اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دی جانے والی موت کی سزا کالعدم قرار دینا ایک شرمناک فیصلہ ہے، اگرچہ محترم عدالت نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت ممتاز قادری کی سزا برقرار رکھی ہے لیکن سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے اقدام کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت سزا دینے سے گریز کیاہے۔ لیکن کیا ممتاز قادری محض ایک قاتل ہے؟
نہیں ممتازقادری محض ایک قاتل نہیں بلکہ وہ دشمن ہے جسے ہم وزیرستان اور خیبرایجنسی میں تو مارنے کو تیار ہیں لیکن اپنے نظام انصاف کے تحت سزادینے پر قادر نہیں۔
نہیں، ممتاز قادری محض قاتل نہیں بلکہ ایک دہشت گرد بھی ہے۔ اس نے ان سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں آوازوں کو دہشت زدہ کیا ہے جو مذہب کے نام پر بننے والے غیر منصفانہ قوانین اور ان قوانین کے غلط استعمال کے خلاف بلند کی گئیں۔ اس نے انسانی حقوق کے ان کارکنوں کوخاموش ہونے پر مجبور کیاہے جو مذہب کے نام پر ہونے والے ظلم کے خلاف شمعیں روشن کرنے کو نکلتے تھے۔ جو آسیہ بی بی جیسے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے تھے۔ جو مذہبی شدت پسندی سے لڑنا چاہتے تھے۔
نہیں ممتاز قادری صرف ایک قاتل نہیں بلکہ دہشت، مذہبی جنون اور بربریت کا ایک پیغام بر بھی ہے جس نے سبھی پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ خبردار جو کوئی کبھی کسی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اس نے ہم سب کو یہ جتایا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہونا جرم ہے اور اس جرم کی سزا دینے کے لیے کسی عدالت کی بجائے کوئی بھی سر پھرا جنونی ایک بندوق سے آپ کو مار سکتا ہے۔
نہیں ممتاز قادری محض ایک قاتل نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کا نیا چہرہ ہےاوریہ چہرہ ہے جو اس قدر بھیانک ہے کہ اس کے سامنے آتے ہی بازار، گلیاں اور مکان خالی کر دیے جانے چاہئیں۔ یہ ایک ایسی ذہنیت کا چہرہ ہے جو ہم سب پر طاقت کے زور پر مسلط کی جارہی ہے اور اس شدت پسند اور انتہا پسند نقطہ نظر سے اختلاف کی اجازت نہیں۔
نہیں ممتازقادری محض ایک قاتل نہیں بلکہ وہ دشمن ہے جسے ہم وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں تو مارنے کو تیار ہیں لیکن اپنے نظام انصاف کے تحت سزادینے پر قادر نہیں۔ شاید اس لیے کہ مذہب اور پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر قتل کرنے والے ہی ہمیں پسند ہیں، ہم ان سے خوف زدہ ہیں کیوں کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
نہیں ممتاز قادری صرف ایک قاتل نہیں بلکہ دہشت، مذہبی جنون اور بربریت کا ایک پیغام بر بھی ہے جس نے سبھی پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ خبردار جو کوئی کبھی کسی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اس نے ہم سب کو یہ جتایا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہونا جرم ہے اور اس جرم کی سزا دینے کے لیے کسی عدالت کی بجائے کوئی بھی سر پھرا جنونی ایک بندوق سے آپ کو مار سکتا ہے۔
نہیں ممتاز قادری محض ایک قاتل نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کا نیا چہرہ ہےاوریہ چہرہ ہے جو اس قدر بھیانک ہے کہ اس کے سامنے آتے ہی بازار، گلیاں اور مکان خالی کر دیے جانے چاہئیں۔ یہ ایک ایسی ذہنیت کا چہرہ ہے جو ہم سب پر طاقت کے زور پر مسلط کی جارہی ہے اور اس شدت پسند اور انتہا پسند نقطہ نظر سے اختلاف کی اجازت نہیں۔
نہیں ممتازقادری محض ایک قاتل نہیں بلکہ وہ دشمن ہے جسے ہم وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں تو مارنے کو تیار ہیں لیکن اپنے نظام انصاف کے تحت سزادینے پر قادر نہیں۔ شاید اس لیے کہ مذہب اور پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر قتل کرنے والے ہی ہمیں پسند ہیں، ہم ان سے خوف زدہ ہیں کیوں کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
نہیں ممتاز قادری ایک قاتل ہی نہیں بلکہ انسانیت کا بھی مجرم ہے کیوں کہ اس نے ایک ایسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر قتل کرنے جیسا گھناونا جرم کیا ہے جو کل انسانیت کے لیے رحمت تھے ۔
ممتاز قادری صرف ایک قاتل نہیں بلکہ ان طالبان جتنا ہی ظالم اور فتنہ پرور ہے جو ہماری ریاست کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ طالبان اور ممتاز قادری کی سوچ اور نظریے میں کوئی فرق نہیں اور ممتاز قادری بھی بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور ملا فضل اللہ ہی کی طرح دہشت گرد اور قابل گرفت ہے۔ ممتاز قادری کے حامی بھی طالبان کے حامیوں کی طرح ہی پاکستان اور انسانیت کے دشمن ہیں۔
ممتازقادری صرف ایک قاتل نہیں بلکہ ایک علامت ہے، ایک آزمائش ہے اور ایک امتحان ہے۔ یہ امتحان ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہیں جو ممتاز قادری جیسے قاتلوں پر پھول نچھاور کرتے ہیں یا ان کے ساتھ ہیں آسیہ بی بی جیسے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ یہ آزمائش ہے کہ ہم طے کریں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیسے محبت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم ممتاز قادری کی طرح لوگوں کی جان لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں یا ہم آسیہ بی بی کی رہائی کی کوشش کرکے اسلام کا وہ حقیقی پیغام امن سامنے لانا چاہتے ہیں جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
نہیں ممتاز قادری ایک قاتل ہی نہیں بلکہ انسانیت کا بھی مجرم ہے کیوں کہ اس نے ایک ایسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر قتل کرنے جیسا گھناونا جرم کیا ہے جو کل انسانیت کے لیے رحمت تھے ۔ ممتازقادری صرف سلمان تاثیر، ان کے خاندان اور پاکستانیوں کا مجرم نہیں بلکہ ہراس انسان کا مجرم ہے جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا داعی ہے۔ وہ ہر اس فرد کا مجرم ہے جو مذہب کی انتہاپسندتشریح کے خلاف ہیں، جو مذہب کو قتل و غارت گری کے لیے استعمال کرنے کے خلاف ہیں اور مذہب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کے خلاف ہیں۔
ممتازقادری صرف ایک قاتل نہیں بلکہ ایک علامت ہے، ایک آزمائش ہے اور ایک امتحان ہے۔ یہ امتحان ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہیں جو ممتاز قادری جیسے قاتلوں پر پھول نچھاور کرتے ہیں یا ان کے ساتھ ہیں آسیہ بی بی جیسے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ یہ آزمائش ہے کہ ہم طے کریں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیسے محبت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم ممتاز قادری کی طرح لوگوں کی جان لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں یا ہم آسیہ بی بی کی رہائی کی کوشش کرکے اسلام کا وہ حقیقی پیغام امن سامنے لانا چاہتے ہیں جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
نہیں ممتاز قادری ایک قاتل ہی نہیں بلکہ انسانیت کا بھی مجرم ہے کیوں کہ اس نے ایک ایسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر قتل کرنے جیسا گھناونا جرم کیا ہے جو کل انسانیت کے لیے رحمت تھے ۔ ممتازقادری صرف سلمان تاثیر، ان کے خاندان اور پاکستانیوں کا مجرم نہیں بلکہ ہراس انسان کا مجرم ہے جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا داعی ہے۔ وہ ہر اس فرد کا مجرم ہے جو مذہب کی انتہاپسندتشریح کے خلاف ہیں، جو مذہب کو قتل و غارت گری کے لیے استعمال کرنے کے خلاف ہیں اور مذہب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کے خلاف ہیں۔
Leave a Reply