اردو ادب پر مزید ایک صدی گزر جانے سے شاید یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس میں بیسویں صدی کے اواخر میں دو باتوں نے ہولوکوسٹ (مرگ انبوہ) کا سا ماحول پیدا کیا۔ایک شمس الرحمٰن فاروقی کی شعر فہمی اور دوسرے ظفر اقبال کی تنقید نگاری۔مرگ انبوہ میں نے اس لیے کہا کیونکہ ان دونوں باتوں نے جو تاثر پیدا کیا اس سے دو تین نسلوں کے نہ جانے کتنے لوگ برباد ہوئے اور ابھی نہ جانے کتنے اس حبس زدہ ماحول میں دب یا پھنس کر اپنی ادبی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ شعر کے معاملے میں دو چار باتیں نہایت صاف ہونی چاہیئں، اول تو یہ کہ شاعری کو سمجھنے کے لیے کوئی فرد اگر جامد اصول بنا لیتا ہے تو شاعری پر ظلم کرتا ہے۔اردو میں یہ رویہ عام ہےکیونکہ اس کا مسئلہ کچھ اور ہے، یہاں کی پروفیسرانہ اور غیر پروفیسرانہ تنقید کا صرف اور صرف ایک اصول ہے، کسی کی تعریف کیجیے تو ایسی کہ اسے خدائے سخن بنادیجیے، کسی کی برائی کیجیے تو اتنی کہ اسے بدترین ثابت کردیجیے۔اس کے لیے ہمارے استادوں نے کچھ تکنیکیں ایجاد کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے اقربا اور اپنی پسند کے شاعروں کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ ہم لوگ الٹی گنگا بہانے والے لوگ ہیں، ہمارے لیے ماضی زیادہ شاندار ہے، روشن ہے، ہمارا پدرم سلطان بود والا رویہ ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم جس احترام، جس قدر اور جس جذبے سے میر و غالب کی طرف دیکھتے ہیں، اس طرح اگلی نسلوں کی طرف دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ادب کے نام پر ہمیں پچھلے کئی برسوں سے دھوکا دیا جاتا رہا ہے، لوگ یا تو غالب کے طرفدار ہوتے ہیں یا تو اس کے مخالف۔لوگ اچھی تنقید نہیں کرپاتے، وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک پوری روایت ہے، حتیٰ کہ جو لوگ ہمارے یہاں تنقید و تخلیق میں ایک حد تک مجتہد سمجھے گئے وہ بھی اس رویے سے اپنا دامن چھڑا نہ سکے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایسا کیوں ہے، مگر ایسا ہے۔ میر نے اچھی شاعری کی، غالب نے اچھی شاعری کی، مگر ان کے فن کی شعریات مختلف تھیں، ہم اس طرح شعر نہیں کہتے۔ اس لیے انہی معیارات پر بعد کے لوگوں کو تولنا بے وقوفانہ بات ہے۔ ہمیں کہنا چاہیے تھا کہ میر اور غالب نے اپنے عہد میں بڑی شاعری کی، مصحفی نے بڑی شاعری کی، انشا اور جرات نے اپنے اپنے میدان میں کمال جوہر دکھائے، دکن میں سراج اور ولی اور ان کے ساتھ ساتھ بہت سے پرانے نئے شاعروں نے شعر کہے، مگر مختلف اصولوں کے ساتھ، ان شعریات سے ہمیں سیکھنا چاہیے تھا، نئے اصول بناتے وقت ہمیں دھیان رکھنا چاہیے تھا کہ ہر دور میں ان اصولوں کو کیسے اور پھیلایا جائے، ان کو کیسے تسلیم کرتے ہوئے، ان میں مزید اصول جوڑے جائیں، مگر ایسا نہیں ہوا اور جو ہوا، اس کی بدولت ہم نے وہ اصول کھو دیئے اور نئے اصول بنائے، چنانچہ ترقی پسندوں کے اصول الگ ہیں، جدیدیت پسندوں کے الگ اور ان کے بعد شاعری کرنے والے لوگوں کے کچھ اور ہیں۔ یہ بات بری ہے، مگر چونکہ اس کا وجود ہے، اردو ادب اور شاعری کی یہی حقیقت ہے، چنانچہ اسے تسلیم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ان خارجی اصولوں سے قطع نظر، شاعری کا اپنا ایک مزاج ہے، وہ خود کو منوانا چاہتی ہے، سمجھانے کے چکر میں زیادہ نہیں پڑتی۔ وہ بات جو سیدھی سیدھی سمجھ میں آجاتی ہے، وہ بھی شعر ہوسکتی ہے، اور جو بات نہایت مبہم، مہمل ہوگی وہ بھی شعر ہوسکتی ہے۔
یہاں کی پروفیسرانہ اور غیر پروفیسرانہ تنقید کا صرف اور صرف ایک اصول ہے، کسی کی تعریف کیجیے تو ایسی کہ اسے خدائے سخن بنادیجیے، کسی کی برائی کیجیے تو اتنی کہ اسے بدترین ثابت کردیجیے۔اس کے لیے ہمارے استادوں نے کچھ تکنیکیں ایجاد کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے اقربا اور اپنی پسند کے شاعروں کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔
یہ باتیں واضح کرنے کے بعد میں اب اپنی دوسری باتوں کی طرف آتا ہوں۔ تکنیکی تنقید کے تعلق سے یہ بات بہت اہم ہے کہ تقابلی مطالعے کا ایک بھونڈا طریقہ ایجاد کیا جائے، اور وہ طریقہ ایسا ہو جس کی سرے سے کوئی منطق نہ ہو، مگر اسے دنیا کا سب سے مضبوط منطقی طریقہ قرار دیا جائے۔ اور ایسے میں اگر لغات اور اچھی نثر کا سہارا بھی اس تنقید کو حاصل ہو تو سمجھیے اس کی نیا پار لگ گئی۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کا معاملہ اردو کے دوسرے پروفیسروں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے، خاص طور پر تنقید کے معاملے میں۔ بس ان کا دبدبہ اس لیے قائم ہے کیونکہ وہ شاعری کو پڑھتے ہوئے بار بار قاری کو یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ میں نے فلاں لغت سے فلاں لفظ کا یہ نیا معنی دریافت کیا ہے، فلاں مصرعے میں موجود رعایتوں کا بہتا ہوا، چم چم کرتا دریا ڈھونڈ نکالاہے، چنانچہ بچارا قاری سہم کر اس طرف دیکھتا ہے کہ صاحب یہ آدمی تو واقعی صاحب علم ہے، اس کی تعبیر اور تشریح میں یقیناً دم ہوگا۔ شاعری، زندگی کی طرح برتنے والی چیز ہے۔ رعایت اول بات تو یہ ہے کہ شعر کی ایک ایسی خوبی ہے، جو اس کی اضافی خوبیوں میں شامل ہے، اصل خوبیوں میں نہیں۔ یعنی یہ ممکن نہیں کہ جو شعر رعایتوں کے اعتبار سے اچھا ہوگا، وہ واقعتاً شاعری کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہو، اپنی بات مزید واضح کرنے کے لیے میں یہاں دو شعر نقل کرتا ہوں۔انہیں دیکھیے:
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
(میر)
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
(میر)
یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا
میر کے شعر میں چراغ کے بجھنے کی رعایت سے مفلس کا لفظ آیا ہے، کیا شک ہے کہ یہ شعر بہت اچھا ہے، مگر شہریار کا شعر بھی زبردست ہے۔ میں اگر فاروقی صاحب کی طرح شعر کو سمجھتا تو اس کی نئی نئی تعبیریں کرکے آپ کو دکھانے لگتا، چنانچہ میں کہتا کہ دیکھیے اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ اس شعر میں موجود کردار کا دل شام ہوتے ہی ڈوب رہا ہے، شام کو چونکہ سورج بھی ڈوبتا ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کا استعمال کتنا خوب ہے، شام کے بعد رات آتی ہے، جب آدمی سوتا ہے، سوتے میں وہ خواب دیکھتا ہے، یہ کردار چونکہ عاشق کا ہے، اور اس کے معشوق کا خواب میں آنا طے ہے، پھر بھی دل ڈوب رہا ہے،کیوں ڈوب رہا ہے، اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں، مطلب اس وجہ سے بھی ممکن ہے کہ عاشق، معشوق کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے، اس پر ایک مقام حیرت طاری ہوجاتا ہے، اسے دیکھنا ایک قیامت سے کم نہیں، یا پھر وہ فوراہی آکر گزر جاتا ہے، جیسا کہ غالب کا ایک شعر ہے:
بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا
بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا
بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا
یعنی کہ دل اس اندیشے سے ڈوبا جارہا ہے کہ وہ آئے گا، صائقہ کی طرح، برق کی صورت، اور وہی ارنی و لن ترانی والا معاملہ ہوگا، چنانچہ اس کا ایک پہلو متصوفانہ بھی ہے۔ فلاں، فلاں، فلاں۔۔۔ اس طرح کی باتیں کرتے کرتے نقاد بھول جاتا ہے کہ ایک بات ہے جو اس پوری تعبیر و تشریح میں رہ گئی اور وہی دراصل شاعری ہے۔ ان تکنیکوں سے آدمی نقاد بن سکتا ہے، شاعر نہیں بن سکتا، اسی لیے اتنی احتیاط سے کی گئی شاعری محراب آسماں بن جاتی ہے، جسے کلیات میر کے اتنے گہرے مطالعے کا ہلکا سا بھی فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے سوچنا چاہیے کہ چوک کہاں ہوئی۔ شعر شور انگیز کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی کوئی لائق فائق آدمی اس کا بغور مطالعہ کرے گا تو جس نتیجے پر پہنچے گا، اس میں اس تنقید پر شارح صاحب کو پاسنگ مارکس ملنا بھی شاید مشکل ہوجائیں۔ اس تکنیکی تنقید کا ایک مسئلہ ملاحظہ فرمائیے، جو کہ شعر شور انگیز میں شامل پہلی غزل کے ایک شعر کی تشریح سے ثابت ہوتا ہے۔
“کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا
میر کے اس شعر کے تعلق سے شمس الرحمٰن فاروقی صاحب فرماتے ہیں:
آتش نے اس مضمون کو براہ راست میر سے مستعار لیا ہے، لیکن اسے بہت پست کرکے کہا ہے:
آتش نے اس مضمون کو براہ راست میر سے مستعار لیا ہے، لیکن اسے بہت پست کرکے کہا ہے:
دل کہیں جان کہیں چشم کہیں گوش کہیں
اپنے مجموعے کا ہر ایک ورق برہم ہے
اپنے مجموعے کا ہر ایک ورق برہم ہے
آتش کے یہاں خود کو مجموعہ فرض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے (یعنی کوئی تخلیقی منطق نہیں ہے) محض ایک مفروضہ ہے۔ اس بنا پر دل، جان، چشم، گوش کو اس مجموعے کا ورق فرض کرنا، پھر ان اوراق کو برہم بتانا، خالی از تصنع نہیں۔ میر کے کلام میں تخلیقی منطق کے تقریباً تمام پہلو اور انداز مل جاتے ہیں، اسی لیے ان کا معمولی شعر بھی “بھرپور ہوتا ہے۔
جبکہ اس کے آگے کی غزل میں میر کے ایک شعر کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں، پہلے شعر سن لیجیے:
“درہمی حال کی ساری مرے دیواں میں ہے
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
پریشانی کے ساتھ مجموعہ بھی بہت خوب ہے۔ خاص کر اس وجہ سے کہ اشعار کے دیوان کو بھی مجموعہ کہتے ہیں۔”
ظفر اقبال اچھی شاعری کرتے ہیں، اور ان کی اچھی شاعری کو تو خیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، جیسے شمس الرحمٰن فاروقی کی فکشن نگاری کو تنقید سے کوئی دھچکا لگنا نہایت مشکل ہے۔ نہایت غیر جانبداری سے یہ بات سمجھنی اور کہنی چاہیے کہ شاعری کی میدان میں ظفر اقبال اور فکشن کے میدان میں شمس الرحمٰن فاروقی بہت اہم لوگ ہیں۔ انہوں نے واقعی ان دو مختلف اصناف میں اچھا اوربڑا کام کیا ہے۔
یہ عجیب سی صورت حال دیکھیے، برہم کا ایک مطلب پریشان بھی ہے، مگر آتش کے شعر میں، برہم اور مجموعے کا آنا بالکل خوبی نہیں تھا، اور اس کی کوئی تخلیقی منطق بھی نہیں تھی۔لیکن یہاں ہوگئی۔ یہاں یہ بھی یاد آگیا کہ مجموعہ، اشعار کے دیوان کو کہتے ہیں، آتش کے شعر کی یہ خوبی پی گئے کہ غزل میں ہر شعر کا مضمون ایک ساتھ ہوتے ہوئے بھی برہم و پریشان رہا کرتا ہے، اس نسبت سے آتش نے بڑی اچھی رعایت پیدا کی کہ یہ سارے مضامین اس طرح بکھرے ہوئے ہیں، جیسے ہمارے مجموعے کے اوراق بکھرے ہوئے ہیں، اس میں دل کا مضموں کہیں ہے، جان کا کہیں، چشم کا کہیں ہے تو گوش کا کہیں۔ مگر صاحب تخلیقی منطق ہی عنقا ہوگئی اس شعر میں جو کہ اچھا شعر ہے، میرکے شعر سے بالکل کم نہیں، رعایت وعایت سے شعر اچھا نہیں بنتا بلکہ بعض دفعہ ایک ہی مفہوم کے دو بار پیدا ہونے سے عجیب سی بدرونقی پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر شمس الرحمٰن فاروقی نے یہ کیسے تصور کرلیا کہ آتش نے خود کو مجموعہ تصور کرلیا ہے، اس نے اپنے مجموعے لکھا ہے اور مجموعے کا مطلب کسی لغت میں بدن یا جسم وغیرہ تو نہیں لکھا ہے۔
اس طرح کی ایک پوری داستان ہے، اور یقین کیجیے یہ تو تفصیلی مطالعہ ہی بتاسکے گا کہ تنقید کے میدان میں جتنے شعبوں پر فاروقی صاحب کا کام ہے، اس میں ان کی عجلت پسندی نے کیا کیا رنگ دکھائے ہیں۔ میرے نزدیک کوئی آدمی صرف اس بات سے معتبر نہیں ہوجاتا کہ اس نے کتنی کتابیں ترتیب دی ہیں، تالیف یا تصنیف کی ہیں، وہ اپنے متن میں کتنا گہرا، دبیز، حق بجانب اور اچھا ہے۔یہ دیکھنے کی بات ہے، میں نہیں کہتا کہ شعر کی تفہیم پر غور نہیں کرنا چاہیے، مگر اپنی تفہیم پر اصرار کرنا ایک غلط رجحان ہے۔
اس طرح کی ایک پوری داستان ہے، اور یقین کیجیے یہ تو تفصیلی مطالعہ ہی بتاسکے گا کہ تنقید کے میدان میں جتنے شعبوں پر فاروقی صاحب کا کام ہے، اس میں ان کی عجلت پسندی نے کیا کیا رنگ دکھائے ہیں۔ میرے نزدیک کوئی آدمی صرف اس بات سے معتبر نہیں ہوجاتا کہ اس نے کتنی کتابیں ترتیب دی ہیں، تالیف یا تصنیف کی ہیں، وہ اپنے متن میں کتنا گہرا، دبیز، حق بجانب اور اچھا ہے۔یہ دیکھنے کی بات ہے، میں نہیں کہتا کہ شعر کی تفہیم پر غور نہیں کرنا چاہیے، مگر اپنی تفہیم پر اصرار کرنا ایک غلط رجحان ہے۔
ہم انسان ہیں، ہمارے نزدیک کچھ لوگ بلا سبب اچھے یا برے بھی ہوسکتے ہیں، مگر جب بات فنکاری کی ہو، تو قدردانی یا تنقید نگاری کرتے وقت یہ دیکھنا اور سوچنا غلط ہے کہ جس پر تنقید کرنی ہے، وہ ہمارا اپنا ہے یا پرایا، ہندستانی ہے یا پاکستانی، ہندو ہے یا مسلمان۔
اب رہی ظفر اقبال کی بات۔ ظفر اقبال اچھی شاعری کرتے ہیں، اور ان کی اچھی شاعری کو تو خیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، جیسے شمس الرحمٰن فاروقی کی فکشن نگاری کو تنقید سے کوئی دھچکا لگنا نہایت مشکل ہے۔ نہایت غیر جانبداری سے یہ بات سمجھنی اور کہنی چاہیے کہ شاعری کی میدان میں ظفر اقبال اور فکشن کے میدان میں شمس الرحمٰن فاروقی بہت اہم لوگ ہیں۔ انہوں نے واقعی ان دو مختلف اصناف میں اچھا اوربڑا کام کیا ہے۔ ظفر اقبال کی کلیات میں پڑھ چکا ہوں، انہوں نے ایسے ایسے شعر کہہ رکھے ہیں جن کا زندگی کے معروضی یا منطقی طریق کار سے دور تک کا واسطہ نہیں۔ اب ایسا شخص اگر کسی نقاد کی اس بات کی حمایت کرتا ہے، یا اس کی ایسی تضحیک پر صبر کر لیتا ہے تو معاملہ کچھ اور ہے، ظفر اقبال کو سمجھنا چاہیے کہ اپنے سے پچھلوں کے اچھے شعروں کو خراب ثابت کرنے سے کوئی آدمی آج تک بڑا شاعر ثابت نہیں ہوا۔ ان تعصبات کا کوئی مطلب نہیں۔ میر تقی میر نے اپنے تذکرے میں یقین کی بہت برائیاں کیں، اسے بدکردار اور خراب شاعر قرار دیا مگر ان سب باتوں سے یقین کی ذات پر کیا فرق پڑگیا۔ میر اس کی برائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی اچھی شاعری کی وجہ سے زندہ ہے اور رہے گا۔ ہم انسان ہیں، ہمارے نزدیک کچھ لوگ بلا سبب اچھے یا برے بھی ہوسکتے ہیں، مگر جب بات فنکاری کی ہو، تو قدردانی یا تنقید نگاری کرتے وقت یہ دیکھنا اور سوچنا غلط ہے کہ جس پر تنقید کرنی ہے، وہ ہمارا اپنا ہے یا پرایا، ہندستانی ہے یا پاکستانی، ہندو ہے یا مسلمان۔اس طرح کی باتوں سے جو لوگ ادبی فن پاروں کی قدر متعین کرتے ہیں وہ انسان اچھے نہیں ہوسکتے، تخلیق کار اچھے ہوں تو یہ الگ بات ہے۔ نیت میں فتور پیدا کرنے سے صرف برائی پیدا ہوتی ہے۔اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور مسئلے پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ اگر ڈھونڈا جائے اور معروضی نقطۂ نظر سے تنقید کی جانے لگے تو ظفر اقبال کے مجموعے ہے ہنومان میں موجود واقعات کے اشارے ان کی رامائن دانی کی پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر ہم ایسا کرتے نہیں، کیونکہ ہم شاعری میں موجود واقعات کو نہیں دیکھتے، شعر دیکھتے ہیں، کہنے کو تو غالب نے بھی کہا تھا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ زمرد دکھانے سے واقعی سانپ اندھا ہوجاتا ہے اور میر بھی چاند کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوجاتے تھے، مگر اس کامطلب یہ تو نہیں کہ چاند میں واقعی کوئی معشوق موجود تھا، یہ سب شاعری کی باتیں ہیں، فن کاری کی باتیں ہیں، یہاں کا جھوٹ ہی، یہاں کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اس لیے شعر کو پڑھتے وقت کہاں معروضی انداز نقد اختیار کرنا ہے اور کہاں نہیں، اس کا خیال بھی بے حد ضروری ہے۔ اور یہی زمانے نے آپ کی شاعری کے ساتھ کیا ہے، ورنہ فاروقیانہ تنقید ظفر اقبال کے چیتھڑے بھی اڑا سکتی ہے اور اسے اپنے دور کی سب سے اعلیٰ شاعری بھی قرار دے سکتی ہے، کیونکہ وہ یہ تکنیک بہت اچھی طرح جانتی ہے۔