[blockquote style=”3″]

جون ایلیا کی یہ طویل نظم ‘نئی آگ کا عہد نامہ’ ہے جسے جون نے "راموز” کا نام دیا۔ اس نظم کے ہر حصے کے لیے جون نے "لوح” کی اصطلاح استعمال کی۔ ہم محترم خالد احمد انصاری کے ممنون ہیں کہ انہوں نے لالٹین کے قارئین کے لیے ان الواح کی اشاعت کی اجازت دی۔ یہ لالٹین کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اسے ان الواح کی اشاعت کا موقع مل رہا ہے۔ خالد احمد انصاری 1991 سے 2002 کے درمیان جون ایلیا کے نہایت قریب رہے۔ آپ نے جون کا کلام اکٹھا کیا اور اس کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ "راموز” کی ایک اور خاص بات اس میں شامل الواح کے لیے دانش رضا کی تصویر کشی ہے۔ دانش رضا کے اجداد امروہہ سے تھے، آپ نے ابلاغِ عامہ اور فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔

[/blockquote]

راموز میں شامل مزید الواح پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

لوحِ وجود
میں سو رہا تھا
میں جوں ہی جاگا اور آنکھ کھولی تو دیکھتا ہوں
کہ میرے سینے پہ شہر تعمیر ہو چکا ہے
مرے بدن میں اِدھر اُدھر آہنیں سلاخیں گڑی ہوئی ہیں
کہ مجھ میں شہتیر نصب ہیں جو بلند ہوتے چلے گئے ہیں
میرے ہاتھوں، ہتھیلیوں اور سارے ڈھانچے پہ اینٹ پتھر پڑا ہوا ہے
اور اس پہ روڑا کُٹا ہوا ہے
اور اس پہ قیر و کزف کہ تہ ہے
پھر اس پہ سنگیں پَرَت جما ہے کہ جس میں قیر و کزف کے ٹانکے
لگے ہوئے ہیں
یہ کوی و برزن کے سلسلے ہیں جو پھیلتے ہی چلے گئے ہیں
بہم فشار آوری کا از ہم گستہ غوغا مری سماعت پہ یاں سے پیہم
شدید پتھراؤ کر رہا ہے
شکستہ ڈھانچوں کے خُن خُنے سائے اپنے کاندھوں پہ نیلے دھبّوں کا بوجھ اٹھائے
سیاہ جھونجل میں خُن خُناتے، خبیث مخروط پوش خُنگروں کے آگے پیچھے
گِھسٹ رہے ہیں
یہ زندہ بنیاد شہر ہے اور میں اس کے نیچے دبا پڑا ہوں
وہ کون ہے جو مجھے نکالے
وہ کون ہے جو مجھے نکالے

Art Work: Danish Raza

Leave a Reply