گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں تین احمدیوں کے قتل کے بعد اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا ہر دوسرا شہری مذہب کا ٹھیکیدار اور مقدس شخصیات کے تقدس کا محافظ ہے۔ مذہبی شعائر اور مقدس شخصیات کے تقدس کے تحفظ کی خاطر یہ ٹھیکیدار امن پسند مذہب اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے تقریباً ہر علاقے میں موجود یہ ٹھیکیدار بوقتِ ضرورت اپنی مذہبی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے سچے عاشقانِ دین ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اورغیر مسلموں کو سزا دیکر جنت میں اپنا دو کنال کا بنگلہ پکا کرواتے ہیں۔
غیر مسلم مرد، عورت، بچہ بوڑھا یا انسان نہیں ہوتا، صرف اور صرف غیر مسلم ہوتا ہے جس کا انجام صرف موت ہے۔
ان خود ساختہ دینی ٹھیکیداروں کو کسی بھی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے نہ تو قانون کا خوف ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کی ہچکچاہٹ۔ ماضی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر قتال کے موقع پر قانون نافذ کرنے والے تماشبین بن کر اپنے حصّے کا ثواب سمیٹتے ہیں اوراس کارِ خیر میں گواہ بننے کا کردار نبھاتے ہیں۔
کیا ہوا کہ گجرانوالہ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مرنے والی خواتین تھیں یا بچے، ان کا (آئینی طور پر)غیر مسلم ہونا اور مبینہ طور پر گستاخ ہونا ہی ان کے قتل کئے جانے کے لئے کافی تھا کیوں کہ غیر مسلم مرد، عورت، بچہ بوڑھا یا انسان نہیں ہوتا، صرف اور صرف غیر مسلم ہوتا ہے جس کا انجام صرف موت ہے۔ جس طرح عدالتیں مُجرم کو موت کی سزا کے ساتھ ساتھ جرمانے کی سزا دیتی ہیں، بالکل اسی طرح یہ مذہبی ٹھیکیدار خدائی فوجدار ہونے کے ناطے “انصاف”کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سزائے موت کے ساتھ ساتھ جرمانے کے طور پر ناصرف ملزم کا گھر بلکہ متعلقہ کمیونٹی کے گھروں کو بھی لوٹ مار کا نشانہ بناتے ہیں۔
گجرانوالہ میں بھی مشتعل ہجوم نے فوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایسا ہی کیا اور تین انسانوں (معذرت کے ساتھ، احمدیوں) کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے آٹھ لوگوں کو زخمی کیا، پانچ گھر اور ایک گودام جلایا اور درجنوں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کیا۔
یہ ایک ایسا فوری”طریقہِ انصاف” ہے جس میں ججوں کی تعداد سینکڑوں بلکہ بعض اوقات ہزاروں لاکھوں میں ہوتی ہے اوریہ منصفین موقع پر ہی تحقیقات کئے بغیر علاقائی مولوی کی آشیرباد کے ساتھ پہلے سزا کا تعین کرتے ہیں) جو کسی بھی طرح موت سے کم نہیں ہوتی( اور پھر بنا کسی تاخیرکے اس پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں۔
کیا ہوا کہ گجرانوالہ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مرنے والی خواتین تھیں یا بچے، ان کا (آئینی طور پر)غیر مسلم ہونا اور مبینہ طور پر گستاخ ہونا ہی ان کے قتل کئے جانے کے لئے کافی تھا کیوں کہ غیر مسلم مرد، عورت، بچہ بوڑھا یا انسان نہیں ہوتا، صرف اور صرف غیر مسلم ہوتا ہے جس کا انجام صرف موت ہے۔ جس طرح عدالتیں مُجرم کو موت کی سزا کے ساتھ ساتھ جرمانے کی سزا دیتی ہیں، بالکل اسی طرح یہ مذہبی ٹھیکیدار خدائی فوجدار ہونے کے ناطے “انصاف”کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سزائے موت کے ساتھ ساتھ جرمانے کے طور پر ناصرف ملزم کا گھر بلکہ متعلقہ کمیونٹی کے گھروں کو بھی لوٹ مار کا نشانہ بناتے ہیں۔
گجرانوالہ میں بھی مشتعل ہجوم نے فوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایسا ہی کیا اور تین انسانوں (معذرت کے ساتھ، احمدیوں) کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے آٹھ لوگوں کو زخمی کیا، پانچ گھر اور ایک گودام جلایا اور درجنوں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کیا۔
یہ ایک ایسا فوری”طریقہِ انصاف” ہے جس میں ججوں کی تعداد سینکڑوں بلکہ بعض اوقات ہزاروں لاکھوں میں ہوتی ہے اوریہ منصفین موقع پر ہی تحقیقات کئے بغیر علاقائی مولوی کی آشیرباد کے ساتھ پہلے سزا کا تعین کرتے ہیں) جو کسی بھی طرح موت سے کم نہیں ہوتی( اور پھر بنا کسی تاخیرکے اس پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں۔
مقامی ایس ایچ او نے ایک احمدی کے سامنے اپنی بیچارگی اور معصومیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ساڈے وَس دی گل نئی”۔
مذہبی تقدس کے تحفظ کے نام پر بننے والی تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں پر عائد کردہ توہین اور گستاخی کے الزامات کے تحت سنائی گئی اس عوامی سزا پر عملدرآمد کے لئے کسی تارا مسیح کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جج خود ہی انصاف کے فوری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے “مجرموں” کو موقع پر ہی ان کے اہل خانہ سمیت موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس سفاک عمل کے دوران الزامات کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس فوری عوامی انصاف میں سزا سنانے والے، سزا دینے والے اور پھر سزا دے کر اس کا جشن منانے والے سب کے سب وہی لوگ ہوتے ہیں جو شروع سے آخر تک اس نیک کام میں شامل ہوتے ہیں اور”مذہبی رواداری” کی بہترین عملی مثال پیش کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں پورے علاقے کے مکینوں کے مابین ایک ایسا مذہبی جوش و جذبہ اجاگر ہوتا ہے جو کسی بھی دوسرے موقع پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بیشک دو ہمسائے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں مگر گستاخوں اور مذہبی اقلیتوں کو سزا دینے کے عمل میں ایک ہمسایہ اپنے دشمن ہمسائے کے ساتھ ملکر مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہوئے غیر مسلموں پر حملہ کرتا ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم جرائم کے بہت سے دیگر واقعات کی طرح اس واقعہ میں بھی مقامی پولیس خاموش تماشائی بن کر جیتے جاگتے انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتی رہی، مقامی ایس ایچ او نے ایک احمدی کے سامنے اپنی بیچارگی اور معصومیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ساڈے وَس دی گل نئی”۔
اگر دیکھا جائے تو اس مسکین ایس ایچ او کا کہنا بھی ٹھیک ہے کیونکہ مذہبی بلووں کے آگے قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر بے بس اور لاچار ہیں۔ پولیس کی مداخلت اشتعال کا رخ خود پولیس، ججوں اور سیاستدانوں کی طرف موڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ دوسری طرف قانون اور آئین میں اقلیتوں خصوصاً احمدیوں کے خلاف موجود قوانین بھی مذہب کے نام پر کئے جانے والے جرائم کے حل میں رکاوٹ ہیں۔
گو کہ توہین مذہب و رسالت ایکٹ میں ترمیم کے لئے معاشرہ اور حکومت تیار نہیں تاہم اس قانون کے استعمال اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور جرائم پر سزائیں دینے کے عمل کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ترمیم سے شاید غیر مسلم اقلیتوں کا توہین اور گستاخی کے الزامات کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ان مذہبی ٹھیکیداروں (جن کے پاس مبینہ طور پراقلیتوں کو قتل کرنے کاخدائی اختیار ہے) کے ہاتھوں قتل عام بند ہوجائے۔
ایسے حالات میں پورے علاقے کے مکینوں کے مابین ایک ایسا مذہبی جوش و جذبہ اجاگر ہوتا ہے جو کسی بھی دوسرے موقع پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بیشک دو ہمسائے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں مگر گستاخوں اور مذہبی اقلیتوں کو سزا دینے کے عمل میں ایک ہمسایہ اپنے دشمن ہمسائے کے ساتھ ملکر مذہبی ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہوئے غیر مسلموں پر حملہ کرتا ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم جرائم کے بہت سے دیگر واقعات کی طرح اس واقعہ میں بھی مقامی پولیس خاموش تماشائی بن کر جیتے جاگتے انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتی رہی، مقامی ایس ایچ او نے ایک احمدی کے سامنے اپنی بیچارگی اور معصومیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ساڈے وَس دی گل نئی”۔
اگر دیکھا جائے تو اس مسکین ایس ایچ او کا کہنا بھی ٹھیک ہے کیونکہ مذہبی بلووں کے آگے قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر بے بس اور لاچار ہیں۔ پولیس کی مداخلت اشتعال کا رخ خود پولیس، ججوں اور سیاستدانوں کی طرف موڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ دوسری طرف قانون اور آئین میں اقلیتوں خصوصاً احمدیوں کے خلاف موجود قوانین بھی مذہب کے نام پر کئے جانے والے جرائم کے حل میں رکاوٹ ہیں۔
گو کہ توہین مذہب و رسالت ایکٹ میں ترمیم کے لئے معاشرہ اور حکومت تیار نہیں تاہم اس قانون کے استعمال اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور جرائم پر سزائیں دینے کے عمل کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ترمیم سے شاید غیر مسلم اقلیتوں کا توہین اور گستاخی کے الزامات کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ان مذہبی ٹھیکیداروں (جن کے پاس مبینہ طور پراقلیتوں کو قتل کرنے کاخدائی اختیار ہے) کے ہاتھوں قتل عام بند ہوجائے۔