[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ: عرفان شہزاد کا تحریری سلسلہ ‘مفتی نامہ’ ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مذہبی طبقات اور عام عوام کے مذہب سے متعلق معاشرتی رویوں پر ایک تنقید ہے۔ اس تنقید کا مقصد اس شگفتہ پیرائے میں آئینہ دکھانا ہے جو ناگوار بھی نہ گزرے اور سوچنے پر مجبور بھی کرے۔
[/blockquote]
مفتی نامہ کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
مفتی نامہ-قسط نمبر 2
مثل مشہور ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں، ایک بستی میں دو راجا اور ایک مسجد میں دو مولوی نہیں سما سکتے۔ ہماری مسجد، بفضل تعالیٰ یہ اعزاز بھی رکھتی ہے کہ اس نے دو مولوی ایک منبر، ایک سپیکر، ایک صندوقچی اور ایک ہی مدرسے میں سنبھالے رکھے ہیں گو یہ اعزاز خانہ خدا کے حصے میں بہت دیر نہ رہایعنی دو مولویوں میں محض مرغی ہی نہیں خانہ خدا بھی۔۔۔۔۔ خیر ہمارے مفتی صاحب یوں تو ایک صلح جو آدمی ہیں اور دوسرے کی آزادی کی حد وہاں تک سمجھتے ہیں جہاں تک ان کی داڑھی، ان کی توند، ان کی مسجد اور ان کا محلہ ہے۔ اگر کوئی ان کے محلے میں گھس کر، ان کی مسجد میں آ کر ان کی ہی داڑھی کے تنکے تلاشنے لگے تو بھیا پھر یہ حرکت ہر طرح سے فساد فی الارض قرار پائے گی اور اس فتنہ کو رفع کرنا واجب، خواہ یہ فتنہ ساز ان کے اپنے برادر محترم ہی کیوں نہ ہوں۔
مسجد خدا کا گھر ہے سو یہ قبضہ کسی طور ناجائز نہیں ہو سکتا کیوں کہ پلاٹ جس زمین پر ہے وہ زمین بہر طور اللہ کی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے اللہ کے گھر کو بنانے کے لیے کسی غیر اللہ سے اجازت طلب کرنا ضروری نہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے مفتی صاحب اور ان کے بڑے بھائی کا مسجد کی تولیت پر جھگڑا ہوگیا۔ اب بھلے مسجد خدا کا گھر ہے لیکن اس گھر کے رکھوالوں کا کنبہ خاصا وسیع ہے۔ جھگڑا تو ہونا تھا۔ یہ مسجد ان کے والد صاحب نے بنائی تھی۔ یار لوگ پیٹھ پیچھے اڑاتے پھرتے ہیں کہ ایک پلاٹ پر ‘قبضہ’ کر کے بنائی تھی۔ لیکن حاسدین کا منہ کون بند کرے؟ مسجد خدا کا گھر ہے سو یہ قبضہ کسی طور ناجائز نہیں ہو سکتا کیوں کہ پلاٹ جس زمین پر ہے وہ زمین بہر طور اللہ کی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے اللہ کے گھر کو بنانے کے لیے کسی غیر اللہ سے اجازت طلب کرنا ضروری نہیں۔ خیر مفتی صاحب کے جنت مکیں والد کی تعمیر کردہ یہ مسجد گزشتہ چالیس برس میں کئی کشادگیاں اور توسیعات دیکھ چکی ہے پھر بھی یہ اتنی وسیع نہیں ہو سکی کہ دو مولوی بیک وقت اس میں سما سکتے۔
مفتی صاحب کے والد محترم وفات کے بعد ایک مسجد، ایک مدرسہ، دو بیوائیں اور قریب ایک درجن بچے چھوڑ گئے جن میں سے صرف دو بیٹوں نے ہی’ آبائی پیشہ’ (ایک سے پرائمری پاس نہیں ہوئی اور دوسرا سکول ہی نہیں گیا)اختیار کیا۔ والد کی وفات کے بعد دونوں بھائی اسی ایک مسجد میں پڑ رہے۔ اس مسجد کے کرتا دھرتا تو ہمارے مفتی صاحب تھے لیکن منبر بڑے بھائی صاحب کے سپرد تھا۔ جب تک بڑا بھائی مسجد کا خطیب رہا، مسجد ‘معمول’ کے طور پر ‘چلتی’ رہی اور معمول کے مطابق ‘آمدنی’ (ہمارے مفتی صاحب آمدنی ہی کہتے تھے) آتی رہی جس سے لشتم پشتم گزراوقات ہوتی رہی۔ لیکن جب ہمارے شعلہ بیان مفتی صاحب نے مسجد سنبھالی تو مسجد کی آمدنی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔ ہمارے ممدوح مفتی صاحب منبرو سپیکر کی طاقت سے تن تنہا درجن کفار فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریر کیا کرتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی آمد کا فائدہ اسلام کے ساتھ ساتھ محلے کے ڈاکٹر کو بھی ہوا کہ ہر تقریرسے ڈپریشن، سردرد اور نقص سماعت کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا۔ مسجد کی ایک صندوقچی کی بجائے دو صندوقچیاں بھرنے لگیں، پہلے ایک مینار پر سپیکر نصب تھے اب دو پر ہیں اور پہلے مفتی صاحب کی زیادہ سے زیادہ ایک زوجہ تھیں اور اب سنا ہے کم سے کم دو ہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق یہ برکت نہیں بلکہ سعودیہ جانے والوں کی معاشی آسودگی کا ایک لازمی ردعمل ہے مگر بھائی کس کس کی زبان پکڑی جائے؟
ہمارے ممدوح مفتی صاحب منبرو سپیکر کی طاقت سے تن تنہا درجن کفار فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریر کیا کرتے ہیں۔
لیکن جہاں دولت آتی ہے وہاں جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ بڑے بھائی نے پہلے تو گاڑیوں کے لین دین کا کاروبار شروع کیا جس پر بعض شرفاء نے انگلیاں بھی اٹھائیں کہ مسجد کا روپیہ غلط جگہ استعمال ہو رہا ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ شرفاء قبروں میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے تھے اور یقیناً ان کے جنازے مفتی صاحب نے ہی پڑھانے تھے سو جلد ہی یہ اصحاب خاموش ہو گئے۔ یہ حضرات تو خاموش ہو گئے مگرگاڑیوں پر چوں کہ بڑے مفتی صاحب کی نیک نیتی اور دیانت داری کا کوئی اثر نہ تھا، سو انہوں نے منافع دینے سے انکار کر دیا۔ کاروبار نہ چلا تو بڑے بھائی نے دوبارہ منبر ومحراب سنبھالنے کا قصد کیا اور یوں مسجد کی تولیت کا جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ دونوں بھائی اور اوپر سے دونوں پشت ہا پشت سے مولوی بھی، یعنی نور علی نور، دونوں نے ایک دوسرے پر بندوقین تان لیں۔ لگ رہا تھا کہ ابھی دو چار لاشیں گرنے والی ہیں۔ تاہم، ہمارے مفتی صاحب ذرا زیادہ سمجھدار تھے۔ انہوں نے اس کا خوب حل نکالا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کالونی کے فلاں بلاک میں مسجد نہیں ہے، وہاں کے نمازیوں کی نمازیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اہلِ خیر وہاں مسجد کے لیے پلاٹ کا انتظام کریں۔ وہ علاقہ بھی پوش علاقہ تھا۔ ایک صاحبِ خیر نے لبیک کہتے ہوئے اپنا لاکھوں یا شاید کروڑوں کا پلاٹ پیش کردیا(یہ الگ بات ہے کہ ان صاحب کے خلاف نیب میں دو مقدمات چل رہے ہیں)۔ پلاٹ پر ‘مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالیے اور جنت میں اپنا محل بنوائیے’ کا بورڈ لگا دیا گیا۔ چند دنوں میں مسجد تعمیر ہوگئی۔ پھر مزید ‘آمدنی’ کے لیے اس میں مدرسہ بھی بنا دیا گیا۔ اور یوں دونوں بھائیوں نے خدا کے دین کی خدمت کے لیے ایک کی بجائے دو مراکز بنا کر ‘ثوابِ دارین’ حاصل کرنے کا مستقل انتظام کر لیا۔ خدا خیر رکھے تو ہمارے مفتی صاحب کے بھی آخری اطلاعات کے مطابق دوصاحب زادے ہیں، سو گمان کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں مزید مساجد کا قیام اسی طرح جاری رہے گا ۔