جب بھی تاریخ کا پہیہ گھماتے ہوئے ماضی کے جھروکوں میں اُن ممالک کی ترقی کا راز دیکھتا ہوں جن ممالک نے کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے ہوئے اقوام عالم میں اپنا لوہا منوایا تو ان تمام ممالک میں انقلاب کا ایک ہی راز نظر آیا اور وہ ہے’’تعلیم‘‘۔تعلیم انسان کو انسانیت کے اصولوں سے باور بھی کراتی ہے اور تہاذیب کی ترقی کا زینہ بھی ہے ۔ رابطوں کے اس جال میں جڑی دنیا میں تحقیق اور جستجو ہی کی بدولت یہ دنیا آج خلاء کے بے انت پھیلاو کو سمیٹنے کو زمین کی حدوں کو پھلانگ چکی ہے۔
یونان کےفلاطون اور اسطاطالیس کی روایت کا بار اٹھانے والے کندی، فارابی اور بوعلی سینا ہوں یا تاریک دور کے یورپ میں زمین کو گول ثابت کرنے والے اورارتقائے انسانی کا سراغ دینے والے ہوں سبھی نے جستجو اور تحقیق کا بوجھ اٹھایا ہے اور انسانیت کی مشترکہ میراث میں دیومالا اور اوہام کی جگہ قابل مشاہدہ حقائق اور قابل تصدیق نظریات کا اضافہ کیا۔ جستجو کسی کے گھر کی باندی اور تحقیق کسی کے حرم کی لونڈی نہیں ۔علم وہ لیلیٰ ہے جو صرف مجنوں کا انتظار کرتی ہے جو برہنہ پا خاک بر سر،دریدہ دامن گلی گلی قریہ قریہ۔۔۔۔لیلیٰ لیلیٰ پکارتا ہے۔ علم اندھا بھکاری نہیں کہ دیومالا یا اوہام کے سکوں سے بہل جائے۔یہ حیرت اور تجسس کے بطن سے پھوٹتا ہے اور روشنیوں میں پروان چڑھتا ہے، لا پرواہوں سے روٹھ جاتا ہے اور طلب گاروں کے پیچھے پھرتا ہے۔یہ سوال چیخ چیخ کر پکارتا ہے کہ اگر تم دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو پھر اہل دنیا کی طرح سوچنا ہو گا اگر تم نے ایسا نہ کیا اگر تم نے ایسا نہ سوچا تو پھر ہم پیچھے رہ جائیں گے اور دنیا آگے نکل جائے گی’’کیونکہ تانگے جہازوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘۔ہم، ہمارا اور تم، تمہار کی تقسیم اور تعصب علم اور حکمت کے ہاں نہیں ہوتے۔ یہ کسی جائیداد یا ملکیت کا سوال نہیں ، سرحدوں اور علاقوں کی تحویل کا مسئلہ نہیں انسان ہونے کا وہ بنیادی فریضہ ہے جو سبھی انسانوں پر لازم ہے ۔ کوئی اگر شناخت کے مخمصے میں الجھ کر علم کی تقسیم کرنے پر تلا ہے اور اپنے شاندار ماضی کے فریب میں مبتلا عہد حاضر کے انسان کی معراج کا انکاری ہے تو وہ اپنے انسان ہونے اور اپنے جیسے انسانوں کے انسان ہونے کا انکاری ہے۔
اکیسویں صدی کے اس مقابلے کے دور میں جہاں دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ہم آج بھی ’’غاروں،نعروں اور تلواروں کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہم جھولی پھیلا کر معجزوں اور کرشموں کا انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ قدرت عقل سلیم کی شکل میں اپنا سب سے بڑا معجزہ ’’انسان‘دنیا میں اتار چکی ہے جس کسی نے خرد اور جستجو کی آنکھ سے دنیا کو دیکھا اس کائنات کے عجائبات اس پر کھلتے چلے گئے اور گلزارِ ہست و بود کے سبھی اسرار وا ہوتے چلے گئے۔ انسانی تاریخ کے میزانیے میں کوئی کسی کے مقابل نہیں کھڑا کوئی کسی کا حریف نہیں ہے کیوں کہ علم کسی عقیدے، نسل رنگ اور ذات کا پابند نہیں کیوں کہ یہ نسل ِ انسانی کی مشترکہ میراث ہے جو سبھی آدم زادوں کی معراج ہے۔وہ معراج جہاں انسان زندگی کی تخلیق اور فنا کے ممنوعہ پھل کو اگانے اور کاٹنے کے بھی قابل ہوچکا ہے۔
انتباہ: مجلس ادارت کا میگزین میں شامل قلمی معاونین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مشمولات کی اسناد اور حوالوں میں کمی یا بیشی کا ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
یوتھ یلزایک نیا رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔ |
Leave a Reply