[blockquote style=”3″]
ثروت زہرا اپنی شاعری کے اعتبار سے بہت صاف گو ہیں، یعنی ان کے یہاں وہ شاعرانہ لٹکے جھٹکے نہیں جو ہماری روایت کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ میں ان کی شاعری کو اس لیے بھی پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ اس عورت کے مسائل کو، ذہنی الجھنوں اور سچائیوں کو نظم کرنا پسند کرتی ہیں، جن سے روز صبح ان کا آئینے میں سامنا ہوتا ہے۔ اور جو شخص اپنے آپ سے بہت دور نہ ہو، خود سے نظریں ملا سکے اور شاعری میں بھی وہ لکھ سکے جو اسے سچ معلوم ہوتا ہو، وہ اس کی حق گوئی اور اپنے فن کے تئیں مخلص ہونے کی دلیل ہے۔ میں نسوانیت کو تو جانتا ہوں، نسوانی حسیت کو نہیں جانتا اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ مرد اور عورت کے مسائل ایک دوسرے سے بہت حد تک جڑے ہوئے ہیں، اور ان کی حسیت سانس کے ساتھ الجھتی بلکتی کم و بیش ایک ہی جیسی ہوتی ہے، خواہ لذت پرستی ہو یا ذلت سے چھٹکارے کی خواہش۔
مندرجہ ذیل نظم کا ایک مخصوص سیاق ضرور ہے اور وہ اتنا واضح ہے کہ اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ کسی مولوی نے کسی عورت کے بارے میں ایسے عزائم کا اظہار کیا ہو۔ یہ سب ہوتا رہتا ہے، اور اگر یہ حادثہ رونما ہوا ہے تو اس میں قصور ان ٹی وی چینل والوں کا بھی ہے جو دو بالکل مختلف پس منظر رکھنے والے، مختلف سوچ کے حامل لوگوں کو ایک سٹیج پر صرف ٹی آر پی پیدا کرنے کے چکر میں ایک ہی میز پر بٹھاتے ہیں۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، ان دونوں ملکوں میں میڈیا کی یہ ترکیب بہت کارگر رہتی ہے اور یہ روپیہ پیدا کرنے کے لیے اس قسم کے حادثات کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر حادثہ ہو ہی گیا ہو تو اس کی مذمت نہ کی جائے۔ ضرور کی جانی چاہیے اور ہر اس منفی پہلو کی تنقید ہونی ضروری ہے، جو کسی انسان کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر یا جذبات میں آکر پیدا کیا گیا ہو۔ بہرحال یہ نظم ایک عورت کی جانب سے اس قبائلی انداز فکر کو دیا جانے والا جواب ہے، جو اسے آج بھی پردے میں بند کرنا چاہتا ہے اور جوتی کے نیچے مسلنے والی کوئی شے یا بے حیائی کی جڑ جیسی کوئی شے سمجھتا ہے۔(تصنیف حیدر)
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
ماروی + سرمد اور تم
[/vc_column_text][vc_column_text]
مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے
میری ناف کے پہلو میں میری کوکھ بھی موجود ہے
جہاں تمہارے جیسی کئی کائناتوں کی تجسیم کی گنجائش
رکھ دی گئی ہے
اور اس سے ذرا اوپر مرا دل ہے
جہاں عمر بھر کی محبتوں کا اتنا زیادہ بہی کھاتا لکھا جاتا ہے
کہ اب یہاں عبادت گاہوں سے زیادہ تقدس گونجتا ہے
اور یہیں کہیں قریب سے ہی تمہاری پہلی
غذا کی دھاریُں نکلتی ہیں
اور اس دل سے اوپر میری زبان ہے جہاں
الف کے بے نقاط اور ب کے تمام نقاطـ
کے ذائقے دے دیے گئے ہیں
اور اس دہن سے اوپر میری آنکھ ہے
جو چشم آہو کے علاوہ گمان و یقین کو اپنی
روشنی کی لگام سے باندھنا جانتی ہے
اور ان آنکھوں سے اوپر ایک دماغ ہے
جس کے اعصابی
ریشوں کے درمیان شعور سے لاشعور تک
کے سارے توازن رکھے گئے ہیں
مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے
شاید اسی لئے میرے قدموں کے نیچے جنتیں رکھ دی گئی ہیں
میری ناف کے پہلو میں میری کوکھ بھی موجود ہے
جہاں تمہارے جیسی کئی کائناتوں کی تجسیم کی گنجائش
رکھ دی گئی ہے
اور اس سے ذرا اوپر مرا دل ہے
جہاں عمر بھر کی محبتوں کا اتنا زیادہ بہی کھاتا لکھا جاتا ہے
کہ اب یہاں عبادت گاہوں سے زیادہ تقدس گونجتا ہے
اور یہیں کہیں قریب سے ہی تمہاری پہلی
غذا کی دھاریُں نکلتی ہیں
اور اس دل سے اوپر میری زبان ہے جہاں
الف کے بے نقاط اور ب کے تمام نقاطـ
کے ذائقے دے دیے گئے ہیں
اور اس دہن سے اوپر میری آنکھ ہے
جو چشم آہو کے علاوہ گمان و یقین کو اپنی
روشنی کی لگام سے باندھنا جانتی ہے
اور ان آنکھوں سے اوپر ایک دماغ ہے
جس کے اعصابی
ریشوں کے درمیان شعور سے لاشعور تک
کے سارے توازن رکھے گئے ہیں
مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے
شاید اسی لئے میرے قدموں کے نیچے جنتیں رکھ دی گئی ہیں
Image: Cheryl Braganza
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]
The last line of the poem relies on a religious reference which negates, in a way, the foregoing lines affirming status of woman as a human being in hereslf.
I