Laaltain

پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے، جھوٹا ہی سہی

14 فروری، 2017
بچپن میں کبھی یہ نغمہ سنا اور کان نہ دھرے پھر عمر کی بیتی ہر گھڑی کے ساتھ ساتھ یہ نغمہ سنائی دیتا رہا اور ہر عمر میں اس کا مفہوم بدلتا رہا۔ کبھی ہم اس نغمے کے خلاف بھی ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی جھوٹا پیار کیوں؟ جب ہم دل جیسی شے سونپنے کے خطاوار ہوں، اتنی سخاوت پر اتریں کہ اپنی کل کائنات دینے پر تل جائیں تو پھر وہ جھوٹا پیار کیوں ہو۔ لیکن خیر! وقت گزرتا چلا گیا اور ہم پیار کی پکار کو ترستے رہ گئے۔ زندگی میں بہت لوگ آئے، دل پر بھی دستک دی کہیں دل کے کواڑ چرمرائے، کہیں جھنجھنائے اور کہیں تو دونوں پاٹون پاٹ کھل بھی گئے لیکن جس نے آنا تھا ان مٹ نقوش کے ساتھ بس وہی نہ آیا۔ ہاں سونی راتوں، پھیلی بانہوں اور ویران آنکھوں نے اتنا فسانہ ضرور سنایا،

 

پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے، جھوٹا ہی سہی

 

پیار، زندگی کی سب سے بڑی کمی، اور اس کمی کا ازالہ جو اکثر جھوٹا ہی ہوتا ہے۔ میرے لیے جھوٹا ہی سہی پیار تو پیار ہی ہوتا ہے۔ جو جذبات میں اٹھتے ہر بھنور کو سمیٹ کر ایک سمت ہموار بہنے دیتا ہے۔ زندگی میں تحریک اور آگے بڑھنے کی لگن، تخلیق کار کی تخلیق کا منبع، اور ہر شاہکار کی پیدائش کے پیچھے جو بنیادی وجہ موجود ہو تی ہےوہ پیار ہی تو ہے۔ محبت کا احساس۔ جس نے یہ امرت جل نہ پیا اس نے دنیا میں بھلا اور کیا کیا۔
پیدائش کے بعد جس پہلے احساس سے آشنائی ہو وہ پیار ہی ہے، گھر سے نکلیں ماحول میں سانس لیں تو پیار ہی ہاتھ بڑھائے سنبھالنے کو موجود۔ عمر کی ہر پیش رفت پر، زندگی کی ہر کروٹ پر جہاں جہاں ٹھوکر لگے سہارا دینے کو دل جس کا تمنائی وہ اور کوئی نہیں صرف پیار ہے۔ جہاں خواہش ٹوٹے، ناکامی ملے، تکلیف بیماری، دکھ، بخار نزلہ کھانسی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ ہر جگہ ہر دکھ کا علاج صرف پیار۔ ہاتھ میں کانٹا چبھے اور محبوب کے لب اس زخم کو چوم لیں تو کیسی تکلیف کہاں کا درد۔

 

پیار، میں کروں تو مرد، کروں گا کس سے عموماً عورت سے۔ لیکن عورت کرے تو ممنوع۔ ہائے پھر میں کس سے پیار کروں جو جواب میں بھی پیار آئے۔ اب مجھے تو آزادی پیار کی اور عورت کو پابندی۔ جو ہر پابندی توڑ کر پیار کا جواب دیں تو ان کی تعداد چند ایک۔ یعنی ایک انار سو بیمار۔ ہائے اب بے چاری کس سے سچا پیار کرے، اسی لیے یارو، اکتفا کر لو!

 

پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے، جھوٹا ہی سہی

 

اب پیار جو زندگی کی سب سے بڑی کمی اور جسے مل ہی نہ پائے وہ اور کیا کرے۔ حوروں کے چکر میں دن رات بتائے۔ روز لوگوں کی راہ میں روڑے اٹکائے، ان کو ستائے جلائے تڑپائے، ان پر قدغنیں لگائے۔ جو پیار نہیں کرپاتا، یا جسے کوئی لائق پیار نہیں سمجھ پاتا وہ ایک اور ہی فارمولے پر چل نکلتا ہے۔ ہاں اب سب کو روکنا ہے، اس کے خیال میں وہ جتنے محبت بھرے دلوں کو روک سکے گا اتنی ہی اس کے لیے جنت میں ریزرو حوروں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ تو جناب دن بھر انسانی حوروں کی چوکیداری اور ان پر (سرتاپا) نظر رکھنا، اور رات کو اپنے لیے جنت میں کمائی گئی حوروں کی گنتی۔ اکڑ بکڑ بمبے بو۔ اسی نوے پورے سو۔

 

ہائے اس ظالم سماج، دکھ دائیک بننے سے کہیں بہتر نہیں، مل کر نعرہ لگائیں۔۔۔

 

پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے، جھوٹا ہی سہی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *