"بینجو” ایک میوزیکل ڈرامہ ہے۔ اگرچہ اس میں ایکشن کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے۔ مگر مجموعی طور پر یہ فلم میوزیکل ڈرامہ یانرا سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اس کی کہانی پاکستانی فلم "ڈانس کہانی” سے کافی مماثل ہے۔ مگر سکرین پر اس کی پروجیکشن بے حد غیر متاثر کُن رہی؛ یعنی بینجو کا اسکرین پلے کمزور ہے۔

اداکاری کے شعبے میں رِتیش دیش مُکھ نے قدرے بہتر کام کیا مگر ان کا کیریکٹر ہاف-بیکڈ رہ گیا۔ یعنی نہ وہ ٹھیک سے بھتہ خور اسٹیبلش ہو پائے اور نہ ہی کسی طرح فطری صلاحیتوں سے مالامال ایک بینجو بجانے والے فنکار۔ ان کی نسبت دھرمیش یلندے کا کیریکٹر بہتر اور میچیور انداز میں سامنے آتا ہے۔ ایک نیچرل ڈرَمَر؛ میوزک اور ڈرم بِیٹس جس کی شریانوں میں رواں ہوں. مائکی کے کردار میں ‘لیوک کینی’ کی اداکاری بھی بہتر رہی، مگر ان کا کردار زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک فیصلہ کُن مگر خاموش کردار رِتیش کو بینجو سکھانے والے بابا جی کا ہے۔ اُن کی اداکاری سے کہیں زیادہ ان کا کیریکٹر متاثر کُن رہا۔

بمبئے کے سَلَم ایریاز سے تعلق رکھنے والوں کے میک اپ قدرے بہتر کیے گئے۔ سَلَم ایریاز کی تفاصیل عمدگی سے عکسبند کی گئیں۔”بینجو” کے مکالمے غیر متاثر کُن نہیں۔ اچھے ہیں۔ البتہ نہ تو ان مکالموں کی مدد سے کامیڈی شامل کرنے کی جو کوشش کی گئی وہ کامیاب ہوئی؛ اور نہ ہی بعض مقامات پر غیر ضروری طور پر بولڈ مکالموں نے فلم کے تاثر کو بڑھایا بلکہ معاملہ برعکس رہا۔ بُری کامیڈی اور فحش مکالموں نے فلم کی لطافت کو پامال کیا۔

نرگس فخری اسکرین پر اگرچہ اچھی لگیں؛ گلیمرس بھی دکھائی دیں. مگر یہ رول اگر کسی اصلی گوری کو دے دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔ یعنی مِس کاسٹنگ ہو گئی نرگس کے معاملے میں۔

بمبئے کے سَلَم ایریاز سے تعلق رکھنے والوں کے میک اپ قدرے بہتر کیے گئے۔ سَلَم ایریاز کی تفاصیل عمدگی سے عکسبند کی گئیں۔”
ایڈیٹنگ کے شعبے میں ویوژل ایڈیٹنگ کا پلڑا آڈیو/ساؤنڈ ایڈیٹنگ کے مقابلے میں بھاری رہا۔ بروقت اور دلکش سلو موشنز، بِیٹ کے مطابق کَٹس اور پرانے وائپ اسٹائل کو عُمدگی سے استعمال کیا گیا۔ فیڈ اِن فیڈ آؤٹ بھی بر محل استعمال ہوئے اور ان کے استعمال کا مقصد پُورا ہوا یعنی توقف کے بعد سیکوئینس کی تبدیلی۔

کلاسک اسٹائل ایڈیٹنگ کو "فرِیکی علی” میں بھی عُمدگی سے اور تواتر سے استعمال کیا گیا۔ "بینجو” میں ایک جگہ "گرافِک میچ کَٹ” کو عمدگی سے استعمال کیا گیا۔ ہیرو کی بوتل سے شراب گلاس میں گرنا شروع کرتی ہے۔ یہاں سے کٹ کر کے دوسری لوکیشن کا گلاس بھرتا دکھایا جاتا ہے جو ولن کا ہے۔ فی زمانہ یہ کَٹ استعمال نہیں ہوتا۔ آؤٹ ڈیٹڈ لگتا ہے۔ مگر یہاں بھلا معلوم ہوا۔

عام سینما بین کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک فلاپ فلم ہے۔ اس کا ساؤنڈ ڈیزائن بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ مگر جہاں جہاں ڈرم اور بینجو بجے، سینما جھومنے لگا؛ جیسے کہ ‘اوم گنپتی’؛ ‘رحم و کرم’ اور بالخصوص ‘راڑا راڑا’ کے ٹریکس میں۔ اس کے علاوہ، جب رِتیش کے گروپ کی تصویر اخبار میں شائع ہوتی ہے تو بستی کے لوگ دیکھ دیکھ خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران میں پس منظر میں بینجو بجتا رہتا ہے۔ جس پر سینما ہال میں بیٹھے فلم بینوں کے پاؤں دھیرے دھیرے تھرکنے لگتے ہیں۔ کاش بینجو کو بطور BGM زیادہ سیکوئینسز میں بجایا گیا ہوتا۔

میوزیکل فلم تو ایسی ہی ہوتی ہے کہ سارا عرصہ میوزک کا سحر نہ ٹُوٹے۔ میوزک بجے نہ بجے، اس کا جادو فلم بین پر قائم رہے۔ جس کا ہم نے سیّد نُور کی کلاسیک فلم "سرگم” میں تجربہ کیا، ساری فلم کلاسیکی موسیقی کے شہد میں ڈُوبی محسوس ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے "بینجو” ایسا تجربہ دینے میں ناکام رہی۔ اگرچہ گاہے بگاہے ایسے مقامات آتے رہے، مگر بینجو کا بطور ایک ساز کے سحر طاری نہیں ہو سکا۔

اس فلم کی سینماٹوگرافی اچھی ہے۔ دُھول اور روشنی کے کمبینیشن میں ایکشن بہتر انداز میں عکسبند کیا گیا۔ فریمنگ بھی عُمدہ ہے۔
اس فلم کی سینماٹوگرافی اچھی ہے۔ دُھول اور روشنی کے کمبینیشن میں ایکشن بہتر انداز میں عکسبند کیا گیا۔ فریمنگ بھی عُمدہ ہے۔ مجموعی طور پر لائٹ بھی بہتر ہے۔ کاسٹنگ بھی ملی جُلی ہے۔ زیادہ تر اچھی ہے۔ مگر چونکہ یہ اچھائیاں ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک کُل بنانے میں ناکام رہتی ہیں۔ لہٰذا یہ فلم ایک سینما پِیس کی حیثیت سے غیر متاثر کُن رہتی ہے۔

بھارت مسلسل ایسی فلمیں بنا رہا ہے، جس سے ان کے عوام میں بھارت کے بارے میں مثبت جذبات اُبھرتے ہیں۔ ان میں اپنے مُلک کے بحرانوں اور مسائل کے بارے میں شعور بیدار ہوتا ہے۔ اور ان میں ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کا ارادہ جنم لینے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ‘فلائنگ جٹ’ ہو، ‘سلطان’ ہو یا ‘پنک’۔۔۔۔۔۔ حتّٰی کہ باجی راؤ مستانی ایسے ماسٹر پِیس میں بھی سب میں ‘ہمارا بھارت مہان’ کا پیغام پوشیدہ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسی فلمیں بن رہی ہیں۔ مگر اکا دکا؛ جیسے مُور، O21، نامعلوم افراد، میں ہوں شاہد آفریدی، وار، ایکٹر ان لاء وغیرہ۔ پاکستانی سینما کو سُلطان اور ایکٹر ان لاء ایسی فلموں کی زیادہ ضرورت ہے۔ سو، یہاں بجائے تیری میری لوّ اسٹوری، جاناں، ہجرت، بدل، اور سوال سات سو کروڑ ڈالر کا جیسی بے مزہ، بے رنگ بے بو بے ذائقہ فلموں کے؛ مُور اور نامعلوم افراد ایسی فلموں کی زیادہ ضرورت ہے۔

Leave a Reply