[blockquote style=”3″]
مجاہد حسین برسلز میں مقیم ایک پاکستانی صحافی اور مصنف ہیں۔ ان کی کتاب ‘پنجابی طالبان’ پنجاب سے جنم لینے والے فرقہ وارانہ شدت پسند گروہوں کی جملہ حرکیات کا احاطہ کرتی ہے۔ سنجیدہ حلقوں میں پزیرائی حاصل کرنے والی یہ کتاب حکومتی حلقوں میں مورد عتاب ٹھہری۔ لالٹین کے ساتھ اس نشست میں انہوں نے پنجابی طالبان کے بارے میں کچھ مزید چشم کشا انکشافات کیے ۔
[/blockquote]
لالٹین: پنجابی طالبان کون ہیں؟ بہت سے لوگ تو ان کے وجود سے ہی انکاری ہیں؟
مجاہد:پنجابی طالبان بنیادی طور پر پاکستان کی فرقہ وارانہ جماعتوں کا مجموعہ ہے جس میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش محمد، حرکت الانصار جو پہلے حرکت المجاہدین کہلاتی تھی اور آجکل انصارالامہ کہلاتی ہے، جیسے گروہ شامل ہیں۔ پنجابی طالبان ان تنظیموں کے ملے جلے لوگ ہیں جو بنیادی طور پر القاعدہ کے ساتھ منسلک ہوئے اور طالبان کے ساتھ ان کا تعلق تو پہلے سے ہی موجود تھا۔ افغانستان میں پنجابی طالبان کا ایک خاص کردار رہا ہے۔ افغان جہاد میں یہ پنجابی مجاہدین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طالبنائزیشن کے دور کے بعد انہیں پنجابی طالبان کہا گیا۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ جیسا کہ سابقہ پنجاب حکومت کے وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ نے پنجابی طالبان کی اصطلاح کی مذمت کی اور پنجابی طالبان کے وجود کا بھی انکار کیا لیکن وہ تو ایک ناقابل تردید حقیقت کی طرح موجود ہیں۔ وہ خود کو پنجابی طالبان کہلواتے ہیں اور دوسرے علاقوں کے شدت پسند بھی ان کو یہی نام دیتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں جہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اپنی کارروائیاں کرتے ہیں جس میں ان کا الحاق جنداللہ اور لشکر جھنگوی العالمی جیسے گروہوں کے ساتھ بھی ہے۔ ان گروہوں کے کیڈرز پاکستان اور افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
مجاہد:پنجابی طالبان بنیادی طور پر پاکستان کی فرقہ وارانہ جماعتوں کا مجموعہ ہے جس میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش محمد، حرکت الانصار جو پہلے حرکت المجاہدین کہلاتی تھی اور آجکل انصارالامہ کہلاتی ہے، جیسے گروہ شامل ہیں۔ پنجابی طالبان ان تنظیموں کے ملے جلے لوگ ہیں جو بنیادی طور پر القاعدہ کے ساتھ منسلک ہوئے اور طالبان کے ساتھ ان کا تعلق تو پہلے سے ہی موجود تھا۔ افغانستان میں پنجابی طالبان کا ایک خاص کردار رہا ہے۔ افغان جہاد میں یہ پنجابی مجاہدین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طالبنائزیشن کے دور کے بعد انہیں پنجابی طالبان کہا گیا۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ جیسا کہ سابقہ پنجاب حکومت کے وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ نے پنجابی طالبان کی اصطلاح کی مذمت کی اور پنجابی طالبان کے وجود کا بھی انکار کیا لیکن وہ تو ایک ناقابل تردید حقیقت کی طرح موجود ہیں۔ وہ خود کو پنجابی طالبان کہلواتے ہیں اور دوسرے علاقوں کے شدت پسند بھی ان کو یہی نام دیتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں جہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی ضرورت پڑتی ہے، یہ اپنی کارروائیاں کرتے ہیں جس میں ان کا الحاق جنداللہ اور لشکر جھنگوی العالمی جیسے گروہوں کے ساتھ بھی ہے۔ ان گروہوں کے کیڈرز پاکستان اور افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
لالٹین: پہلے سے زیادہ مضبوط کیسے ہوئے ہیں حالانکہ بظاہر ریاست ان کے خلاف ایکشن بھی لے رہی ہے۔ چند سال قبل آپ کی تحقیق کے مطابق پنجابی طالبان کی تعداد تقریبا ڈیڑھ لاکھ تھی۔ اب کیا صورت حال ہے؟
مجاہد:اب تو ان کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ ایک وجہ تو فرقہ وارانہ جماعتوں کا طالبان کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں ان کی تربیت آج بھی جاری ہے۔ اُگی کیمپ اور مانسہرہ کے گردونواح میں واقع کیمپ اس کی مثالیں ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ان کے تربیتی کیمپ ہیں۔ اور جہاں تک ہماری ریاست کا تعلق ہے، وہ کبھی بھی خود کو ان سے علیحدہ نہیں کر سکی۔ اگر ہماری ایجنسیوں کو ان کے تربیتی کیمپوں کا پتہ ہے اور وہ کوئی کارروائی نہیں کررہیں تو بات صاف ظاہر ہے۔ محض آئی ایس پی آر کے بیانات تو کافی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل طالبان نے حکومت کو دھمکی آمیز خط لکھ کر اپنے ساتھیوں کی پھانسیاں رکوائی ہیں۔ یہ ریاست پاکستان کی طرف سے ایک طرح کا تعاون تھا۔ اس کے بدلے میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں حملے نہیں کریں گے، لیکن حملے انہوں نے پھر بھی کیے۔
مجاہد:اب تو ان کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ ایک وجہ تو فرقہ وارانہ جماعتوں کا طالبان کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں ان کی تربیت آج بھی جاری ہے۔ اُگی کیمپ اور مانسہرہ کے گردونواح میں واقع کیمپ اس کی مثالیں ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ان کے تربیتی کیمپ ہیں۔ اور جہاں تک ہماری ریاست کا تعلق ہے، وہ کبھی بھی خود کو ان سے علیحدہ نہیں کر سکی۔ اگر ہماری ایجنسیوں کو ان کے تربیتی کیمپوں کا پتہ ہے اور وہ کوئی کارروائی نہیں کررہیں تو بات صاف ظاہر ہے۔ محض آئی ایس پی آر کے بیانات تو کافی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل طالبان نے حکومت کو دھمکی آمیز خط لکھ کر اپنے ساتھیوں کی پھانسیاں رکوائی ہیں۔ یہ ریاست پاکستان کی طرف سے ایک طرح کا تعاون تھا۔ اس کے بدلے میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں حملے نہیں کریں گے، لیکن حملے انہوں نے پھر بھی کیے۔
لالٹین: اسی سال ستمبر میں پنجابی طالبان کے عصمت اللہ معاویہ گروپ نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کارروائیاں روکنے جبکہ افغانستان میں انہیں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس کے محرکات کیا ہیں اور کیا یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے؟
مجاہد:میرے خیال میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر حملے نہ کر پانا پنجابی طالبان کا کوئی شعوری فیصلہ نہیں، بنیادی طور پر حالات کا تقاضہ تھا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ افغانستان میں مصروف ہیں، اور دوسری یہ کہ ان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی کچھ بہت اچھے نہیں رہے۔ تعلقات کی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی یہ سمجھتی ہے کہ پنجابی طالبان پاکستانی ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ہیں۔ تو یہ بنیادی طور پر پنجابی طالبان کے کچھ اندرونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ اس طرح کھل کے حملے اور بات نہیں کر سکتے جس طرح ٹی ٹی پی کرتی ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں افغان طالبان کے ساتھ تعلق قائم رکھنا بھی ان کی ایک ضرورت ہے۔
مجاہد:میرے خیال میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر حملے نہ کر پانا پنجابی طالبان کا کوئی شعوری فیصلہ نہیں، بنیادی طور پر حالات کا تقاضہ تھا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ افغانستان میں مصروف ہیں، اور دوسری یہ کہ ان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی کچھ بہت اچھے نہیں رہے۔ تعلقات کی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی یہ سمجھتی ہے کہ پنجابی طالبان پاکستانی ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ہیں۔ تو یہ بنیادی طور پر پنجابی طالبان کے کچھ اندرونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ اس طرح کھل کے حملے اور بات نہیں کر سکتے جس طرح ٹی ٹی پی کرتی ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں افغان طالبان کے ساتھ تعلق قائم رکھنا بھی ان کی ایک ضرورت ہے۔
لالٹین: فرقہ واریت کے علاوہ پنجابی طالبان کے دیگر نظریاتی مقاصد اور لائحہ عمل کیا ہیں؟
پنجابی طالبان کا اقلیتوں پر حملہ محض اقلیتوں پر حملہ نہیں، ریاست پاکستان پر بھی حملہ ہے۔
مجاہد: پنجابی طالبان کی مسلکی بنیاد دیوبندی نقطہ نظر ہے۔ ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پنجابی طالبان القاعدہ کی طرح کوئی نظریاتی گروپ نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر موقع پرست جنگجو گروہوں کا اکٹھ ہے۔ جہاں ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہو، یہ حملہ کر دیتے ہیں۔ اور جہاں سے انہیں کسی فائدہ کی توقع ہو تو یہ صرف نظر بھی کر دیتے ہیں۔ یہ کہنا بالکل یک طرفہ بات ہو گی کہ یہ ریاست کی مرضی سے حملے کرتے اور روکتے ہیں۔ ان کے مقاصد میں اپنی تنظیم اور اس کے مفادات ہی سر فہرست ہوتے ہیں۔ اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ پنجابی طالبان کوئی پاکستان فرینڈلی طالبان ہو گئے ہیں۔
تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ پنجابی طالبان کا اقلیتوں پر حملہ محض اقلیتوں پر حملہ نہیں، ریاست پاکستان پر بھی حملہ ہے۔ جیسا کہ پچھلے سال چلاس والے حملے میں ضلعی انتظامیہ کے بہت سے لوگ جن میں ایک ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی شامل ہیں، مارے گئے۔
یہ بہت سی کارروائیاں القاعدہ کے ساتھ مل کر کرتے ہیں جیسا کہ سری لنکن ٹیم پر حملہ اور سلمان تاثیر کے بیٹے کا اغوا۔ دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کرنے والی کارروائیوں میں یہ اس حد تک منظّم ہیں کہ ان کا اپنا اپنا میدان طے ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر کس نے معلومات دینی ہیں، کس نے ریکی کرنی ہے، کس نے اغوا کرنا ہے، کس نے آگے بیچنا دینا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ صورت حال ہمارے تفتیش کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کافی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ پنجابی طالبان کا اقلیتوں پر حملہ محض اقلیتوں پر حملہ نہیں، ریاست پاکستان پر بھی حملہ ہے۔ جیسا کہ پچھلے سال چلاس والے حملے میں ضلعی انتظامیہ کے بہت سے لوگ جن میں ایک ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی شامل ہیں، مارے گئے۔
یہ بہت سی کارروائیاں القاعدہ کے ساتھ مل کر کرتے ہیں جیسا کہ سری لنکن ٹیم پر حملہ اور سلمان تاثیر کے بیٹے کا اغوا۔ دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کرنے والی کارروائیوں میں یہ اس حد تک منظّم ہیں کہ ان کا اپنا اپنا میدان طے ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر کس نے معلومات دینی ہیں، کس نے ریکی کرنی ہے، کس نے اغوا کرنا ہے، کس نے آگے بیچنا دینا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ صورت حال ہمارے تفتیش کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کافی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
لالٹین: پنجابی طالبان کا نچلی سطح تک نیٹ ورک کیسے چلتا ہے اور ان کو نئے ریکروٹ کہاں سے ملتے ہیں؟
مجاہد: ان کا بنیادی مآخذ تو مدارس ہیں۔ اور پاکستان میں سب سے مربوط اور منظم مدارس کا سلسلہ تو دیوبند کا ہی ہے۔ صرف کراچی میں چار بڑے مدارس، جن میں جامعہ بنوری ٹاون، جامعہ اسلامیہ نیو ٹاون، جامعہ فاروقیہ، اور جامعہ رشیدیہ شامل ہیں، کے صرف ہوسٹلوں میں رہنے والے طلبہ کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار ہے۔ پاکستان بھر میں ایسے ہزاروں مدارس ہیں۔ وہ کھلے عام طریقے سے تو ریکروٹمنٹ نہیں کر سکتے لہٰذا ایسے مدارس پر ہی بنیادی طور پر انحصار کرتے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد تربیت لیتی ہے اور جہاد پر بھی جاتی ہے۔ بعض مدارس جہادی تربیت کے مراکز کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں اور جہاد جیسے مسائل پر ان کا نقطہ نظر بھی ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دارالعلوم حقانیہ جیسے مدرسے کو ہم طالبان اور افغانستان کی پوری شورش سے الگ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
مجاہد: ان کا بنیادی مآخذ تو مدارس ہیں۔ اور پاکستان میں سب سے مربوط اور منظم مدارس کا سلسلہ تو دیوبند کا ہی ہے۔ صرف کراچی میں چار بڑے مدارس، جن میں جامعہ بنوری ٹاون، جامعہ اسلامیہ نیو ٹاون، جامعہ فاروقیہ، اور جامعہ رشیدیہ شامل ہیں، کے صرف ہوسٹلوں میں رہنے والے طلبہ کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار ہے۔ پاکستان بھر میں ایسے ہزاروں مدارس ہیں۔ وہ کھلے عام طریقے سے تو ریکروٹمنٹ نہیں کر سکتے لہٰذا ایسے مدارس پر ہی بنیادی طور پر انحصار کرتے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد تربیت لیتی ہے اور جہاد پر بھی جاتی ہے۔ بعض مدارس جہادی تربیت کے مراکز کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں اور جہاد جیسے مسائل پر ان کا نقطہ نظر بھی ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دارالعلوم حقانیہ جیسے مدرسے کو ہم طالبان اور افغانستان کی پوری شورش سے الگ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
لالٹین: کالعدم تنظیموں کی نشرواشاعت کا سلسلہ کس حد تک جاری وساری ہے؟
حکومت کی طرف سے ان کی نشرواشاعت پر کوئی خاص قدغن نہیں ہے۔ جیش محمد ایک کالعدم تنظیم ہے لیکن اس کی تمام پبلیکیشنز موجود ہیں۔
مجاہد: سب کے میگزین بلا روک ٹوک نکل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سپاہ صحابہ کے ‘حق چار یار’ اور ‘خلافت راشدہ’ پوری آب و تاب سے نکل رہے ہیں۔ اور ان کے مواد میں بھی کوئی بدلاو نہیں ہے۔ اس میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی بدستور موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے انتظامی افسران ان کو پڑھتے نہیں ہیں اور ان کو علم نہیں ہے کہ مواد کیا ہے اور اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی نشرواشاعت پر کوئی خاص قدغن نہیں ہے۔ جیش محمد ایک کالعدم تنظیم ہے لیکن اس کی تمام پبلیکیشنز موجود ہیں۔ ان کی ویب سائٹ ‘صدائے مجاہد’ اب بھی چل رہی ہے، ایک ہفت روزہ ‘القلم’ بھی چھپ رہا ہے، عورتوں اور بچوں کے بارے میں چھپنے والے ماہانہ میگزینز بھی چھپ رہے ہیں۔
اور یہ صرف مدارس تک محدود نہیں ہے۔ مثلا جامعہ رشیدیہ اور پھر الرشید ٹرسٹ کا شدت پسندی کے حوالے سے کردار آپ جانتے ہی ہیں، ان کا ایک ہفت روزہ ضرب مومن بہت اعلی طباعت اور ایک بڑی سرکولیشن کے ساتھ پوری آب و تاب سے چھپ رہا ہے۔ ہمارے کئی نامی گرامی صحافی اور قومی ہیرو بھی نام بدل بدل کر اس میں لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ الرشید ٹرسٹ کا ایک اخبار بھی ہے، روزنامہ اسلام کے نام سے جس کی سرکولیشن بہت سارے روزناموں سے بہتر ہے۔ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی چیزیں تو ہمیں قومی سطح کے ذرائع ابلاغ میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی ویب سائٹس چل رہی ہیں۔ وہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کے پاس اپنے افکار اور نظریات کی ترویج کرنے کی پہلے سے زیادہ آزادی ہے۔
اور یہ صرف مدارس تک محدود نہیں ہے۔ مثلا جامعہ رشیدیہ اور پھر الرشید ٹرسٹ کا شدت پسندی کے حوالے سے کردار آپ جانتے ہی ہیں، ان کا ایک ہفت روزہ ضرب مومن بہت اعلی طباعت اور ایک بڑی سرکولیشن کے ساتھ پوری آب و تاب سے چھپ رہا ہے۔ ہمارے کئی نامی گرامی صحافی اور قومی ہیرو بھی نام بدل بدل کر اس میں لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ الرشید ٹرسٹ کا ایک اخبار بھی ہے، روزنامہ اسلام کے نام سے جس کی سرکولیشن بہت سارے روزناموں سے بہتر ہے۔ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والی چیزیں تو ہمیں قومی سطح کے ذرائع ابلاغ میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی ویب سائٹس چل رہی ہیں۔ وہ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کے پاس اپنے افکار اور نظریات کی ترویج کرنے کی پہلے سے زیادہ آزادی ہے۔
لالٹین: پنجابی طالبان کے مسئلے پر حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی میں آپ بہتری کی امید دیکھتے ہیں؟
مجاہد: میں نہیں سمجھتا ایسی کوئی قوی امید ہے۔ ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ قومی سطح پر ہمارے اندر تذبذب پایا جاتا ہے اور ہمارا قومی بیانیہ مزید پیچیدہ ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسی تنظیموں پر قابو پا لیا گیا ہوتا تو آج داعش کے حمایت میں وال چاکنگ نہ ہو رہی ہوتی۔
اگر ہماری سول انتظامیہ مضبوط ہو تو اس سے ریاست بھی مضبوط ہو گی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے سیاسی اثرورسوخ اور طاقتور ادارے شدت پسندوں کو تحفظ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کا سارا کام ناکام جاتا ہے۔ تاہم اسے سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کر لیں کہ انہوں نے شدت پسندی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے۔ یہ طے کر لیں کہ وہ کالعدم تنظیموں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کریں گی۔
مجاہد: میں نہیں سمجھتا ایسی کوئی قوی امید ہے۔ ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ قومی سطح پر ہمارے اندر تذبذب پایا جاتا ہے اور ہمارا قومی بیانیہ مزید پیچیدہ ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسی تنظیموں پر قابو پا لیا گیا ہوتا تو آج داعش کے حمایت میں وال چاکنگ نہ ہو رہی ہوتی۔
اگر ہماری سول انتظامیہ مضبوط ہو تو اس سے ریاست بھی مضبوط ہو گی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے سیاسی اثرورسوخ اور طاقتور ادارے شدت پسندوں کو تحفظ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کا سارا کام ناکام جاتا ہے۔ تاہم اسے سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کر لیں کہ انہوں نے شدت پسندی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے۔ یہ طے کر لیں کہ وہ کالعدم تنظیموں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کریں گی۔