آج اسلامی جمہوریہ پاکستان آزادی کی سڑسٹھ بہاریں مکمل کر رہا ہے اور آزاد پاکستان کے شہری تمام بڑے شہروں میں محصورین کی طرح یوم ِآزادی منانے پر مجبور ہیں کیونکہ آج ایک بار پھر پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ آزادی کے دن اس ملک کی منتخب جمہوری حکومت سے استعفی کے طالب دو لانگ مارچ دارلحکومت اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں۔ حکومت نے ان کا احتجاج کا حق تسلیم کرنے کی بجائے ان سے نمٹنے کے لیئے تمام بڑے شہروں خصوصا لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر ان کو احتجاج سے روکنے کے اقدامات کر رکھے ہیں۔
ہر محبِ وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان جنہوں نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی ، آج ان کی ترقی کی شرح میں اس قدر تفاوت کیوں ہے؟
حکومت اوراس کی مخالف سیاسی جماعتوں کی باہم چپقلش کا اثر ملک کی معاشی صورتحال پر بھی پڑرہا ہے ۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج ایک ہی روز میں بارہ سو سے زائد پوائنٹس کی کمی کا سامنا کر کے بدترین مندی کی شکار ہے اور دوسری طرف امریکی ڈالر بھی دوبارہ سے سو روپے کی قیمت پر پہنچ رہا ہے۔ ملک کی سکیورٹی کی حالت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں اہم فوجی آپریشن "ضربِ عضب” جاری ہے اور اس آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے دس لاکھ سے زائد مہاجرین بنوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان کی حالت جنگ زدہ علاقوں کے شہریوں سے مختلف نہیں ہے۔ ایسے میں ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور اس سے نمٹنے کے لئے شہر شہر دفعہ 144 اور 245 کا نفاذ یا شہروں کے محاصرے بہرحال ملک کی سیاسی قیادت کی نابالغی کا ثبوت ہیں۔
پاکستان اور بھارت نے اپنی آزادی کا سفر ایک ساتھ ہی شروع کیاتھا مگر آج سڑسٹھ سال بعد دیکھا جائے تو بھارت کی ترقی کی ٹرین پاکستان سے کہیں آگے گزر چکی ہے اور تیز رفتاری سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کے کئی اہم اداروں میں ، جن میں مائیکروسافٹ اور گوگل بھی شامل ہیں ، بھارتی شہری کئی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں روس، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل کی شمولیت سے "منی آئی ایم ایف” کے قیام کااعلان کر کے اپنی معاشی برتری ثابت کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5.4 فیصد ہےاور بھارت کی شرح خواندگی تقریبا 85 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھا جائے تو اسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو محض 3.1 فیصد ہے اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان 15, 515 بلین روپے کی مقروض بھی ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی پاکستان بھارت سے بہت پیچھے ہے اور بھارت کی 85 فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں پاکستان کی شرح خواندگی صرف 58 فیصد ہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے 30 فیصد بچے جن کی عمر اسکول جانےکی ہے، ایک دن بھی اسکول کا رخ نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ اسکول میں داخلہ لینے والے باقی بچوں میں سے بھی صرف 50 فیصد ہی پرائمری سے مڈل اسکول میں پہنچ پاتے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہر محبِ وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان جنہوں نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی ، آج ان کی ترقی کی شرح میں اس قدر تفاوت کیوں ہے؟
حصول ِ آزادی کے فورا بعد جب عملی طور پر آزادی کا حق ادا کرنے کا وقت آیا تو بھارت نے اپنا آئین تشکیل دیا جبکہ پاکستان کو آزادی سے نو سال بعد 1956 میں اپنا آئین تشکیل دے کر جمہوریہ کا درجہ حاصل ہوا۔ اس کے بعد عام انتخابات کروانے کا وقت تھا مگر بھارت کے برعکس پاکستان نے عام انتخابات کو 1970 تک ٹالے رکھا، اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمانوں کے برعکس پارلیمانی نظامِ حکومت کے بجائے صدارتی نظامِ حکومت کے تجربے کیے گئےاور جب 1970میں بالآخر عام انتخابات ہوئے تو ایسے حالات پیدا کردئے گئے کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ اس کے بعد بھی ملک میں جو حکومت بنی ، کبھی کسی آمر نے اس کو اٹھا باہر کیا یا پھر کبھی صدرِ مملکت کو ایک آنکھ نہ بھائی اور برخاستگی اس کا مقدر ٹھہری ۔
پاکستان اور بھارت نے اپنی آزادی کا سفر ایک ساتھ ہی شروع کیاتھا مگر آج سڑسٹھ سال بعد دیکھا جائے تو بھارت کی ترقی کی ٹرین پاکستان سے کہیں آگے گزر چکی ہے اور تیز رفتاری سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کے کئی اہم اداروں میں ، جن میں مائیکروسافٹ اور گوگل بھی شامل ہیں ، بھارتی شہری کئی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں روس، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل کی شمولیت سے "منی آئی ایم ایف” کے قیام کااعلان کر کے اپنی معاشی برتری ثابت کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5.4 فیصد ہےاور بھارت کی شرح خواندگی تقریبا 85 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھا جائے تو اسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو محض 3.1 فیصد ہے اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان 15, 515 بلین روپے کی مقروض بھی ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی پاکستان بھارت سے بہت پیچھے ہے اور بھارت کی 85 فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں پاکستان کی شرح خواندگی صرف 58 فیصد ہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے 30 فیصد بچے جن کی عمر اسکول جانےکی ہے، ایک دن بھی اسکول کا رخ نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ اسکول میں داخلہ لینے والے باقی بچوں میں سے بھی صرف 50 فیصد ہی پرائمری سے مڈل اسکول میں پہنچ پاتے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہر محبِ وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان جنہوں نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی ، آج ان کی ترقی کی شرح میں اس قدر تفاوت کیوں ہے؟
حصول ِ آزادی کے فورا بعد جب عملی طور پر آزادی کا حق ادا کرنے کا وقت آیا تو بھارت نے اپنا آئین تشکیل دیا جبکہ پاکستان کو آزادی سے نو سال بعد 1956 میں اپنا آئین تشکیل دے کر جمہوریہ کا درجہ حاصل ہوا۔ اس کے بعد عام انتخابات کروانے کا وقت تھا مگر بھارت کے برعکس پاکستان نے عام انتخابات کو 1970 تک ٹالے رکھا، اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمانوں کے برعکس پارلیمانی نظامِ حکومت کے بجائے صدارتی نظامِ حکومت کے تجربے کیے گئےاور جب 1970میں بالآخر عام انتخابات ہوئے تو ایسے حالات پیدا کردئے گئے کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ اس کے بعد بھی ملک میں جو حکومت بنی ، کبھی کسی آمر نے اس کو اٹھا باہر کیا یا پھر کبھی صدرِ مملکت کو ایک آنکھ نہ بھائی اور برخاستگی اس کا مقدر ٹھہری ۔
سیاسی ہٹ دھرمی اور نظریات کی بحث سے آگے بڑھ کر ان 60فیصد پاکستانیوں کے لیے کچھ کیا جائے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آج بھی پاکستان میں سیکولر یا اسلامی پاکستان کی بحث جاری ہے اور اس بحث میں کسی کو پاکستانیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا خیال نہیں ۔ آج یومِ آزادی مناتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلے گزرے ہوئے سڑسٹھ سالوں میں کی گئی غلطیوں کو نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ ان سے مناسب سبق بھی حاصل کیا جائے۔ سیاسی ہٹ دھرمی اور نظریات کی بحث سے آگے بڑھ کر ان 60فیصد پاکستانیوں کے لیے کچھ کیا جائے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان 30فیصد پاکستانی بچوں کا ہی خیال کیا جائے جو آج 2014 میں بھی علم جیسی دولت سے محروم ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں سڑکوں پر مشق زنی کر کے اس عوام کو اضطراب کی آخری حدوں پر لے جانے سے گریز کریں جن کو اس بات سے بے خبر کہ اس ملک کا وزیرِ اعظم کون ہے، اپنے بچوں کے لیے شام کے کھانے کی فکر ہے۔ اپنے معاملات ایوان میں حل کریں اور باقی عوام جو تھوڑی سی بھی عقل سوجھ رکھتے ہیں ، اس سیاسی ڈرامے کا حصہ بن کر محض شکایتیں کرنے کی بجائے عملی طور پر بھی کچھ کر کے دکھائیں تاکہ آنیوالے یومِ آزادی پچھلے گزرے سڑسٹھ سالوں سے مختلف ہو سکیں۔
Leave a Reply