بدلتے اور مسلسل ترقّی کرتے بھارتی سماج کو جن نئے چیلنجز کا سامنا ہے، انیرودھا رائے کی نئی فلم "پِنک” اس کا ایک رسپانس ہے۔ بھارتی بزرجمہر سماجی تبدیلی کی ضِمن میں سینما کی اہمیّت کا ٹھیک ٹھاک ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آئے روز ایسی فِلمیں دیکھنے کو مِلتی ہیں جو تفریح کے ساتھ ساتھ سماج کو بہتری کی جانب مائل کرنے کا پیغام بھی اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔
اس سلسلے میں کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ایک تازہ مثال ڈرامہ یانرا کی فِلم "پِنک” بھی ہے۔ اس میں سِوائے امیتابھ بچن کے، کوئی دوسرا سُپرسٹار نظر نہیں آتا. مگر پرفارمنسز سبھی کی نہایت پاورفُل ہیں۔
لیڈ رول میں ‘تاپسی پنّو’ نے اپنی خوبصورت اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ کیرتی اور آندریا نے بھی جب جب موقع ملا، اچھی اداکاری کی۔ پیوش مشرا نے ڈَیوِلز ایڈووکیٹ کے رول میں اپنی بے ساختہ اداکاری سے جان ڈال دی.
بِگ بِی کو تو ‘شُجیت سرکار’ نے کاسٹ ہی اس لیے کیا ہوگا کہ جہاں جہاں پنچ مارنا ہو، بِگ بِی کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ ورنہ اچھے ایشو پر بنائی گئی فلم غیر متاثر کُن انداز میں ختم ہو جانے کا خطرہ تھا۔ سُچیت بِگ بِی پر ایک ڈاکیومنٹری بھی بنا رہے ہیں۔ اور مدراس کیفے انہی کی ہدایتکاری کا نمونہ تھی۔ مگر شُجیت نے "پِنک” کو پروڈیوس کیا ہے، ڈائریکٹر اس کے انیرودھا رائے ہیں۔ اس فلم کی وجہ تسمیہ یعنی اس کا نام "پِنک” رکھنے کی وجہ اس کا موضوع ہے؛ تیزی سے بدلتے جدید بھارتی سماج میں عورت کو درپیش نُمایاں مشکلات۔۔۔۔۔۔۔
اس فلم کی ایڈیٹنگ میں خامیاں ہیں۔ اسکرپٹ تو اچھا ہے مگر اسکرین پلے ڈھیلا ہے۔ مکالمے البتہ بہت عُمدہ ہیں۔ سیٹ سادہ اور کاسٹیومز مناسب. اسکور بھی مناسب ہی رہا. ٹریکس اچھے ہیں بالخصوص ‘کاری کاری’ کی شاعری اچھی لگی۔ سینماٹوگرافی بتا رہی تھی کہ فلم کا مقصد صرف اور صرف کہانی میں پنہاں سندیس کی ترسیل ہے۔ فلم بین کے جمالیاتی حَظ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔
اگر آپ سینما کے لیے تیار کردہ عُمدہ سوشل ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو "پِنک” آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔
Leave a Reply