے میں اُن کے پاس جانے سے ہمیشہ کتراتا تھا۔
نورجہاں خالہ ہمیشہ کی طرح زیادہ تر وقت نہانے یا نہانے کی کوشش میں ہی گزارتی تھیں۔ کبھی کبھی آنگن میں ہی کپڑے اُتار کر نہانا شروع کر دیتیں اور اُنہیں بڑی مشکل سے قابومیں کیا جاتا۔ باورچی خانے کو غسل خانہ سمجھتی تھیں اور غسل خانے کو باورچی خانہ۔ نورجہاں خالہ نے گھر کے سب لوگوںکی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔
عصمت چچّا ممّا کے کٹ کر مرنے کی خبر سنتے ہی وہ فوراً اپنا جمپر اُتارتے ہوئے باورچی خانے میں نہانے کے لیے بھاگیں۔ اُنہیں آہستہ آہستہ اپنے ننگے ہونے کا احساس بھی ہونا تقریباً بند ہو گیا تھا۔ آخر گھر والوں کو اُنہیں تقریباً زبردستی گود میں اُٹھا کر غسل خانے لے جانا پڑا، جہاں انھوں نے لوٹا بھر بھر کر نہانا شروع کردیا۔
’’گڈّو میاں تم گھر رہنا۔ آج اسکول کی چھٹی کر لو۔‘‘ بڑے ماموں نے چلتے چلتے کہا تھا۔
گھر خالی ہوگیا مگر میرا دل نہیں گھبرایا بلکہ مجھے ایک آزادی کا احساس ہوا۔ ایک خطرناک بیکراں آزادی۔ وجود کے اندر پھیلتا ہوا ایک وسیع تر سفید صحرا جس میں کالے سائے اپنی اصل شکل و صورت اور خدوخال کے ساتھ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اندر سے کنڈی لگا رکھی تھی، جاکر دروازہ کھولا۔
سامنے آفتاب بھائی کھڑے تھے۔ اپنی بھوری بے رحم رنگت اور آنکھوں کے ساتھ۔ منھ میں وہی گھٹیا اور بدبو دار سگریٹ تھا۔
آفتاب بھائی اندر آگئے۔
’’کیا ہوا؟ گھر میں کوئی نہیں ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کہاں گئے ہیں؟‘‘
’’عصمت چچّا ممّا مر گئے۔‘‘
’’ہوں— اچھا! دیکھو یار گڈّو میاں باورچی خانے میں کچھ کھانے کو ہے؟ میں نے ناشتہ نہیں کیا۔ بڑی بھوک لگی ہے۔‘‘
وہ شاید اپنی بیوی (یا جو بھی ہو) سے لڑکر آرہے تھے۔ وہ آنگن سے باورچی خانے کی طرف بڑھنے لگے۔میں اُن کے پیچھے پیچھے چل رہاتھا، مگر میرے پاؤں کی ہڈیاں نفرت کے بھیانک بوجھ سے کڑکڑا رہی تھیں۔ اور گھٹنوں کی پیالیوں نے جیسے گھومنا بند کر دیا تھا۔ آفتاب بھائی نے برتن اور ہانڈیاں کھکوڑنا شروع کر دیں۔ میں چپ چاپ باورچی خانے کی چوکھٹ سے لگا کھڑا تھا۔
آخر اُنہیں ایک ہانڈی میں رات کی پکی فیرینی مل ہی گئی۔ وہ فرش پر اُکڑوں بیٹھ گئے اور ایک چمچہ ہانڈی میں ڈال کر جلدی جلدی فیرینی کھانے لگے۔ میری طرف سے اُن کی پیٹھ تھی۔
’’گڈّو میاں پانی لاؤ۔‘‘ اُنہوں نے بغیر گردن موڑے ہوئے کہا۔
میں اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں۔ میرے پیروں کے پاس مسالہ پیسنے کی پتھّر کی وزنی سل رکھی ہوئی تھی۔ اور میرا کن کٹا خرگوش اُس سل پر اُچھل کود کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ پاگل چوہا جس کے دماغ پرفالج گر گیا تھا اور جو صرف رات میں ہی اپنے بِل میں سے باہر نکلتا تھا۔ آج دن کی روشنی میں بھی، اپنا سر ایک طرف کو ڈھلکائے ہوئے آٹے کے کنستر کے پیچھے سے چلتا ہوا چولہے کی طر ف جارہا تھا۔
میں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ برتنوں کے پیچھے دُبکے ہوئے کاکروچ بھی باہر آکر فرش پر رینگنے لگے ہیں۔
اچانک میرے اندر پلنے والا وہ تاریک، طویل القامت سایہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ میرے دونوں ہاتھوں میں منتقل ہوگیا۔ میرے ہاتھ ایک عفریت کے ہاتھوں میں تبدیل ہوگئے۔
اب اِن ہاتھوں کی اپنی الگ دنیا تھی، الگ ذہن اور الگ شخصیت اور الگ اعصابی نظام۔ یہ ہاتھ میرے باقی جسم اور میرے دماغ کے تئیں مکمل اجنبی تھے۔
ہاتھوں نے مجھے جھکنے کے لیے کہا۔ میں جھکا اور میرے ہاتھوں نے پتھّر کی اُس وزنی سل کو اِس طرح اُٹھا لیا جیسے کوئی زمین پر پڑا ایک سوکھا ہوا زرد پھول اُٹھا لیتا ہے۔ سل پر ہلدی کا رنگ جم گیا تھا۔
آفتاب بھائی اُسی طرح اُکڑوں بیٹھے بیٹھے، ہانڈی میں سے فیرینی کھارہے تھے۔ میں اُنھیں منھ چلاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر اُن کی پیٹھ باربار ایک فحش انداز میں جنبش کرتی نظر آتی تھی۔ میں نے اِس فحش منظر کو شاید پہلے بھی کہیں دیکھا ہو، یا محسوس کیا ہو۔
پتھّر کی سِل کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اونچا اُٹھائے اُٹھائے، میں ننگے پیر بہت آہستگی کے ساتھ آفتاب بھائی کی طرف بڑھنے لگا۔ میں اُن کے سر پر پہنچ گیا۔ اُبٹن اور خون کی ملی جلی بو نے میری ناک کے نتھنوں کو چھو لیا۔
اپنی سانس روک کر، تمام طاقت کے ساتھ پتھّر کی سِل کو تھوڑا اوراونچا اُٹھائے ہوئے، میں نے اُسے آفتاب بھائی کے سر پر دے مارا۔ اُن کے منھ سے ایک آواز نکلی جیسے کوئی زور سے ڈکار لیتا ہے۔ مگر یہ چیخ ہرگز نہ تھی۔ انھیں چیخنے کی بھی مہلت نہ ملی۔
اُکڑوں بیٹھے بیٹھے اُن کا سر فرش پر جاکر لڑھک گیا۔ وہ سر جو پوری طرح کچل گیا تھا۔
میرے ہاتھوں سے سل چھوٹ کر نیچے گر گئی۔ سِل پر آفتاب بھائی کے بھیجے کے ریشے اور خون کے چھیچھڑے چپک کر رہ گئے۔
کھیر کی ہانڈی اپنی جگہ ویسی کی ویسی ہی رکھی تھی۔ مگر آفتاب بھائی کے منھ، حلق اور آنتوں تک میں پھنسی ہوئی سفید فیرینی باہر آکر کھرنجے کے فرش پر پھیل گئی۔
وہ پاگل اور مخبوط الحواس چوہا اُسے دیکھ کر مایوس، واپس آٹے کے کنستر کے پیچھے چھپ گیا۔ اس کی یادداشت کام نہیں کر رہی تھی، وہ فیرینی کوپہچان نہ سکا۔
مگر میں نے صاف صاف اور واضح طو رپر دیکھا اس میں مجھے رتّی بھر بھی شبہ نہیں ہے۔ ایک کاکروچ فیرینی کی ہانڈی کے پاس بیٹھا مجھے گھور رہا تھا۔ پھر شاید وہ ہنسا بھی تھا۔
میں نہ جانے کب تک وہاں اسی حالت میں کھڑا رہا۔ باورچی خانے کے فرش پر گاڑھے گاڑھے خون کی ایک لکیر آگے بڑھتی جاتی تھی۔
غسل خانے میں سے لگاتار، نورجہاں خالہ کے لوٹے بھربھر کے جسم پر پانی ڈالنے کی وحشت انگیز آوازیںآرہی تھیں۔ وہ دنیا مافیہا سے بے خبر نہانے میں گم تھیں۔
تب آفتاب بھائی کی لاش کے قریب کھڑے کھڑے، اچانک جیسے مجھے ہوش آیا، میری سمجھ میں آگیا کہ میں نے آفتاب بھائی کا قتل کر دیا ہے۔ ان کی سفید قمیص اور بھوری پتلون ہی اس قتل کا حلیہ تھی۔
دوپہر ہونے کو آئی تھی۔ سورج کا رُخ ٹھیک باورچی خانے کی طرف تھا۔ وہاں تیز چمک اور روشنی پھیل گئی۔ اور میرے دماغ میں بھی۔
میں وہاں سے اُلٹے پاؤں بھاگا اور اندر والے دالان میں جاکر جلدی جلدی اسکول کی یونیفارم کی خاکی پتلون پہنی۔ سفید قمیص تو پہلے سے ہی پہن رکھی تھی۔ کرمچ کے سفید پی ٹی جوتے پہنے اور پھر اپنے اسکول کا بستہ اُٹھایا۔ اسے گلے میں ڈالا اور سب کچھ ایسے ہی چھوڑ کر گھرسے باہر نکل آیا۔ باورچی خانے میں آفتاب بھائی کی لاش کو چھوڑ کر اور غسل خانے میں نورجہاں خالہ کو نہاتا چھوڑ کر اور وہاں سے گرتے ہوئے پانی کی آوازوں کو چھوڑ کر، میں گھر سے دور، شاہراہ پر آکر ایک چھوٹی سی پُلیا پر بیٹھ گیا۔ اسی راستے پر تھوڑا آگے چل کر میرا اسکول تھا اور اسکول کی چھٹی ہونے میں ابھی کم از کم دو گھنٹے ضرور تھے۔ پھر پُلیا سے نیچے اُتر کر میں نے پانی میں اپنے ہاتھ دھوئے۔ مجھے دھوکہ ہوا اب کچھ چھوٹی مچھلیاں میرے ہاتھوں کی طرف لپکی تھیں۔ مگر ہاتھوں پر خون کا کوئی نشان نہ تھا۔ وہاں خون کی کوئی بو نہ تھی۔
میں پُلیا کے نیچے بہتے پانی میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ چہرہ پانی میں اُگے ہوئے سیوار میں پھنس گیا تھا۔
تیسرے پہر جب اسکول کی چھٹی ہوئی اور بچّے باہر نکلنے لگے، تب میں بھی اُنھیں میں شامل ہوکر گھر کی طرف واپس چلنے لگا۔
مجھے خنکی سی محسوس ہوئی۔ ہوا میں ٹھنڈک تھی۔ اب اتنی دیر بعد، پہلی بار مجھے اپنے پیروں میں ہلکی سی کپکپاہٹ اور جسم میں جھرجھری کا احساس ہوا۔
جیسے جیسے گھر پاس آتا جارہا تھا، میرے پیر من من بھر کے ہوتے جاتے تھے۔ میرا سر گھومنے لگا۔ میں گھروں کی دیواروں کا سہارا لے کر چلا۔
میرا بستہ میرے گلے میں اول جلول ڈھنگ سے اِدھر اُدھر ڈول رہا تھا، اور میں اسے سنبھال پانے میں ناکام تھا۔
میرے کندھے جھک رہے تھے۔ بستے کا بوجھ اچانک اتنا بڑھ گیا کہ مجھے لگا میری کمر ٹوٹ جائے گی۔ گلا بہت خشک ہوگیا۔ میں نے تھوک نگلنے کی کوشش کی مگر تھوک ندارد تھا۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ ناجانے کب سے میں نے پیشاب نہیں کیا ہے۔ شاید میرے گردوں میں پیشاب کی ایک بوند بھی نہ تھی۔ میرے سارے وجو دمیں ایک خوفناک خشکی پھیلنے لگی۔