پسرور میں تین خواتین کی جانب سے توہین رسالت کے نام پر ایک شخص کو قتل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست، آئین اور انسانی حقوق کے لیے اگلا خطرہ ناموس رسالت و مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی ہے۔ ریاست پہلے ہی نفاذ اسلام اور احیائے خلافت کی علمبردار مذہبی تشریحات کی بنیاد پر کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے کوشاں ہے، ایسے میں ناموس رسالت یا حرمت اسلام کے نام پر آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزیوں کا متواتر ارتکاب ریاست کے لیے مذہبی دہشت گردی کا ایک جان لیوا مظہر ہے۔
احیائے خلافت اور نفاذ اسلام کی طرح ناموس رسالت کا تحفظ بھی ایک ایسے دہشت گرد بیانیے اور مسلح جدوجہد کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے جو پاکستانی جمہوریت، آئین اور ریاست کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ ولی خان یونیورسٹی مردان اور پسرور میں توہین رسالت کے الزام کے تحت کیے جانے والے بہیمانہ قتل اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ حرمت رسول اور ناموس رسالت کا معاملہ بھی اب مذہبی عقیدت کی بجائے سیاسی اور معاشرتی اثرورسوخ کے حصول کا محرک بن چکا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ناموس رسالت کے نام پر دہشت گردی کے حالیہ واقعات اس لیے بھی زیادہ تشویش ناک ہیں کیوں کہ ممتاز قادری کی صورت میں اس تحریک کو ایک ایسا شہید مل گیا ہے جو حب رسول کی گمراہ کن تعبیروں کو مزید عسکریت پسند بنا رہا ہے۔
تشویش ناک امر یہ ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ اور توہین رسالت کی روک تھام کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کو بھی پاکستان کے مذہبی طبقات کی حمایت حاصل ہے، مذہبی طبقات ناموس رسالت کے تحفظ کے نام پر اس موضوع پر ہتھیار اٹھانے کی مدح سرائی کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ توہین رسالت کے نام پر قتل کرنے والے افراد تاحال مشتعل ہجوم یا انفرادی سطح پر قانون کو ہاتھ لینے والے ہیں، ابھی تک نفاذ اسلام یا احیائے خلافت کے لیے سرگرداں طالبان، القاعدہ یا داعش کی طرح منظم عسکری تنظیمیں میدان میں نہیں آئیں تاہم سرل المیڈا نے اپنی حالیہ تحریر میں ممتاز قادری کے مزار کے ایک نئی لال مسجد بننے کےجس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ حقیقی ہے اور بعید ازقیاس نہیں۔ یہ جمہوریت، آزادی فکر، انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور اس کا ادراک کرتے ہوئے اس کا سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ مزید براں یہ کہ دہشت گردی کی یہ لہر صرف علاقائی خطرہ نہیں، شارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ توہین رسالت کے الزام کے تحت کہیں بھی کوئی بھی دہشت گردانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔
ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں نے اگر بروقت دہشت گردی کی اس نئی صورت سے درپیش خطرات کا ادراک کرتے ہوئے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو یہ واقعات شدت اختیار کریں گے۔ ممتاز قادری کی پھانسی پر عملدرآمد کے حوالے سے یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا پھانسی کی سزا ناموس رسالت کے نام پر دہشت گردی کے واقعات روک سکتی ہے یا نہیں تاہم ممتاز قادری کی سزا پر عملدرآمد سے یہ تاثر ضرور ملا تھا کہ ریاست حرمت رسول کے نام پر دیشت گردی کے واقعات سے آگاہ ہے اور ان کے سدباب کے لیے سنجیدہ بھی، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماجی رابطون کی ویب سائٹس پر مبینہ گستاخانہ صفحات کے حوالے سے سماعت اور توہین رسالت کے نام پر قتل و غارت کے متواتر واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس قتل و غارت کو اسی طرح جائز بالکہ مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جیسا کہ طالبان، القاعدہ اور داعش نفاذ اسلام اور احیائے خلافت کے نام پر قتل و غارت کو مذہبی حکم قرار دیتے ہیں۔
توہین رسالت و مذہب کے الزامات کے تحت تشدد اور دہشت گردی کی یہ لہر اس لیے بھی خوفناک ہے کیوں کہ یہ معاملہ پیغمبر اسلام کی حرمت کے نام پر قتل و غارت سے بہت جلد توہین اصحاب، توہین اہل بیت، توہین اولیاء اور توہین مذہبی شعائر کے نام پر قتل و غارت کی صورت اختیار کر لے گا، ریاست، حکومت اور معاشرے کو توہین رسالت و مذہب کے معاملے میں تشدد اور دہشت گردی کی ہر صورت کو مسترد کرنا ہو گا اور ممتاز قادری جیسے دہشت گردوں کو سزا دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا وگرنہ یہ ناسور بھی بہت جلد طالبان، القاعدہ اور داعش جیسے ایسے مسلح جتھوں کو جنم دے گا جو ختم نبوت، حرمت رسول یا تحفظِ اسلام کے نام پر ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں پر بہیمانہ حملے کریں گے۔