کئی برس گزرے، شہر سیالکوٹ کے بانو بازار میں ایک مانوس عیسائی دکان دار نے مجھ سے ایک انوکھی فرمائش کی۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ مجھے کمپیوٹر اور ای میل تک رسائی حاصل ہے اور ان دنوں یہ چیزیں ہر خا ص وعام کی دسترس میں نہیں تھیں۔ اس نے استدعا کی کہ میں اسے انگریزی میں پوپ اور ملکہ برطانیہ کے نام درخواستیں لکھ کر دوں۔ ان درخواستوں میں اس نے اپنے مخدوش مالی حالات کا ذکر کیا اورکسی طور پاکستان سے باہر جانے کیلئے مدد طلب کی۔ اس نے کئی روز پوپ اور ملکہ برطانیہ کا ذاتی پتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور ناکامی پر مجھ سے درخواست کی کہ اسکی عرضیاں ای میل کے ذریعے بھجوا دی جائیں۔ میں نے گوگل کی مدد سے ان دو شخصیات کے ای میل ڈھونڈے اور وہ درخواستیں انہیں ارسال کر دیں۔ وہ دن اور آج کا دن، میرا دکان دار دوست انتظار میں ہے کہ جواب بس اب آئے کہ آئے۔
ابتدائی دنوں میں دار الحکومت کراچی کے حالات یہ تھے کہ گندگی کے ڈھیر اٹھانے کو کوئی تیار نہیں تھا اور جناح صاحب کو اعلانیہ کہنا پڑا کہ غیر مسلم پاکستان چھوڑ کر نہ جائیں، انکے جان ومال کی حفاظت کی جائے گی۔
پاکستان میں موجود بیشتر عیسائی آبادی انیسویں صدی میں عیسائی مشنریوں کی تبلیغ کے باعث ہندو مت ترک کر کے عیسائیت میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ انگریز بہادر نے مقامی عورتوں سے شادیاں کیں تو ان کی اولادیں بھی ابھی تک ہمارے دیس کی باسی ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر ملک بنایا تو آغاز میں ہی غیر مسلم آبادی نے جوق در جوق بھارت کا رُخ کیا۔ ابتدائی دنوں میں دار الحکومت کراچی کے حالات یہ تھے کہ گندگی کے ڈھیر اٹھانے کو کوئی تیار نہیں تھا اور جناح صاحب کو اعلانیہ کہنا پڑا کہ غیر مسلم پاکستان چھوڑ کر نہ جائیں، انکے جان ومال کی حفاظت کی جائے گی۔ یعنی ہم نے اول دن سے ہی عیسائیوں کیلئے ایک نیچ درجہ مختص کر دیا اور انکو عام شہر یوں کی بجائے صفائی ستھرائی کرنے والے قرار دیا۔ وہ ملک جو متحدہ ہندوستان میں رہنے والی ایک اقلیت نے اکثریت کی بالادستی کے خوف سے بنایا تھا اس اقلیت نے جب اکثریت کا رنگ اختیار کیا تو باقی ماندہ اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔
’اسلامی جمہوریہ‘ پاکستان کے پہلے پچاس برس میں عیسائیوں کی حالت میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی ۔ مختلف شہروں میں انکی الگ آبادیاں مختص تھیں، معدودے چند افراد کے، سیاست یا فوج یا کھیل کے میدان میں عیسائیوں کو نمایاں حصہ نہیں دیا گیا اور انہیں ہر صورت دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا۔ ضیائی دورِ ظلمت کے دوران توہین رسالت کے قانون کی تلوار پاکستان کی تمام اقلیتوں اور غیر اقلیتوں کے سر پر لٹکا دی گئی۔فروری1997ء میں توہین کے الزام پر خانیوال کے علاقے شانتی نگر میں ہزاروں گھر اور ایک درجن گرجا گھر جلا کر راکھ کر دیے گئے۔ اس ہلڑ بازی میں پولیس اہلکار بھی ملوث تھے۔ کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں، نئے حکمران آکر چلے بھی گئے اور پرانے حکمران واپس آئے لیکن شانتی نگر کے باسیوں کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کا انتظار ہے کہ وہ بس آئے کہ آئے۔
’اسلامی جمہوریہ‘ پاکستان کے پہلے پچاس برس میں عیسائیوں کی حالت میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی ۔ مختلف شہروں میں انکی الگ آبادیاں مختص تھیں، معدودے چند افراد کے، سیاست یا فوج یا کھیل کے میدان میں عیسائیوں کو نمایاں حصہ نہیں دیا گیا اور انہیں ہر صورت دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا۔ ضیائی دورِ ظلمت کے دوران توہین رسالت کے قانون کی تلوار پاکستان کی تمام اقلیتوں اور غیر اقلیتوں کے سر پر لٹکا دی گئی۔فروری1997ء میں توہین کے الزام پر خانیوال کے علاقے شانتی نگر میں ہزاروں گھر اور ایک درجن گرجا گھر جلا کر راکھ کر دیے گئے۔ اس ہلڑ بازی میں پولیس اہلکار بھی ملوث تھے۔ کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں، نئے حکمران آکر چلے بھی گئے اور پرانے حکمران واپس آئے لیکن شانتی نگر کے باسیوں کو اٹھارہ سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کا انتظار ہے کہ وہ بس آئے کہ آئے۔
کئی نسلوں سے کمی کمینوں والا سلوک برداشت کرنے کے بعد اب عیسائی برادری میں اپنی شناخت سے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ٹیلی وژن کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ایک خصوصی چینل عیسائی برادری کی نمائندگی کرتا ہے۔
سال2009ء میں پنجاب کے شہر گوجرہ کے ایک نواحی علاقے میں توہین کے الزام پر عیسائیوں کی ایک بستی پر مشتعل ہجوم نے ہلہ بول دیا۔اس ہنگامے میں آٹھ افراد اور سو سے زائد گھروں کو جلا دیا گیا۔ اس واقعے میں ملوث سیاسی کارکنان اور دیگر ملزمان کے خلاف کارروائی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی۔ سال 2013ء میں لاہور کی بستی جوزف کالونی کو ایک مشتعل ہجوم نے جلا کر راکھ کر دیا اور ایک سو ستر خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اس شرمناک و اقعے کی تصاویر انٹر نیٹ پر موجود ہیں جن میں کچھ نوجوان لڑکے فخریہ انداز میں جلتے ہوئے گھروں کے سامنے پوز(Pose)کر رہے ہیں۔ تصویری ثبوت کے باوجود ابھی تک اس واقعے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ آسیہ بی بی جیسے کئی بے گناہ پاکستان کی جیلوں میں توہین کے الزام کے باعث ذلیل ہو رہے ہیں۔ ان لوگوں کا قصور محض یہ ہے کہ وہ پاکستان جیسے گھٹیا معاشرے میں پیدا ہوئے اور وسائل کی کمی کے باعث کسی بہتر جگہ منتقل نہ ہو سکے۔کئی نسلوں سے کمی کمینوں والا سلوک برداشت کرنے کے بعد اب عیسائی برادری میں اپنی شناخت سے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ٹیلی وژن کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ایک خصوصی چینل عیسائی برادری کی نمائندگی کرتا ہے۔
یسوع مسیح نے ایمان چھوڑنے سے انکار کیا تھا اورانہیں سولی پر چڑھنا پڑ گیا، عیسائی برادری کو یہ سبق اب پلّو سے باندھ لینا چاہیے کہ اس بھیانک نگری میں یسوع کا پیروکاربننا ہے تو سولی پر چڑھنے کیلئے ہر دم تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں امن وامان کی صورت حال یہ ہے کہ عام شہری اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں عیسائی برادری مزید مشکل کا شکار ہے اور ان کی عبادت گاہوں پر کئی دفعہ دہشت گرد حملہ کر چکے ہیں۔ بہاولپور اور پشاور کے بعد گزشتہ اتوار لاہور کے ایک گرجا گھر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ خود کش حملوں کے بعد مقامی افراد نے دو مشتبہ افراد کو پکڑا اور قانونی اداروں کے حوالے کرنے کی بجائے انکی مرمت کر دی اور بعدازاں انہیں نظر آتش کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان دو افراد سے اسلحہ برآمد ہوا تھا اور وہ خودکش حملوں کے حق میں بات کر رہے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ افراد بے قصور تھے یا حملے میں ملوث، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ایک قابل سرزنش اقدام ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد سازشی نظریات کی بھرمار ہو جاتی ہے، مشتعل عیسائی بھائیوں کے اس اقدام کے بعد دہشت گردی کے واقعے کو فراموش کر دیا گیا اور ہر طرف سے مشتعل مظاہرین کے خلاف آواز اٹھنی شروع ہو گئی۔جوابی کارروائی کے طور پر مسلمانوں کے ایک ہجوم نے یوحنا آباد کے دروازے سے اس آبادی کا نام ہٹانے کی کوشش کی اور توڑ پھوڑ کی۔ حالات قابو سے باہر ہونے پر رینجرز کو طلب کرنا پڑا۔
سوشل میڈیا پر حسب توقع ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔ عیسائیوں کو ’چوڑا‘ ہونے کے طعنے ملنا شروع ہو گئے، حالانکہ اس سے پہلے کراچی اور فیصل آباد میں چوری کے مرتکب افراد کو بہیمانہ انداز میں جلایا جا چکا ہے۔ ہمارے بھائی بند دوسرے ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک میں جا کر وہی کام سرانجام دیتے ہیں جس کا طعنہ وہ آج عیسائیوں کو دے رہے ہیں۔ آج ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اس ملک میں صرف فوجیوں کے بچوں کی جانیں ہی قیمتی ہیں؟ پاکستان میں مقیم عیسائی برادری پہلے معاشرتی رویوں اور اب دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہے۔ امید کی کوئی کرن موجود نہیں۔ سیاست دانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ یا فوج سے انصاف یا مدد کی توقع رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔بین الاقوامی برادری کو اس بات سے کچھ سروکار نہیں کہ پاکستان میں عیسائی کس حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ایمان چھوڑنے سے انکار کیا تھا اورانہیں سولی پر چڑھنا پڑ گیا، عیسائی برادری کو یہ سبق اب پلّو سے باندھ لینا چاہیے کہ اس بھیانک نگری میں یسوع کا پیروکاربننا ہے تو سولی پر چڑھنے کیلئے ہر دم تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا پر حسب توقع ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔ عیسائیوں کو ’چوڑا‘ ہونے کے طعنے ملنا شروع ہو گئے، حالانکہ اس سے پہلے کراچی اور فیصل آباد میں چوری کے مرتکب افراد کو بہیمانہ انداز میں جلایا جا چکا ہے۔ ہمارے بھائی بند دوسرے ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک میں جا کر وہی کام سرانجام دیتے ہیں جس کا طعنہ وہ آج عیسائیوں کو دے رہے ہیں۔ آج ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اس ملک میں صرف فوجیوں کے بچوں کی جانیں ہی قیمتی ہیں؟ پاکستان میں مقیم عیسائی برادری پہلے معاشرتی رویوں اور اب دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہے۔ امید کی کوئی کرن موجود نہیں۔ سیاست دانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ یا فوج سے انصاف یا مدد کی توقع رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔بین الاقوامی برادری کو اس بات سے کچھ سروکار نہیں کہ پاکستان میں عیسائی کس حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ایمان چھوڑنے سے انکار کیا تھا اورانہیں سولی پر چڑھنا پڑ گیا، عیسائی برادری کو یہ سبق اب پلّو سے باندھ لینا چاہیے کہ اس بھیانک نگری میں یسوع کا پیروکاربننا ہے تو سولی پر چڑھنے کیلئے ہر دم تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
Leave a Reply