یہ قصہ حیدراآباد (دکن) میں میرے نو ماہ کے قیام (1964 تا 1965) کا ہے۔میں تھا تو ریسرچ اسکالر کے طور پر انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹدیز میں، لیکن میں سارا سارا دن کیمپس سے غیر حاضر رہتا اور اپنے ہم عمر دوستوں شاذ تمکنت، وحیداختر، مغنی تبسم وغیرہ کی سنگت میں رہتا۔ دس بارہ برس پہلے پنجاب یونیورسٹی سے اپنے ادیب فاضل کا کورس کرنے کے دنوں میں ہی میں نے “حدائق البلاغت” کو جیسے گھول کر پی لیا تھا اور عروض پر میری گرفت استادوں کی طرح تھی۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورسے بات چیت اور ان سے دکن کی شاعری پر عروض کے انضباط کے حوالے سے میں نے ایک بار پھر عربی فارسی عروض اور ہندوی جملوں کی ساخت میں ایک ایسی طوائف الملوکی کی سی حالت دیکھی، جو ہر مصرع کی تقطیع میں شکست ِ ناروا کی سی حالت پیدا کرتی تھی۔ میں نے اس بارے میں دو مضامین لکھے۔ ایک نشست میں کچھ دوستوں کو سنائے اور انہوں نے میری تائید بھی کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تاریخ کا وہ دھارا جو تین چار صدیوں تک ایک جانب بہہ چکا ہے، لوٹایا نہیں جا سکتا۔ امیر خسرو کے حوالے سے کئی اور باتیں ہوئیں اور تاریخ کی اس بے رحم روش پر کئی بار رونا بھی آیا، لیکن ہو بھی کیا سکتا تھا، اس لیے دل مسوس کر رہ گیا۔
راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگر رن۔آن لائن کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیا جائے۔
چونکہ میں ان دنوں اردو کی آزاد نظم میں طبع آزمائی کر رہا تھا اور ن۔م۔راشد، میرا جی کے علاوہ دیگر اردو شعرا کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ ڈاکٹر زور کے توسط سے جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے سے مجھے کتابیں مل سکتی تھیں، اس لیے میں نے اس موضوع پر اپنے نوٹس سے ایک پوری ڈائری بھر دی۔
ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا ، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔فری ورس نہیں، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں “رن ۔ آن” سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدسے چل کر میرا جی اور ن۔م۔راشد تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجد اور اختر الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو رن۔آن لائنز کے قاعدے کواس شرط پر بروئے کار لایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔
اے سمندر! پیکرِ شب، جسم، آوازیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر
اذاں دیتے گئے۔
(ن۔م۔راشد: “اے سمندر”)
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر
اذاں دیتے گئے۔
(ن۔م۔راشد: “اے سمندر”)
یہ بحر رمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے: اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔۔۔۔ [یہاں اب “زیں” کو رن۔آن کر کے پیوستہ سطر کے “رگوں میں” سے ملا دیا گیا ہے] یعنی ۔۔زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن) ۔۔گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھ (6) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے، (جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے)۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگر رن۔آن لائن کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیا جائے۔ اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن) ۔۔۔اب یہاں “طر”، جو “خاطر” کا اختتامیہ ہے، پیوستہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔
ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعلین کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار) ۔۔۔یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔
ڈاکٹر کالیداس گپتا رضا نے لکھا۔ “مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئیے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ‘رن آن لائنز’ کی یہ سہولیت، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔
راقم الحروف نے 1960ءکے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے)، رن ۔آن لائنز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفس ِ مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اول تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن ۔آن لائن کی ‘زیادتی’؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدر آباد کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ “دست برگ” چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضا نے لکھا۔ “مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئیے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ‘رن آن لائنز’ کی یہ سہولیت، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔” ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے “اختتامیہ” میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحن قرار پائے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ “آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ 1970 ءسے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لاینز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں؟” میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیم قاسمی(مرحوم)، ضیا جالندھری(مرحوم)، بلراج کومل، نصیراحمد ناصر، علی محمد فرشی اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔
ماہنامہ “صریر” کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر رد عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائری سے یہاں نقل کر رہا ہوں) ماہنامہ “صریر”کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی اان الفاظ میں کی۔ “ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے [۱] مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد موشح (ان کا مطلب تھا “آزاد نظم”) کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایک یونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔ [۲] آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے [۳] آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور [۴] صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔ “
آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لاینز کے چلن کو روا رکھ سکے۔
اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لاینز کے چلن کو روا رکھ سکے۔اور نظم کی ‘سطر’ کو سطر ہی سمجھے، ‘مصرع’ نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کی اہلیت مجھ میں ہے۔
(الف) کیا مقفےٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو”آزاد نظم” یا “نظم معرا” سے ممتاز بناتی ہے؟
(ب) کیا غزل کے روایتی “فارمیٹ” سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادتِ ثانیہ کہ وہ نظم کی ‘سطر’ کو بھی ‘مصرع’ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے؟ اور
(ج) کیا مقفےٰ اور یکساں طوالت کی سطروں پر مشتمل پابند نظموں میں یا ان آزاد اور معرا نظموں میں جن میں ‘سطر’ مصرع کی صورت میں وارد ہوتی ہے، اور رن آن لائنز کا التزام اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ‘سطر’ کے بیچ میں ایک جملے کے مکمل ہونے سے حسن شاعری کو ضرب پہنچتی ہے، ان امیجز images کی قربانی نہیں دینی پڑتی، جو رمز و ایمایت کی جمالیات سے عبارت ہوتے ہیں اور علامت و استعارہ کے حسین جھالروں والے پردے کے پیچھے سے نیمے دروں نیمے بروں حالت میں پوشیدہ یا آشکارہ ہوتے ہیں؟
ناظم حکمت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، “تو کیا ہندوستان کی اتنی قدیم تہذیب اور لٹریچر میں شاعری کا اپنا کوئی عروض نہیں ہے جو آپ اردو والوں کو ایک بدیسی زبان کے عروض پر انحصار کرنا پڑا ہے؟”
آخری بات فارسی عروض کے بارے میں ہے جو اردو کے گلے میں ایک مردہ قادوس Albatross کی شکل میں لٹک رہا ہے۔ (استعارے کو سمجھنے کے لیے کالریج کی نظم The Ancient Mariner دیکھنی پڑے گی)۔۔۔مجھ جیسے کم فہم اردو دان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صوتی محاکات کے حوالے سے یہ عروض اردو کی جملہ سازی کے لیے ناقص ترین ہے۔ کیونکہ عربی اور فارسی کی نسبت اردو کی جملہ سازی واحد و یگانہ ہے۔ غالب کے صرف ایک مصرعے کی تقطیع سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ۔۔۔
(فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن ۔ بحر رمل)
(فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن ۔ بحر رمل)
پہلے صوتی محاکات دیکھیں اور پھر تقطیع کا جوکھم اٹھائیں۔ “سب کہاں” (انحرافی استہفامیہ ) یعنی “سب نہیں”۔ “سب کہاں؟” (بشمولیت سوالیہ نشان )کے بعد اردو قواعد کی رو سے سکون، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسّلم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا کہاں = علا کچھ = تن) اگر نثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں؟ کچھ۔۔۔ ‘کچھ’ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ‘چند’ کے معنی میں آتا ہے۔ “سب کہاں کچھ” کو ‘فاعلاتن’ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سے ایک پیہم، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، “سب کہاں کچھ؟” بن گیا ، اور “یعنی” سے “لا یعنی” ہو گیا۔ جملے کا باقی حصہ یہ ہے۔ “لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں”۔ اس جملے میں “لالہ و گل” کے بعد کا لفظ یعنی “میں” گرائمر کی زبان میں، ہمیشہ (ظرف مکان ہو، یا ظرف زمان)، مفعول فیہ کے بعد آتا ہے۔ یعنی “میں” کا تعلق مابعد کے لفظ سے نہیں، بلکہ ما قبل کے لفظ سے ہے۔ گویا “لالہ و گل میں” ایک قابل فہم جزو ہے، نہ کہ “میں نمایاں” جو کہ لا یعنی ہے۔ لیکن، اب پھر ایک بار تقطیع کریں۔ لالہ و گل (فاعلاتن) میں نمایاں (فاعلاتن) ہو گئیں (فاعلن)۔۔۔ گویا جس بدعت کا ڈر تھا، وہی ہوئی۔ عروض کے اعتبار سے ہم نے مفعول فیہ کے بعد آنے والے اور اس سے منسلک لفظ “میں” کو اس سے اگلے لفظ کے گلے میں باندھ دیا۔ عروض کی ضرورت تو پوری ہو گئی لیکن جملے کا خون ناحق ہو گیا اور اس قتل عمد کی ذمہ داری ان سب پر ہے جنہوں نے ہندوی چھند اور پِنگل سے منہ موڑکر فارسی عروض کواپنایا۔
ایک سچا واقعہ یاد آتا ہے جولندن میں محترمہ زہرہ نگاہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے فیض احمد فیض سے سنا، (اور شاید مرحوم فیض نے کہیں لکھا بھی ہے) کہ ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں جب فیض ترکی کے شہرہ آفاق شاعر ناظم حکمت سے ملے تو باتوں باتوں میں (ترکی زبان پر فارسی کا اثر دیکھتے ہوئے)، بزعم خود فیض نے کہا کہ اردو شاعری فارسی عروض کے مطابق لکھی جاتی ہے تو ناظم حکمت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، “تو کیا ہندوستان کی اتنی قدیم تہذیب اور لٹریچر میں شاعری کا اپنا کوئی عروض نہیں ہے جو آپ اردو والوں کو ایک بدیسی زبان کے عروض پر انحصار کرنا پڑا ہے؟” یہ سوال سن کر فیض کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ مجھ پر عیاں ہے۔