Laaltain

ممتاز قادری کو کون پھانسی دے گا؟

11 مارچ، 2015
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممتاز قادری کی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے دہشتگردی کی دفعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔یاد رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو 4 جنوری 2011 کو اُن کے اپنے سیکیورٹی گارڈ نے اسلام آباد میں ہلاک کردیا تھا۔ جس کے بعد انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے ملزم ممتاز قادری کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس کے دو رکنی بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ممتاز قادری کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہونے والے سزائے موت کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
فاضل ججز کی فہم و فراست کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ایک تیر سے دوشکار کیے، سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے دی اور ہینگ پھٹکڑی کے بناء ہی چوکھا رنگ چڑھا دیا ؛اپنی جان بھی بچا لی اور “انصاف ” کے تقاضے بھی پورے کر دیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں ممتاز قادری کو انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہےجبکہ دفعہ 302 کے تحت سزائے موت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ بھی اچھا ہے کیوں کہ محترم ججز کے لیے اپنی جان بچانا بھی تو ضروری ہے، اب کون خطرہ مول لے، روپوشی اختیار کرے، دھمکیاں سنے اور ثواب کمانے کا ایک موقع ہاتھ سے جانے دے اس لیے بہتر ہے کہ کچھ مصلحت سے کام لیا جائے۔ فاضل ججز کی فہم و فراست کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ایک تیر سے دوشکار کیے، سانپ بھی مار دیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے دی اور ہینگ پھٹکڑی کے بناء ہی چوکھا رنگ چڑھا دیا ؛اپنی جان بھی بچا لی اور “انصاف ” کے تقاضے بھی پورے کر دیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ممتاز قادری کے حامیوں نے ہائیکورٹ کے احاطے میں ہی مٹھائی بانٹی اور ثواب کے طالب ہر فرد نے اس خوشی میں شریک ہو کر اپنے عشق مصطفی کا اظہار کیا۔یہاں یہ یاد ر ہے کے انسداد دہشتگردی کی عدالت نے اعترافِ جرم کرنے والے ممتاز قادری کو یکم اکتوبر 2011 کو سزائے موت سنائی تھی۔
انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج پرویزعلی شاہ نے اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے بعد ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت اور دولاکھ جرمانے کی سزاسنائی تھی۔اس وقت عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ “کسی کو کسی بھی جواز پر قتل کا لائسنس نہیں دیا جاسکتا”۔مگر اب اسلام آباد ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت سزائے موت کو ہی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے ممتاز قادری کا یہ اقدام دہشتگردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ مزید یہ کے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے جو فیصلے میں لکھا تھا کہ “کسی کو بھی کسی کو قتل کرنے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا” وہ بھی غلط تھامگر چونکہ ممتاز قادری کے اس اقدام سے ایک انتہائی اہم شخص ہلاک ہوااس لیے دفعہ 302 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائےموت کا فیصلہ برقرار رکھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ممتاز قادری کی سزا پر عمل درآمد کے خلاف عدالت عالیہ میں درخواست پیش نہیں کی گئی تاہم جیسے سزا کے خلاف سماعت میں سرکاری وکیل اپنی ذمہ داری رسماً نبھانے کو پیش ہوتے رہے ہیں ویسے ہی آگے بھی چلتا رہے گا۔بہرحال ابھی تو ہائیکورٹ میں اپیل کا فیصلہ آیا ہے جس میں اعلیٰ عدالتی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے صرف انسداد دہشتگردی کی دفعات کو ختم کیا گیا ہے مگر دفعہ 302 کے تحت سزائے موت ابھی بھی برقرار ہےجس کے خلاف یقینی طور پر سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جائیگی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے روز ایک ٹی وی پروگرام میں ممتاز قادری کے وکیل کا موقف تھا کہ یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے دہشتگردی کی دفعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے یہ ہماری فتح ہے اور سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ہم دفعہ 302 کے تحت دی جانے والی سزائے موت کو بھی کالعدم قرار دلوالیں گے( شاید وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلتا تو ممتاز قادری کے جانثار انگلیاں ٹیڑھی کرنا بھی جانتے ہیں)۔
یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ایک طرف تو حکومت انسداد دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا یافتہ سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکارہی ہے اور دوسری طرف اسلام ہائیکورٹ نے ممتاز قادری پرلگائی گئی انسداد دہشتگردی دفعات کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ ممتاز قادری نے کوئی جرم نہیں کیا اور انھوں نے ایک سچا مسلمان ہوتے ہوئے اپنا فرض نبھایا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ممتاز قادری نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا تھا نا کہ کسی کی ذات کی حفاظت کا۔ممتاز قادری کے وکلا کو یہ بھی امید ہے کے اس مقدمے کی پیروی کے بدلے میں جنت عطا ہوگی۔ممتاز قادری کے وکلا کا موقف تو جو بھی ہو اور بیشک کسی دلیل کے بغیر ہی ہومگر اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ہمارےمعاشرے کی ایک بہت بڑی تعداد ممتاز قادری کو ہیرو سمجھتی ہے، ایسے میں عدالت کیسے ممتازقادری کو پھانسی دے سکتی ہے؟
ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ معاشرتی حقیقتوں اور مسلکی رجحانات کو دیکھتے ہوئے ممتاز قادری کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیگی اور یوں ایک طویل عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد ممتاز قادری ایک زندہ ہیرو بن کر باہر نکلے گا۔یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ایک طرف تو حکومت انسداد دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا یافتہ سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکارہی ہے اور دوسری طرف اسلام ہائیکورٹ نے ممتاز قادری پرلگائی گئی انسداد دہشتگردی دفعات کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔اس کے علاوہ اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ ایک حاضر سروس صدر پر صرف حملہ کرنے والوں کو تو سزائے موت دی جائے گی (جس میں خوش قسمتی سے وہ بچ بھی گئے) مگر اگر کوئی حاضر سروس گورنر کو صرف ان کے مذہبی خیالات اور مذہبی قوانین کے غلط استعمال کے خلاف آواز اٹھانے کی بنا پر قتل کرتا ہے تو یہ جُرم نہیں بلکہ قاتل کے لئے باعثِ فخر ہوگا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد یقینی طور پر ممتاز قادری کے 90 وکیل بمعہ جاں نثارانِ قادری سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج میاں نذیر احمد کی سربراہی میں پیش ہوں گے اور پھر سماعت پر سماعت پر سماعت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *