Laaltain

“طلبہ کو ہتھیار اٹھانے کا پیغام مت دیں”

28 جنوری, 2015
Picture of لالٹین

لالٹین

campus-talks

“بچوں کو ایک کلاس میں تعلیم دینا کیسے ممکن ہو گا جب ایک ہاتھ میں بندوق ہوگی اور ایک ہاتھ میں کتاب۔” خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے پرائیویٹ سکولز ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک خالد خان نے کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سکولوں کا تحفظ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں،”ہماری ذمہ داری بچوں کو کتابوں کی مدد سے تعلیم دینا ہے، کلاس میں ایک استاد کے ہاتھوں میں گن سے طالبعلموں پر بہت برا اثر پڑے گا، اگر پولیس کو پولیس نفری میں کمی کا سامنا ہے تو مزید اہلکاروں کو بھرتی کیا جانا چاہئے۔”
بچوں کو ایک کلاس میں تعلیم دینا کیسے ممکن ہو گا جب ایک ہاتھ میں بندوق ہوگی اور ایک ہاتھ میں کتاب۔
خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے اساتذہ کو اسلحہ رکھنے اور اسے چلانے کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اس فیصلے کے تناظر میں گزشتہ ہفتے مرد اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کا آغاز کیا گیا تھا، جبکہ آج(28 جنوری ) کو خواتین اساتذہ کو بھی اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ تربیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے دی جا رہی ہے۔پشاور پولیس ہیڈکوارٹرز کے ایک ٹرینر محمد لطیف نے بتایا ” یہ دو روزہ کورس ہے اور ہم ان خواتین اساتذہ کو گن سنبھالنے اور اسے چلانے کی تربیت دے رہے ہیں”۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے بتایا کہ صوبائی حکومت تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو پولیس گارڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ان کا کہنا تھا ” صوبے میں پولیس کی نفری 35 ہزار اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی حفاظت کے لیے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم اساتذہ کو اسلحہ لے کر آنے کی اجازت دے رہے ہیں”۔
اگر سکول میں استاد مسلح ہو کر آئیں گے تو اس سے طلبہ کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گا اور انہیں یہ پیغام ملے گا کہ ریاست ان کا تحفظ نہیں کر سکتی اس لیے اپنے بچاو کے لیے خود ہتھیار اٹھالینے چاہئیں۔”
صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ سولہ دسمبر 2014کو پشاورکے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد تعلیمی اداروں کی حدود میں اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ صوبائی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ماہرین تعلیم نے اسے تعلیمی اداروں کے پرامن ماحول کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔پشاور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے سربراہ نذیر خان کے مطابق اس سے عدم تحفظ اور عسکریت پسندی میں اضافے کا خطرہ ہے،”اب اگر سکول میں استاد مسلح ہو کر آئیں گے تو اس سے طلبہ کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گا اور انہیں یہ پیغام ملے گا کہ ریاست ان کا تحفظ نہیں کر سکتی اس لیے اپنے بچاو کے لیے خود ہتھیار اٹھالینے چاہئیں۔

ہمارے لیے لکھیں۔