ناول “سرخ شامیانہ” کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
شاہد لاہور سیکریٹیریٹ کے لان میں بیٹھا اپنی سفارش کا انتظار کر رہا تھا۔ لوگ اپنی درخواستیں اور سفارشیں لئے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے یا درختوں کے سائے میں بیٹھے کاہلی سے گپیں لگا رہے تھے۔گرمی عروج پر تھی،دوپہر کا سورج عین سر پر آگ برسا رہا تھا اور پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔پسینے میں تر کپڑوں کی چپ چپ،مکھیاں،انتظار اور بے زاری۔اس کے ایک دور پار کے واقف نے اسے امید دلائی تھی کہ وہ ایڈشنل سیکرٹری صحت سے کہہ کر لاہور کے کسی قریبی گاؤں میں اس کی تقرری کروا دے گا۔میو ہسپتال میں اس کا ہاؤس جاب ختم ہو رہا تھا ،سرکاری ملازمت میں آنے کے لئے اسے پنجاب کے کسی دیہاتی مرکزِ صحت پر تین سال گزارنے تھے جس کے بعد وہ لاہور کے کسی ہسپتال میں نوکری کی امید کر سکتا تھا۔
عرفان ہاؤس جاب مکمل کرنے کی بجائے ایک امریکی گرین کارڈ کی مالکہ سے بیاہ رچا کر امریکہ جا چکا تھا۔ہوائی اڈے پر الوداع ہوتے اس نے بیان دیاتھا کہ وہ بے تکے اور ادھ پکے نظریات کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ چکا تھا، وہ دولت، عزت اور آسائش کی زندگی چاہتا تھا جو قسمت آزماؤں کی سرزمین پر اس کی منتظر تھی۔
راشد کی ماں کی ناگہانی وفات کے بعد شاہد اپنے دوست کی بہت دن دلجوئی کرتا رہا۔ راشد کی ماں اچانک وارد ہونے والے ہارٹ اٹیک سے جانبر نہ ہوسکی، ہسپتال کے رستے میں ٹریفک کے اژدہام میں پھنسی اپنے ڈاکٹر بیٹے کی کار میں اس نے دم توڑ دیا۔ اس کا تارک الدنیا خاوند جنازے پر کہیں نظر نہ آیا۔
جرمنی میں مقیم راشد کے ایک چچا نے اس کا داخلہ فرینکفرٹ یونیورسٹی میں کروا دیا تھا۔ تلخی اور غم سے بھرا اس کا پرانا دوست جرمنی میں میڈیکل سافٹ وئیر کی تعلیم کے لیے جا چکا تھا۔
توفیق کی کوئی خبر نہ تھی، فائنل امتحان کے بعد وہ اپنے آبائی شہر پارا چنار چلا گیا تھا اور ان کے راڈار سے مکمل غائب تھا۔
ناہید کے لیے اس کی یک طرفہ خاموش محبت کے زخم پروقت کی گرد جم گئی تھی لیکن زخم مندمل نہیں ہوا تھا۔ گرم،ویران سہ پہر کے سناٹے میں ہسپتال کی کینٹین کے باہر بیٹھے،خزاں کی شام میں موٹر سائیکل پر نہر کے ساتھ گزرتے،اپنے سیلن زدہ کمرے میں مٹی اور پلاسٹر کے مجسمے بناتے ، کینوس سے باہر نکلتی ناہید کی ایک اور نئی تصویر کے سامنے کھڑے اسے اپنی احمقانہ محبت کی یاد مضطرب اور اداس کر دیتی۔ناہید کا اتہ پتہ معلوم کرنے کی اس نے کبھی کوشش نہ کی۔وہ اب اس کی انگلیوں کی پور پور میں رہتی تھی۔
اس کے والدین کا اصرار تھا کہ وہ ہاؤس جاب ختم کرتے ہی شادی کرلے، اس کے مستقل انکار پر انہوں نے اسے یہ اجازت بھی دی کہ وہ اپنی پسند سے شادی کر سکتا تھا۔ شاہد کا ایک ہی جواب تھا کہ اس سے اس موضوع پر گفتگو نہ کی جائے۔
گھنٹہ بھر سفارش کے انتظار سے اکتا کر وہ ملازمت کی درخواست سنبھالے متعلقہ سیکشن افسر کے کمرے کی جانب روانہ ہوا۔کمرے میں اس جیسے اور کئی نوجوان ڈاکٹر کاغذوں کے پلندے اٹھائے میزوں،ملاقاتیوں اور چائے کی پیالیوں کے درمیان چکراتے پھر رہے تھے۔ کافی دھکم پیل اور تگ و دو کے بعد وہ سیکشن افسر کو مخاطب کرنے میں کامیاب ہوا۔
“جگہیں تو ساری پْر ہو گئیں ڈاکٹر صاحبــــ”،سیکشن افسر نے رجسٹروں کے انبار سے نظر ہٹائے بغیر تمسخرانہ رعونت سے اسے مطلع کیا۔
گھنٹہ بھر سفارش کے انتظار سے اکتا کر وہ ملازمت کی درخواست سنبھالے متعلقہ سیکشن افسر کے کمرے کی جانب روانہ ہوا۔کمرے میں اس جیسے اور کئی نوجوان ڈاکٹر کاغذوں کے پلندے اٹھائے میزوں،ملاقاتیوں اور چائے کی پیالیوں کے درمیان چکراتے پھر رہے تھے۔ کافی دھکم پیل اور تگ و دو کے بعد وہ سیکشن افسر کو مخاطب کرنے میں کامیاب ہوا۔
“جگہیں تو ساری پْر ہو گئیں ڈاکٹر صاحبــــ”،سیکشن افسر نے رجسٹروں کے انبار سے نظر ہٹائے بغیر تمسخرانہ رعونت سے اسے مطلع کیا۔
“جگہیں ساری پْر ہو گئیں؟ابھی تو تقرریاں شروع ہوئی ہیں، اور یہ اتنے سارے لوگ جو درخواستیں لئے پھر رہے ہیں یہ کدھر جائیں گے؟” شاہد بدحواسی سے بولا۔
“آپ اپنی بات کریں ڈاکٹر صاحب، دوسروں سے آپ کو کیا لینا دینا”، سیکشن افسر نے اسی رعونت سے کہا۔
“ اپنی ہی بات تو کر رہا ہوں، نوکری چاہئیے مجھے”۔شاہد کے لہجے میں غصے کی لہر تھی۔
“ گرمی کھانے کی کوئی ضرورت نہیں، میں اخلاق سے بات کررہا ہوں آپ سے”۔
“ یہ کس قسم کا اخلاق ہے؟ غلط بیانی کررہے ہیں آپ،جگہیں کیسے پْر ہوگئیں؟”۔
“ ڈاکٹر صاحب گرمی سردی رہنے دیں، الزام تراشی کر رہے ہیں آپ صاحب پر” سیکشن افسر کے پاس بیٹھے لمبے تڑنگے آدمی نے اپنی حکم دینے کی عادی آواز میں مداخلت کی،یہ یقیناکسی کی سفارش کرنے آیا تھا۔
یکایک شاہد کو خیال آیا کہ کچھ بھی کہنا سْننا بیکار تھا، اسے سفارش کے بغیر یہاں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ غصے،مایوسی اور خودترسی سے بوجھل وہ سیکشن افسر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر کاریڈور میں وہ روہانسا اور نیم بدحواس سا کچھ دیر ادھر ادھر پھرتا رہا۔سرکاری نوکری نہ ملی تو کیا کروں گا،کسی نجی ہسپتال کے لاللچی اور مکروہ مالک کی انگلیوں کے اشارے پر ناچتا رہوں؟کہیں چھوٹا موٹا کلینک کرلوں اور وہیں اسی کرسی میں زندگی گزار تا مر جاؤں؟کلینک بنانے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟
اچانک اسے کاریڈور کے سرے پر اپنا واقف نظر آیا جس کے آنے کی امید وہ ختم کر چکا تھا۔ علیک سلیک کے بعد اس کے مربی نے بتایا کہ اس کے گاؤں سے کچھ لوگ آگئے تھے، ڈکیتی کا معاملہ تھا، سفارش کے لئے اسے ان کے ساتھ ڈی ایس پی کے دفتر جانا پڑا جس وجہ سے اسے دیرہو گئی۔شاہد نے اسے سیکشن افسر سے اپنی جھڑپ کی روئیداد بیان کی۔
“ ڈاکٹر صاحب اس ملک میں سیدھی طرح بھی کبھی کوئی کام ہوا ہے؟ کوشش ہی فضول ہے،” اس کے واقف نے عمومی انداز میں اظہارِ خیال کیا۔اس نے شاہد کو بتایا کہ ایڈشنل سیکرٹری سے اس کی ذاتی واقفیت نہ تھی، کسی کے حوالے سے کام کروانا تھا۔ایڈشنل سیکرٹری کے دفتر کے پاس پہنچ کر اس نے شاہد سے کاغذات لیے اور اسے باہر انتظار کرنے کا کہہ کر اندر چلا گیا۔ شاہد دیوار سے ٹیک لگائے معاشرے کی اخلاقی اور سیاسی بدحالی پر کْڑھتا رہا۔ اسی طرح کے ہو جاؤ جیسے سب ہیں،سوچو مت،دیکھو مت،کہو مت،شاہد علی، صرف اس منجن کی ترکیب سوچو جس سے اپنے دانت تیز کر سکو اور کاٹو! انسان، کتا،بلا جو راہ میں آئے خون پی جاؤ اس کا،بھیڑیوں کے غول میں بھیڑیا بنو یا زمین میں گڑھا کھود کے گھس جاؤ اس میں۔تھرپارکر سے ادھر توگڑھا کھودنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی،وہ تلخی سے دل میں ہنسا۔
“ڈاکٹر صاحب مبارک ہو، کام ہو گیا،” اسے اپنے واقف کی آواز سنائی دی،”چک بھمبراں کے سنٹر میں آپ کی تقرری ہو گئی ہے”۔
“ وہ کہاں ہے؟”
“ پاکستان ہی میں ہے، شکر کریں نوکری مل گئی ہے، بڑی بڑی سفارشوں کا زور ہے، بس مالک نے عزت رکھ لی، نوکری کا چارج لیں بعد میں تبادلہ کی کوشش کر لیں گے”۔
“چک بھمبراں ہی ٹھیک ہے، جہاں کہیں بھی وہ ہے، شایدوہاں گڑھا کھودنے کی جگہ مل جائے،” شاہد اس سے تقرری کا پروانہ لیتے ہوئے احسان مندی سے ہنسا۔
سیکریٹیریٹ کی دہشت ناک عمارت سے نکل کر اس نے اپنی بوسیدہ موٹر سائیکل کا رُخ اندرون شہر کی طرف کیا۔ ویگنیں، بسیں، رکشے، تانگے،موٹر سائیکلیں، سائیکلیں،سکوٹر، چھکڑے، ٹرک ایک دوسرے پر اپنی اپنی تیزرفتاری کی دھاک بٹھاتے،گرمی سے پگھلی تارکول پراپنی لہریے دار چال کے نقش ثبت کرتے سرپٹ بھاگ رہے تھے۔ان سب لوگوں کو کہیں پہنچنے کی شدید جلدی تھی جہاں پہنچ کر انہوں نے آرام سے بیٹھ جانا تھا اور فوری طور پر اس تیزی اورعجلت کو اپنے ذہن سے محو کردینا تھا جس میں وہ چند لمحے پیشتر پوری سنجیدگی سے جان داؤ پر لگائے ہوے تھے کہ اس تیز رفتاری کا مقصد کسی فریضے سے جلد از جلد عہدہ برآ ہونا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ ان کے گرمی،مصالحوں،طیش اور انا کی پھپھوندی سے بنے خمیر سے اٹھتی بھاپ کے آزاد ہونے کاذریعہ تھا۔
موچی دروازے کی گلیوں میں داخل ہو کر اس نے کچھ اطمینان کا سانس لیا، بازار میں یہاں بھی کم ہڑبونگ نہ تھی، لیکن ذیلی گلیوں میں گرمی نسبتاً کم تھی اور یہاں وہاں بندھے بکروں اور نالیوں کے پاس لیٹی بلیوں اور گرم فرش پر ننگے پاؤں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے اکا دکا بچوں کے علاوہ سنسانی تھی۔اپنے مکان پر پہنچ کر اس نے موٹرسائیکل مختصر سی تنگ اوراندھیری دیوڑھی میں کھڑی کی۔ یہ تنگ سا تین منزلہ مکان اسی عجز اور محبت سے اردگرد کے مکانوں سے بغلگیر تھا جیسے اندرون لاہور کے دوسرے سارے مکان ایک دوسرے میں سرایت کئے ہوئے تھے۔
گھر میں اس کی ہمشیرہ اور بہنوئی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ آئے ہوے تھے،بچے اس سے بہت مانوس تھے اور فوراً ہی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئے، ان کا اصرار تھا کہ وہ انھیں چڑیا گھر کی سیر کروائے ،ابھی وہ ان سے ٹال مٹول کر رہا تھا کہ خاور بھی آگیا،وہ ٹیلی فون کے محکمے میں ملازم تھا اور اپنی اوسط درجے کی تنخواہ میں گھر کا خرچ چلا رہا تھا، ان کا باپ جس کی گھر کے قریب ہی کریانے کی دکان تھی پچھلے چند سالوں سے مختلف بیماریوں میں مبتلا رہنے لگا تھا اور اس کے کاروبار میں باقاعدگی نہ رہی تھی۔ ہسپتال سے ملنے والے شاہد کے قلیل وظیفے نے گھر کی مالی حالت کو کچھ سہارا دیا تھا۔ خاور کی شادی چار سال پہلے خاندان میں ہی ہوئی تھی،ماں ہر نماز کے بعد باقاعدگی سے اس کے لیے اولاد کی دعا کرتی۔
خاور نے آتے ہی شاہد سے ملازمت ملنے کے بارے استفسار کیا۔ کامیابی کی خبر سنتے ہی اس کے چہرے پر جمی مشقت کی گرد اُڑ گئی۔ ہمشیرہ اور بہنوئی نے مبارکباد دی۔ ماں یہ سن کر آزردہ ہوئی کہ اس کی تقرری ضلع جھنگ کے کسی دورافتادہ گاؤں میں ہوئی تھی۔
“ اتنے برسوں بعد خدا خدا کرکے تُو گھر آیا تو اب پھر چل دیا، تُو نے انہیں کہا نہیں کہ تجھے لاہور میں نوکری دیں؟”
“آپ کے خدا نے سفارش ہی نہیں کی امی” شاہد ہنسا۔ “ اس طرح نہیں کہتے بیٹا، نماز پڑھا کرو،دعا مانگا کرو، اللہ بڑا کارساز ہے”، اس کے باپ نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
“جتنی دعائیں اور کراہیں اس دھرتی سے اٹھتی ہیں اگر انہیں کاغذوں پر لکھ کر آسمان پر چپکا دیا جائے تو آسمان بھر جائے، چھاؤں ہو جائے اس دھرتی پر”، شاہد تلخی سے بولا۔
“ دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا، ڈاکٹر بننے بھیجا تھا اس کالج میں،کفر کی ڈگری لے کے آیا ہے وہاں سے”،خاور غصے
سے بولا۔
“بھائی جان غصے نہ ہوں مُنے بھائی پر”، بہن نے مداخلت کی،” اتنی گرمی میں سیکریٹیریٹ کے دھکے کھاتا پھرا ہے دماغ تو خراب ہونا ہی ہے بیچارے کا”۔
“بھائی جان غصے نہ ہوں مُنے بھائی پر”، بہن نے مداخلت کی،” اتنی گرمی میں سیکریٹیریٹ کے دھکے کھاتا پھرا ہے دماغ تو خراب ہونا ہی ہے بیچارے کا”۔
خاور کی بیوی سکنجبین سے بھرا ڈول لیے کمرے میں داخل ہوئی،” بھیڈُو!”، وہ پانچ سالہ بھانجے کو مخاطب کر کے بولی،” جا باورچی خانے سے گلاس لے کر آ ٹھنڈا کریں ان کو”۔
(جاری ہے)