Laaltain

فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں

27 اپریل، 2015
Picture of ڈاکٹر عبدالمجید عابد

ڈاکٹر عبدالمجید عابد

سبین محمود ایک بہادر عورت تھی۔ معاف کیجئے گا، سبین محمود ایک بہادر عورت ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں عورت ہونا ایک قبیح فعل سمجھا جاتا ہے، اس پر طرہ یہ کہ عورت بھی اور بہادر بھی، یعنی یک نہ شد دو شد۔ گزشتہ ایک دہائی میں ہم چار عدد بہادر عورتوں کو گولی مار چکے ہیں، ان میں سے ایک کو نیم مردہ حالت میں برطانیہ لے جایا گیا تو ہی وہ بچ پائی۔ بینظیر بھٹو کو کس نے کہا تھا کہ اس ملک میں انصاف اور سویلین اجارہ داری کی بات کرے، پروین رحمان کو کراچی کی کچی آبادیوں کی حالت زار پر کیوں مروڑ اٹھ رہے تھے، گل مکئی کو یہ کیا سوجھی کہ طالبان کی اصلیت فاش کرنے کا بیڑہ اٹھا لے، سبین محمود کو ہندووں، احمدیوں اور بلوچوں سے اتنی ہمدردی کیوں تھی؟ کیا یہ خواتین اس بات سے ناواقف تھیں کہ اس ملک میں عورت کا کام چادر، چار دیواری اور چولہے کی تکون تک محدود ہے؟ کیا یہ خاموش رہ کر اپنی زندگی نہیں بچا سکتی تھیں؟ ہمارے گھروں میں بھی عورتیں موجود ہیں، چاہے جس بھی حالت میں ہیں، خاموش ہیں، خوامخواہ اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالتیں، اسی لیے اب تک محفوظ ہیں۔
اب تو ماما قدیر کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسکی وجہ سے کبھی حامد میر تو کبھی سبین محمود کو گولی کھانی پڑتی ہے،اسکی بات کرنے پر نجم سیٹھی کی آواز اسکے پروگرام پر سنسر کر دی جاتی ہے۔
اور یہ بلوچوں کو چین کیوں نہیں پڑتا؟ ستر سال ہونے کو آئے ہیں، ان کے مسئلے ہی حل نہیں ہو پا رہے۔ ماما قدیر پورا پاکستان پیدل پھر چکا ہے، اور کیا چاہے اسکو؟ اور بھی تو بلوچ ہیں جن کے جوان بیٹے دن دیہاڑے اغوا کر لیے جاتے ہیں اور کبھی زندہ تو کبھی مردہ حالت میں انکے تشدد زدہ جسم صوبے کے مختلف حصوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ وہ سب آواز کیوں نہیں اٹھاتے، یہ ماما قدیر ضرور کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ ہے جو کبھی LUMS تو کبھی اسلام آباد تو کبھی کراچی جا کر اپنا دکھڑا سناتا رہتا ہے۔ وہ جو تربت میں بیس پنجابی مزدور مارے گئے، ان کی بات کیوں نہیں کرتا یہ ماما، بڑا آیا انسانی حقوق کا علم بردار۔ اب تو ماما قدیر کو یہ بات سمجھ لینی چاہے کہ اسکی وجہ سے کبھی حامد میر تو کبھی سبین محمود کو گولی کھانی پڑتی ہے، اسکی بات کرنے پر نجم سیٹھی کی آواز اسکے پروگرام پر سنسر کر دی جاتی ہے۔ اب ہمیں مان لینا چاہیے کہ یہ یہاں کسی کو بندوق کی آواز سے اونچی آواز اٹھانے کی اجازت نہیں، گولیوں کی سنسناہٹ میں سسکیاں لینے کی اجازت نہیں اور خاکی وردیوں کی آستینوں پر مقتولوں کے خون کے دھبے تلاش نہیں کیے جاسکتے۔
سبین نے گزشتہ دس سال میں بہت سی قوتوں سے تصادم کا راستہ اپنایا، ان میں ملا بھی شامل تھا، سیاسی جماعتیں بھی، حساس ادارے بھی اور افسر شاہی بھی۔ کچھ سال قبل خلافتی ملاؤں نے ملک بھر میں ہر سال منائے جانے والے محبت کرنے والوں کے دن کے خلاف اشتہار لگائے تو سبین اور اسکے ساتھیوں نے ان بینرز کے سامنے ’فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں‘ کے پیغام پر مشتمل پلے کارڈوں سمیت تصاویر کھچوائیں اور سوشل میڈیا پر لگا دیں۔ حسب معمول، ملا ؤں اور انکے حواریوں کے دلوں پر سانپ لوٹ گئے اور ایک کہرام برپا ہو گیا۔ ملا ہمارے ذہن پر، ہماری خوشی پر، ہمارے اظہار پر پہرہ بٹھانا چاہتا ہے، سبین کو یہ بات منظور نہ تھی اور وہ اظہار کے نت نئے طریقوں کو فروغ دیتی رہی۔ کراچی میں واقع T2F ایک ایسی جگہ ہے جہاں مختلف نقطہ ہائے نگاہ کو اظہار کا مکمل موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
سبین محمود ایک بہادر عورت تھی۔ معاف کیجئے گا، سبین محمود ایک بہادر عورت ہے۔ اور یہ ملک شائد اب بہادر خواتین کا اہل نہیں رہا۔ یہ ملک اب محض “پیشہ وار قاتلوں” کا ملک ہے جو ہر روپ بہروپ میں بندوقیں اٹھائے ہمیں ہم سے بچانے کے لیے ہمیں ہی ماررہے ہیں ؛

 

روشنی میں مشکل تھا
قتل روشنی تم سے
اس لیے جوانمردو
رات کے اندھیرے میں
تم نے مجھ کو مارا ہے
تم بہت بہادر ہو
تم نشان حیدر ہو

3 Responses

  1. سبین محمود بہادر عورت ہے اس ملک کی ہر عورت بہادر ہے۔ خواہ وہ آواز اٹھائے یا ظلم و استبداد کو رشتوں کے نام پر برداشت کرے یا محبوب کی پکار پر لبیک کہتی ہر دیوار پار کرجائے، کاری ہو کر سنگسار ہوجانا یا سینے پر گولی کھانا کچھ بھی تو اس کو اس کے عزم کی راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔ بس اس بہادری کو درست سمت کی ضرورت ہے جو سبین محمود جیسی بہادر عورتیں فراہم کر رہی ہیں، اور یہ بہتا خون ہی ہم سب عورتوں کے لیے منزل کا نشان متعین کر رہا ہے۔

  2. نام نهاد روشن خیالی کے علاوه اس ملک کے اور بهت سے مسائل ھیں.. لیکن کچھ اعتدال پسند سمجھتے ھیں که ویلنٹائن ڈے منانا اور عورت کا اپنے شوھر اور بچوں کا خدمت کرنا ھی اس ملک کا سب سے بڑا مسئله ھے

  3. بہت خوب!

    بہادر عورتوں کو ایک بزدل مرد کا سلام۔ ایک بات جو بزدل کے لیے باعث سکون ہے وہ یہ ہے کہ بہادر انسان کی صرف جان ہی لی جا سکتی ہے، اسے ڈرایا نہیں جا سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 Responses

  1. سبین محمود بہادر عورت ہے اس ملک کی ہر عورت بہادر ہے۔ خواہ وہ آواز اٹھائے یا ظلم و استبداد کو رشتوں کے نام پر برداشت کرے یا محبوب کی پکار پر لبیک کہتی ہر دیوار پار کرجائے، کاری ہو کر سنگسار ہوجانا یا سینے پر گولی کھانا کچھ بھی تو اس کو اس کے عزم کی راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔ بس اس بہادری کو درست سمت کی ضرورت ہے جو سبین محمود جیسی بہادر عورتیں فراہم کر رہی ہیں، اور یہ بہتا خون ہی ہم سب عورتوں کے لیے منزل کا نشان متعین کر رہا ہے۔

  2. نام نهاد روشن خیالی کے علاوه اس ملک کے اور بهت سے مسائل ھیں.. لیکن کچھ اعتدال پسند سمجھتے ھیں که ویلنٹائن ڈے منانا اور عورت کا اپنے شوھر اور بچوں کا خدمت کرنا ھی اس ملک کا سب سے بڑا مسئله ھے

  3. بہت خوب!

    بہادر عورتوں کو ایک بزدل مرد کا سلام۔ ایک بات جو بزدل کے لیے باعث سکون ہے وہ یہ ہے کہ بہادر انسان کی صرف جان ہی لی جا سکتی ہے، اسے ڈرایا نہیں جا سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *