Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

انقلاب؛ کب، کیوں اور کیسے؟

test-ghori

test-ghori

21 دسمبر, 2015
ایک جانب جہاں معاشرے کی اکثریت سیاست سے بیزار، بدظن اور لاتعلق ہو چکی ہے وہیں ایک متضاد کیفیت یہ ہے کہ تقریباً ہر فرد اس بات سے متفق ہے کہ اس معاشرے کو تبدیل ہونا چاہیئے۔
“انقلاب کب آئے گا؟ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہو گا؟ تبدیلی کیوں نہیں آتی؟ نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اب تک کچھ بھی نہیں بدلا، آگے بھی کچھ نہیں بدلے گا ۔” اس قسم کی گفتگو اور تبصرے زبان زد عام ہیں۔ عام آدمی ہی نہیں بلکہ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کرنے والے کارکنان اور قائدین بھی نجی محفلوں میں اسی قسم کی گفتگو کرتے پائے جاتے ہیں۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کسی نہ کسی شکل میں سات دہائیوں سے جاری ہے پھر بھی آج یہ جدوجہد (بظاہر) منزل سے کوسوں دور نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ صرف ایسی سیاست کو کار آمد سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے فوری ذاتی یا اپنے حامیان کے مقاصد یا مفادات کا حصول ممکن ہو۔ مفاد پرستی اور موقع پر ستی سیاست میں کامیابی کے رہنما اصول بن چکے۔ نظریاتی اور انقلابی سیاست پہلے تو ناپید ہوئی، اور چند دیوانے جو ابھی تک اس قسم کی سیاسی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں انہیں پاگل سمجھا جاتا ہے۔ حقیقی آزادی اور انقلاب کی بات کرنے والے کو خیالوں کی جنت میں رہنے والا ایسا فرد سمجھا جاتا ہے جس کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہ ہو۔

ایک جانب جہاں معاشرے کی اکثریت سیاست سے بیزار، بدظن اور لاتعلق ہو چکی ہے وہیں ایک متضاد کیفیت یہ ہے کہ تقریباً ہر فرد اس بات سے متفق ہے کہ اس معاشرے کو تبدیل ہونا چاہیئے۔ مہنگائی، بےروزگاری، غربت، لوڈشیڈنگ، تعلیم اور علاج کا مہنگا ہوتا ہوا کاروبار، اور حکمرانوں کی لوٹ مار جیسے بے شمار مسائل ہیں جن کے خاتمے کی خواہش سب کے ذہنوں میں موجود ہے لیکن ان مسائل کے خاتمے کی عملی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے کے سوال پر لوگوں اور نوجوانوں کی اکثریت بے عملی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ تبدیلی کی عملی جدوجہد میں شمولیت جتنی کم ہے، تبدیلی کی خواہش اور ضرورت اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست سے عمومی بے زاری کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب تک جن طریقوں سے یہ جدوجہد کی جاتی رہی، ان طریقوں کے غلط ہونے کی وجہ سے مسلسل ناکامیوں نے لوگوں کو سیاست سے دور کر دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ سیاست میں تبدیلی اور انقلاب کے نعروں پر لوگوں کو مسلسل دھوکے دئیے گئے ہیں، چہرے بدل بدل کر غداریاں کی گئیں اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کو استعمال کیا گیا اس لیے کسی حد تک نوجوانوں اور عام لوگوں کا سیاست سے نفرت اور بیزاری کا رویہ جائز اور بجا ہے۔ لیکن سیاست سے دوری اختیار کرنے کے باوجود تبدیلی کی خواہش اور ضرورت نہ صرف اپنی جگہ موجود ہے بلکہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

یہ سوال درست ہے کہ اب تک اتنی طویل مدت جدوجہد کے باوجود کوئی تبدیلی کیوں نہیں آسکی؟ لیکن اس سوال کا درست جواب تلاش کرنا زیادہ ضروری ہے ناکہ ا س سے یہ نتائج اخذکرنا کہ اگر اب تک تبدیلی نہیں آئی تو آگے بھی نہیں آ سکتی۔
اچھی تعلیم، معیاری صحت کی سہولیات اور روزگار کے حصول میں مشکلات، معاشی ناآسودگی اور اس سے پیدا ہونے والی ذاتی اور خانگی پریشانیاں، لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی اور قدرتی آفات کی صورت میں ناکافی امداد سمیت ہر قسم کے مسائل کا تعلق سیاست سے ہے۔ اس لیے سیاست سے بیزاری اور نفرت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوں یہ مسائل ختم ہو جائیں گے یا تمام لوگوں اور نوجوانوں کو کبھی بھی سیاست میں دوبارہ دلچسپی لینے اور مداخلت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی۔ عام لوگوں اور نوجوانوں کی مروجہ سیاست سے نفرت جائز اوردرست ہے، چونکہ یہ سیاست چند بڑے لوگوں کا کاروبار بن چکی ہے۔ مروجہ سیاست عام لوگوں سے اس قدر لاتعلق ہے کہ اس سے بیزاری لوگوں کے پسماندہ شعور کی بجائے بلند شعوری معیار اور سمجھ بوجھ کی عکاس ہے۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ مروجہ سیاست کے مزاج سے بیزاری اور لاتعلقی کافی نہیں بلکہ اس مفاد پرستانہ سیاست کے خلاف سیاست میں متحرک ہو کر ہی اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سیاست سے مکمل لاتعلقی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کو مکمل چھوٹ دینے کے مترادف ہے کہ وہ ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے ہمارے وسائل کی سر عام لوٹ مار کرتے رہیں اور ہم محض تماشائی بنے رہیں، بے بس اور لاچارتماشائی جو کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سوال درست ہے کہ اب تک اتنی طویل مدت جدوجہد کے باوجود کوئی تبدیلی کیوں نہیں آسکی؟ لیکن اس سوال کا درست جواب تلاش کرنا زیادہ ضروری ہے ناکہ ا س سے یہ نتائج اخذ کرنا کہ اگر اب تک تبدیلی نہیں آئی تو آگے بھی نہیں آ سکتی۔

اگر اب تک تبدیلی نہ آسکنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ آئندہ بھی تبدیلی نہیں آئے گی تو ہم مایوس، شکست خوردہ، ناکام اور مزید بے اختیار ہو جائیں گے اور ہمارے حکمران بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اب تک جن نظریات اور طریقوں کے ذریعے تبدیلی کی جدوجہد کی گئی ہے اگر ان نظریات اور طریقوں کے ذریعے تبدیلی کا حصول ممکن نہیں ہو سکا تو بھی یہ جدوجہد رائیگاں نہیں گئی بلکہ اس کے ذریعے ہم تک عملی جدوجہد کے یہ اسبا ق پہنچے ہیں کہ ان نظریات میں کیا خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ ہم ان تجربات سے اسباق سیکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو زیادہ درست بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے تاریخ سے ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن سب سے دلچسپ مثال علم کیمیا کی تاریخ میں ہے۔ قرون وسطیٰ اور اس سے پہلے کے ادوار میں کئی صدیوں تک پارس پتھر دریافت کرنا اور کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کا طریقہ معلوم کرنا ‘الکیمیا’ کا واحد مقصد رہا۔ اس پتھر کے ساتھ ایسی خصوصیات منسوب کی گئی تھیں کہ یہ ہر دھات کو سونے میں تبدیل کر دے گا۔ کئی صدیوں تک بے شمار تجربات کیے جاتے رہے اور صدیوں کی لاحاصل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایسا کر نا ممکن نہیں لیکن اس کی دریافت کی خاطر جو تحقیق کی گئی اس کے ذریعے دھاتوں کی خصوصیات جاننا ممکن ہوا اور ان کی کیمیائی ساخت کے بارے میں بے شمار معلومات جمع کی گئیں جو جدید علم کیمیا کی بنیاد بنیں۔ یوں ایک ناممکن کے حصول کی بظاہر غیر ضروری جدوجہد اپنی ناکامی کے باوجود اگلی نسلوں کے لیے سائنس کی ایک انتہائی اہم شاخ اور شعبے کے قیام کے بنیادی لوازم فراہم کر گئی۔ اسی طرح ماضی کی تمام ناکام جدوجہدیں رائیگاں نہیں ہوتیں بلکہ مستقبل کی کامیاب جدوجہد کے لیے اسباق اور بنیادیں فراہم کر جاتی ہیں۔ ہم انقلاب اور تبدیلی کے اب تک نہ آنے سے دو قسم کے نتائج اخذکر سکتے ہیں، ایک مایوسی اور ناکامی کا اور دوسرا ان کوششوں کے تنقیدی تجزیے سے مزید جدوجہد کے لیے خام مال اور نظریات اخذ کرتے ہوئے کوشش جاری رکھنے کا۔

ہم انقلاب اور تبدیلی کے اب تک نہ آنے سے دو قسم کے نتائج اخذ کر سکتے ہیں، ایک مایوسی اور ناکامی کا اور دوسرا ان کوششوں کے تنقیدی تجزیے سے مزید جدوجہد کے لیے خام مال اور نظریات اخذ کرتے ہوئے کوشش جاری رکھنے کا۔
اگر ہم تبدیلی کی جدوجہد کو درست بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے متحرک ہوں گے تو ہم نہ صرف اب تک تبدیلی کے نہ آسکنے کی سائنسی وجوہ کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ اس سوال کا بھی درست سائنسی جواب بھی ڈھونڈ نکالیں گے کہ انقلاب کب اور کیسے آئے گا؟ جس معاشرے میں ہم نے جنم لیا ہے یہ ہمیں پہلے سے بنا بنایا اور تاریخی ارتقاء کے ذریعے نشو ونما پا کر موجود ہ مرحلے پر اس کیفیت میں ملا ہے۔ ہم اس کے مستقبل کے بارے میں درست طور پر صرف اس بنیاد پر سمجھ بوجھ حاصل کر سکتے ہیں جب ہم سماجی ارتقاء اور تاریخ کے ان بنیادی قوانین کو جاننے کی کوشش کریں گے جن کے تابع سماج ترقی کرتا ہے۔ انہیں قوانین کے ذریعے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سماج میں تبدیلی کیسے، کب اور کیوں کر جنم لیتی ہے اور ہم اس میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ عموماً کسی بھی معاشرے میں انقلابی تحریکیں روز روز نہیں جنم لیا کرتیں بلکہ ہر معاشرے میں طویل عرصہ تک بظاہر جمود اور معمول حاوی رہتا ہے۔ کئی دہائیوں تک سماج معمول کے ارتقائی مراحل سے گزرتا رہتا ہے جس کے دوران چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جنہیں مقداری تبدیلیاں کہا جاتا ہے۔ یہ مقداری تبدیلیاں مجتمع ہو کر ایک خاص مرحلے پر ایک معیاری تبدیلی یعنی انقلاب یا دھماکہ خیز تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ اس لیے جب تک اس معیاری تبدیلی کے مرحلے کا آغاز نہیں ہوجاتا ہر سماج بظاہر ایسے ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے جیسے کچھ بھی تبدیل نہیں ہو رہا۔ ایسے ہی جمود کے ادوار ہوتے ہیں جیسا کہ اس وقت ہمارے معاشرے کا ہے جس میں وہ تمام افراد جو سماجی تبدیلی کے بنیادی قوانین سے بے بہرہ ہوتے ہیں وہ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ در حقیقت تبدیلی کائنات کا سب سے بنیادی قانون ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ تبدیلی کے دو مراحل ہیں، پہلا مقداری تبدیلی کا جس کے دوران تبدیلی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدل رہا، اور دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ایک معیاری تبدیلی کو جنم دیتی ہیں جسے انقلاب کہا جاتا ہے۔

تبدیلی کے دو مراحل ہیں، پہلا مقداری تبدیلی کا جس کے دوران تبدیلی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدل رہا، اور دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ایک معیاری تبدیلی کو جنم دیتی ہیں جسے انقلاب کہا جاتا ہے۔
ہم اگر آج کی دنیا سے مثالیں پیش کریں تو مصر میں 59سال تک کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ حسنی مبارک کی حکومت بظاہر بہت طاقتور نظر آرہی تھی لیکن 59سال بعد فروری 2011ء میں چند نوجوانوں کے احتجاجی مظاہرے نے اتنی بڑی تحریک کو جنم دیا جس نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا۔ 59سال میں جو کچھ نہیں ہوا تھا وہ 2011ء میں ہو گیا لیکن یہ بھی تبدیلی کا مکمل عمل نہیں تھا چونکہ حقیقی تبدیلی محض کسی انقلابی تحریک کے ابھار کے ذریعے ممکن نہیں ہوتی۔ انقلابی تحریک کو اگر درست نظریات، پروگرام اور راہنمائی فراہم کرنے والی انقلابی تنظیم میسر آجائے تب اس انقلابی تحریک کی طاقت سے صرف حکمرانوں کے تخت نہیں گرائے جاتے بلکہ اس کے ساتھ حکمرانوں کے نظام کو بھی اکھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 1917 کے سوویت انقلاب کے معمار لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا “ایک انقلاب کی سب سے بنیادی اور ناقابل تردید خصوصیت عوام کی اکثریت کی تاریخی عمل میں پرزور اور فیصلہ کن مداخلت ہوتی ہے”۔

آج دنیا بھرمیں انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں، ان تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے انقلابی نظریات پر مبنی ایک انقلابی تنظیم تعمیر کرنا ہو گی جو اس استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکے۔ چونکہ انقلابی تحریکیں اگر نظام کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو پھر رد انقلاب ان معاشروں کو برباد ی سے دوچار کر دیا کرتے ہیں۔ تحریکیں سماجی قوانین کے تابع ابھرتی ہیں لیکن ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنا باشعور انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے۔