ایم کیو ایم کی تاریخ اور کراچی میں اسکی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے، دو باتیں بالکل واضح ہیں؛ ایم کیو ایم کا عوامی مینڈیٹ اور سندھ کی سیاست میں انکا اہم کردار اور یہ دونوں ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے لیے درد سر رہی ہیں۔ بظاہر پیپلز پارٹی جس قدر بھی ایم کیو ایم کو اپنا قدرتی اتحادی قرار دے درحقیقت متحدہ سے اسی قدر نالاں رہتی ہے۔ سندھ کی سیاست تبدیل ہو رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی مومنٹ دونوں اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی جدوجہد میں ہیں۔ میں ذاتی طور پر زرداری صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قائدانہ صلاحیتوں کا بڑا مداح تھا لیکن پچھلے چند ماہ سے پی پی پی کا طرز سیاست اور حکومت دیکھ کر مجھے بھی مایوسی ہوئی ہے۔ تھر کے حالات، سندھ میں لوٹ کھسوٹ حتیٰ کہ قحط زدگان کی امداد میں بھی خردبرد ، ہسپتالوں اور سکولوں کے حالات اور اب یہ ڈرانے دھمکانے والی سیاست کسی صورت بھی پی پی کے بچے کچھے تاثر کو نہیں بچا پائے گی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کے پی پی پی کی تمام تر صوبائی سیاست وڈیرا شاہی پر چل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ بلاول کو صوبائی سیاست سے الگ کیا گیا ہے کیونکہ اسکی سیاسی ناپختگی اس روایتی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بلاول وزیراعظم ٹائپ ہے، وزیر اعلیٰ "میٹیریل” نہیں(ان کی خصوصیات کا انداذہ تو ہر پاکستانی کو بخوبی ہو گا)۔
ایم کیو ایم کی تاریخ اور کراچی میں اسکی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے، دو باتیں بالکل واضح ہیں؛ ایم کیو ایم کا عوامی مینڈیٹ اور سندھ کی سیاست میں انکا اہم کردار اور یہ دونوں ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے لیے درد سر رہی ہیں۔
گزشتہ سات برس کے دوران پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان حکومت میں شمولیت اور علیحدگی کا جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں جماعتیں نہ مل کر چل سکتی ہیں اور نہ علیحدہ ہو سکتی ہیں۔ایم کیو ایم کی حالیہ علیحدگی کے بعد سے زرداری صاحب پچھلے کئی دنوں سے اس کوشش میں ہیں کہ ایم کیو ایم پھر صوبائی حکومت میں شامل ہو جائے۔ اب ایم کیوایم کے مطابق زرداری صاحب کی نیّت ان مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم کے نزدیک اس نیت سے مراد دو چار وزارتیں اور بلدیاتی انتخابات ہوں جبکہ زرداری صاحب کے نزدیک نیت کا مطلب سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی رپورٹ منظرعام پر لانا اور 12مئی کا پنڈورا باکس کھولنا ہو جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق تو عمران فاروق قتل کیس کے زیر حراست ملزمان کو لندن پولیس کے حوالےکرنا بھی نیت کا ایک مطلب ہو سکتا ہے۔
بلدیہ ٹاؤن واقعہ میں یقیناً ایم کیو ایم کے کسی بھتہ خور کے ملوث ہونے کے "امکانات” ہو سکتے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھتہ مانگا گیا ہو لیکن آگ نہ لگائی گئی ہو بلکہ یہ محض ایک حادثہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ پارٹی ہائی کمان کی طرف سے فیکٹری جلانے کی کوئی ہدایات نہ آئی ہوں کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی خودکشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صرف آگ لگائی گئی ہو اور تین سوافراد غیر ارادی طور پر لقمہ اجل بن گئے ہوں، بلاشبہ ایسی صورت میں بھی ان افرادکے قتل کی تمام تر ذمہ داری آگ لگانے والے مجرموں پر ہی ہو گی لیکن قانون کی نظر میں پھر بھی ارادتاً اور غیر ارادتاً قتل میں فرق ہوتا ہے۔
تمام امکانات اپنی جگہ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کا پارٹی فنڈ عموماً لوگ تمام ٹیکسوں کی طرح کوئی خاص خوشی سے جمع نہیں کراتےاور جس طرح اور ن کے ذریعے یہ فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے اسے "بھتہ "ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کارِخیرکی انجام دہی کے لیے یقیناً بہت سے "بھائی لوگ” بھی متعین ہیں جو ہر ممکنہ طریقے سے پارٹی فنڈ اکٹھا کرتے ہیں۔ اگرچہ متحدہ خود کو ایسے عناصر کے تشددسے علیحدہ قرار دیتی ہے لیکن اگر انہی چھوٹے موٹے بھائی لوگوں میں سے کوئی غلطی سے کوئی فیکٹری جلا دے ، بندہ پھڑکا دے اور اس دوران دو تین سو بندے بھی بھسم کر دے تو پارٹی اس امر سے کسی طور پر خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی۔
بلدیہ ٹاؤن واقعہ میں یقیناً ایم کیو ایم کے کسی بھتہ خور کے ملوث ہونے کے "امکانات” ہو سکتے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھتہ مانگا گیا ہو لیکن آگ نہ لگائی گئی ہو بلکہ یہ محض ایک حادثہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ پارٹی ہائی کمان کی طرف سے فیکٹری جلانے کی کوئی ہدایات نہ آئی ہوں کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی خودکشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صرف آگ لگائی گئی ہو اور تین سوافراد غیر ارادی طور پر لقمہ اجل بن گئے ہوں، بلاشبہ ایسی صورت میں بھی ان افرادکے قتل کی تمام تر ذمہ داری آگ لگانے والے مجرموں پر ہی ہو گی لیکن قانون کی نظر میں پھر بھی ارادتاً اور غیر ارادتاً قتل میں فرق ہوتا ہے۔
تمام امکانات اپنی جگہ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کا پارٹی فنڈ عموماً لوگ تمام ٹیکسوں کی طرح کوئی خاص خوشی سے جمع نہیں کراتےاور جس طرح اور ن کے ذریعے یہ فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے اسے "بھتہ "ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کارِخیرکی انجام دہی کے لیے یقیناً بہت سے "بھائی لوگ” بھی متعین ہیں جو ہر ممکنہ طریقے سے پارٹی فنڈ اکٹھا کرتے ہیں۔ اگرچہ متحدہ خود کو ایسے عناصر کے تشددسے علیحدہ قرار دیتی ہے لیکن اگر انہی چھوٹے موٹے بھائی لوگوں میں سے کوئی غلطی سے کوئی فیکٹری جلا دے ، بندہ پھڑکا دے اور اس دوران دو تین سو بندے بھی بھسم کر دے تو پارٹی اس امر سے کسی طور پر خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی۔
سیاست دان اور عوام تاریخ سے سبق سیکھے بغیر ایک جماعت کے خلاف بنائے گئےعمومی تاثر کے غلام بنے ہوئے ہیں اور واضح حقائق کو ہمیشہ کی طرح نظر انداذ کر رہے ہیں۔
بلدیہ ٹاون واقعہ کی مبہم رپورٹ کو بنیاد بنا کر ایم کیوایم کو مزید کم زورکیا جا رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور بارہ مئی کے واقعات کو لپک لپک کر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بارہ مئی 2007 کے سانحہ میں محض ایم کیو ایم ہی نہیں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل مشرف کا نام بھی آتا ہے۔ جنرل مشرف جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ق) کی مدد سے حکومت کرتے رہے ہیں جن کے ساتھ تحریک انصاف اتحاد قائم کیے ہوئے ہے۔جماعت اسلامی کے اپنے کارکنان کے گھروں سے القائدہ کے درجنوں مطلوب افراد پکڑے جا چکے ہیں لیکن تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے اس عسکریت پسندی کے خلاف آواز اٹھانے کی مثالیں بے حد کم ہیں۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس کے سربراہ کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ لندن میں کچھ کاغذات ہلا ہلا کر دعوے فرماتے رہے اور بعد میں اپنی کارکن زہرا آپا کے قتل کو بھلا کر بھائی بھائی بن گئے۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے ایم کیو ایم پر تنقید اصولی موقف نہیں بلکہ محض ایم کیو ایم کو کم زور کر کے اس کی جگہ لینے کی کوشش ہے۔ایک مبہم رپورٹ کی آڑ میں ایم کیو ایم کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا پریشان کن امر ہے۔ سیاست دان اور عوام تاریخ سے سبق سیکھے بغیر ایک جماعت کے خلاف بنائے گئےعمومی تاثر کے غلام بنے ہوئے ہیں اور واضح حقائق کو ہمیشہ کی طرح نظر انداذ کر رہے ہیں۔
Leave a Reply