پلڈاٹ کا شمار ان غیر سرکاری اداروں میں ہوتاہے، جو وقتاًفوقتاً پاکستان میں جمہوریت کی حالتِ زار، انتخابات اور سیاسی صورتحال سے متعلق رپورٹیں شائع کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کے حوالے سے پلڈاٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بڑا چرچا ہے۔ پلڈاٹ کی اس رپورٹ میں جماعت اسلامی کو پارٹی کی اندرونی جمہوریت کے حوالے سے پہلا نمبر ملا ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کی نیشنل پارٹی کا نمبر آتاہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف تیسرے، پاکستان پیپلز پارٹی پانچویں، متحدہ قومی مومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام(ف) چھٹے اور حکمران مسلم لیگ (ن) جمہوریت کے حوالے سے ساتویں نمبر پر براجمان ہے۔ یوں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ جمہوری اور مسلم لیگ (ن) کوسب سے زیادہ غیر جمہوری پارٹیوں کا درجہ ملاہے۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد میڈیا، تجزیہ نگاروں اور عوام میں مسلسل یہ بحث جاری ہے کہ چونکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت خود آمرانہ روش پر گامزن ہے تووہ ملک کو کس طرح جمہوری راہ پرڈال سکتی ہے؟ پلڈاٹ کے سربراہ نے اپنے تازہ ترین ٹی وی انٹرویو میں اس سروے کی تیاری کے حوالے سے بتایا کہ کسی سیاسی جماعت کے اندرونی جمہوریت کو جانچنے کے لئے مندرجہ ذیل اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔
1۔ یہ کہ کون سے سیاسی جماعت کا دستور زیادہ سے زیادہ جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔
2۔ کون سے جماعت میں اندرونی انتخابات یعنی انٹراپارٹی الیکشن منعقد ہوتے ہیں ۔
3۔ کیا سیاسی جماعتوں میں کمیٹیاں موجود ہیں اور کیاوہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں؟
4۔ سیاسی جماعت میں اقلیتوں اور خواتین کو کس تناسب سے نمائندگی ملتی ہے اور ان کا کردار کیا ہے؟
2۔ کون سے جماعت میں اندرونی انتخابات یعنی انٹراپارٹی الیکشن منعقد ہوتے ہیں ۔
3۔ کیا سیاسی جماعتوں میں کمیٹیاں موجود ہیں اور کیاوہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں؟
4۔ سیاسی جماعت میں اقلیتوں اور خواتین کو کس تناسب سے نمائندگی ملتی ہے اور ان کا کردار کیا ہے؟
جمہوریت ماپنے کے جو اصول پلڈاٹ نے وضع کیے ہیں، جماعت اسلامی ان میں سے اکثر یت کی پیروی نہیں کرتی
میری رائے میں اس رپورٹ کی تیاری میں استعمال کیے گئے معیارات اور رپورٹ کے نتائج میں کافی سقم اور تضادات موجود ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں جمہوری روایات کا فقدان ہے اور سیاسی جماعتوں میں اس کی واضح جھلک نظر آتی ہے لیکن پلڈاٹ نے سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کو ناپنے کے لئے جو طریقہ کار وضع کیا اور اس کی بناء پر جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ جمہوری قراردیا ہے، وہ اپنی جگہ بحث طلب ہے۔ کیونکہ جمہوریت ماپنے کے جو اصول پلڈاٹ نے وضع کیے ہیں، جماعت اسلامی ان میں سے اکثر یت کی پیروی نہیں کرتی۔ پھر کس طرح اس جماعت کو اول درجہ ملاہے؟ قابلِ توجہ امریہ ہے،کہ کیا جماعت اسلامی ایک جمہوری طرز کی جماعت بھی ہے یا پھر چند ہزار افراد پر مشتمل ایک پریشر گروپ؟ اس مظہر کو سمجھنے کے لئے جماعت اسلامی کے دستور کے مطالعہ کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا دستور وہ بنیادی دستاویز ہوتا ہے جو اس مخصوص جماعت کے سیاسی قبلہ کا تعین کرتا ہے۔
دستورِ جماعت اسلامی اشاعت دسمبر 2011ء شائع شدہ، شعبہ تنظیم جماعت اسلامی پاکستان منصورہ ،لاہور(پاکستان)۔
حصہ اول :
نام،نصب العین اور شرائط وفرائض رکنیت ۔
نام،نصب العین اور شرائط وفرائض رکنیت ۔
نصب العین :
دفعہ ۴: جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین(حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الہٰی اورفلاحِ اُخروی کا حصول ہو گا”۔
دفعہ ۴: جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین(حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الہٰی اورفلاحِ اُخروی کا حصول ہو گا”۔
جمہوریت کا مطلب ایساطرزِ حکومت ہے جس میں عوام کی براہ راست شرکت ہو۔ جمہوری طرزِ حکومت کا تعلق رضائے الٰہی یا فلاحِ اُخروی سے نہیں بلکہ دنیاوی زندگی میں انسان کی فلاح وبہبود سے ہے جبکہ حصولِ رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا انحصار عبادت وریاضت پر منحصر ہے۔ دستورِ جماعت اسلامی کے مطابق اس کا نصب العین عوامی فلاحی ریاست کا قیام نہیں البتہ مخصوص برانڈ کی مذہبی ریاست کا قیام ہے۔
شرائطِ رکنیت:
دستورِ جماعت اسلامی کے مطابق اس کا نصب العین عوامی فلاحی ریاست کا قیام نہیں البتہ مخصوص برانڈ کی مذہبی ریاست کا قیام ہے۔
دفعہ ۶: ہر عاقل وبالغ شخص (خواہ وہ عورت ہو یا مرد اورخواہ وہ کسی ذات برادری یا نسل سے تعلق رکھتاہو) اس جماعت کا رکن بن سکتاہے بشرطیکہ وہ:
1: جماعت کے عقیدے کو اس کی تشریح کے ساتھ سمجھ لینے کے بعد شہادت دے کہ یہی اس کا عقیدہ ہے۔
2: اس دستورکا مطالعہ کرنے کے بعد عہد کرے کہ وہ اس کے مطابق جماعت کے نظم کی پابندی کرے گا۔
3: فرائضِ شرعی کا پابند ہو اور کبائر سے اجتناب کرتاہو”۔
2: اس دستورکا مطالعہ کرنے کے بعد عہد کرے کہ وہ اس کے مطابق جماعت کے نظم کی پابندی کرے گا۔
3: فرائضِ شرعی کا پابند ہو اور کبائر سے اجتناب کرتاہو”۔
جماعت اسلامی کا عقیدہ تو رضائے الٰہی اورفلاحِ اُخروی کے حصول کی جدوجہد ہے، رضائے الٰہی اورفلاحِ اُخروی کا تصور اسلام کے تمام مکاتب فکر میں جُدا ہے نیز غیر مسلموں کے عقائد مسلمانوں سے یکسر مختلف اوراکثر صورتوں میں متضاد ہیں۔ ایسی حالت میں بالعموم اگر اسلام کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر کے حامل فرقے کاکوئی فرد اوربالخصوص غیر مسلم جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کرنا چاہے تو کیا انہیں بھی اپنے عقائد کو خیر باد کہتے ہوئے جماعت اسلامی کے عقائد کو اختیارکرنا ہو گا؟ کوئی غیر مسلم جماعت اسلامی کا رکن بننا چاہے تو دستور میں ایسے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اگر جماعت اپنے دروازے غیر مسلموں کے لئے بند رکھتی ہے تو پلڈاٹ کے حالیہ رپورٹ اسے سب سے زیادہ جمہوری جماعت قرار دینا قابل اعتراض ہے۔
فرائضِ رکنیت:
دفعہ ۸: داخلہ جماعت کے بعدجو تغیرات ہر رکن کو بتدریج اپنی زندگی میں کرنے ہوں گے وہ یہ ہیں:
1: دین کا کم ازکم اتناعلم حاصل کرلیناچاہئے کہ اسلام اور جاہلیت (غیر اسلام) کا فرق معلوم ہو اور حدود اللہ سے واقفیت ہوجائے”۔
کیا اس شرط کا اطلاق غیر مسلموں پر کیا جا سکتا ہے؟ اس شق کے مطابق اسلام (اور بہت سے مسلمانوں کے عقائد بھی) سے باہر کے سارے علوم وعقائد جاہلیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی جماعت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ ہندو، عیسائیت، بدھ مت، سکھ مت اور زرتشتی سب جاہلیت کے پیروکارہیں۔ پھر وہ "جہلا” کس طرح جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ جبکہ پلڈاٹ کی رپورٹ میں ایک شرط اقلیتوں کی شمولیت بھی ہے۔
2: فساق وفجار اور اللہ سے غافل لوگوں سے موالات اور مودت کے تعلقات منقطع کرنا اور صالحین سے ربط قائم کرنا۔
اگر صالحین نہ ملے تو کیا جماعت کے کسی رکن کو ایسے معاشروں کو "دارلحرب” قرار دے کر ہجرت کرنی چاہئے یا پھر ایسے کافرانہ سماج کے خلاف جہاد کرکے اسے راہِ راست پر لانے کی ضرورت ہو گی
صالحین سے مرادشائد وہ لو گ ہیں جو "مودودیت” اور جماعت اسلامی کے افکار کو اپنے ایمان کا لازمی جز سمجھتے ہوں اور جنہیں جماعت صالحین کی سند عنایت کرے۔ اگر صالحین نہ ملے تو کیا جماعت کے کسی رکن کو ایسے معاشروں کو "دارلحرب” قرار دے کر ہجرت کرنی چاہئے یا پھر ایسے کافرانہ سماج کے خلاف جہاد کرکے اسے راہِ راست پر لانے کی ضرورت ہو گی جیسا کہ سابق امیر جماعت اسلامی جناب منور حسن صاحب جہاد اور قتال کی راہ اپنانے کا مشورہ دے چکے ہیں؟
حصہ دوم:
نظامِ جماعت کی نوعیت اور اس کے چلانے والوں کے اوصاف ۔
نظامِ جماعت کی نوعیت اور اس کے چلانے والوں کے اوصاف ۔
جماعت میں فرقِ مراتب کا معیار
دفعہ ۱۲: اس جماعت میں آدمی کے درجہ ومرتبہ کا تعین اس کے حسب ونسب، علمی اسناد اور مادی حالات کے لحاظ سے نہ ہوگا بلکہ اس تعلق کے لحاظ سے ہوگا جو وہ اللہ، اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ رکھتا ہو اورجماعت کو اس کے اس تعلق کا ثبوت اس کی ان نفسی، جسمانی اور مادی قربانیوں سے ملے گا جو وہ اللہ کے دین کی راہ میں دیں گے”۔
یعنی کوئی شخص کتناہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور لائق کیوں نہ ہو اگر وہ جماعت اسلامی کے تجویز کردہ اسلام کی پیروی کرنے سے معذور ہے تو ان کی قابلیت اور استعداد کسی کام کے نہیں ہوں گے۔ البتہ اس کی جگہ صوم وصلوٰہ کے پابند اَن پڑھ افراد کو آگے لایاجائے گا۔
جماعت اسلامی پر جمہوری جماعت کا لیبل اس کے امیر کے باقاعدہ انتخاب سے لگایا جاتا ہے جس میں جماعت کے ارکان براہ راست شرکت کرتے ہیں، یقیناً پاکستانی تناظر میں یہ ایک خوش آئند امر ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بیس کروڑانسانوں کی آبادی میں صرف تیس ہزار افرادامیر جماعت کا انتخاب کرنے کے اہل ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے دامن میں اگر "جمہور” کو جگہ دینے کے لئے ہی تیار نہیں پھر اسے جمہوریت میں اول نمبر پر آنے کا اعزاز کیوں دیا جا رہا ہے؟ ان حقائق کے پیش نظر پلڈاٹ جیسے معتبر ادارے کی جانب سے متعدد مرتبہ جماعت اسلامی کو پاکستان کے سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ جمہوری قرار دینا میری فہم سے بالاتر ہے ۔
Leave a Reply