میرے لیے تو یہ دن بھی ان تمام عالمی دنوں جیسا ہے جو مختلف مواقع، جذبات، انسانوں اور جانوروں سے موسوم ہوتے ہیں۔
محبت کا عالمی دن جو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے موسوم ہے اس کی تاریخ ماقبل و آخر اس سے تو ہمیں چنداں دلچسپی نہیں لیکن اس ایک بحث سے ضرور شغف رہتا ہے کہ آیا یہ محبت کا دن ہمیں منانا چاہیئے یا نہیں۔ میرے لیے تو یہ دن بھی ان تمام عالمی دنوں جیسا ہے جو مختلف مواقع، جذبات، انسانوں اور جانوروں سے موسوم ہوتے ہیں۔ اس دن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے جذبے سے ماخوذ ہے جو ہمارے ہاں قبول عام رکھتا ہے اور وسیع پیمانے پر اپنائے جانے کے باوجود دانستہ طور پر نظرانداز ہی نہیں کیا جاتا بلکہ مطعون بھی کیا جاتا ہے۔ کچھ اس دن کے حوالے سے دورکی کڑیاں لاتے ہیں اور اسے محض معاشی فوائد حاصل کرنے کے لیے مغرب کا پراپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ کچھ مذہب پسند لوگ اس پر لعن طعن کرکے اپنی دکانداری چلاتے ہیں تو کچھ اسے تہذیب و ثقافت کے منافی خیال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ خواہ جو بھی خیالات ہوں لیکن اکثریت اس دن کو منانے کے خلاف نظر آتی ہے اور جو چند اس کے حق میں بھی ہوں تو وہ بھی کچھ معذرت خواہانہ انداز میں عجیب و غریب تاویلات دیتے نظر آتے ہیں۔ کل فیس بک کی ایک پوسٹ پر جس میں غامدی صاحب نے حیا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے محبت کے حق میں کچھ مثبت سے دلائل دیے تھے اس پر ایک صاحب کا کھلی بےغیرتی کے اظہار کے ساتھ کڑی تنقید کرتے ہوئے غامدی صاحب کی بہن کے حوالے سے انتہائی رکیک جملے ادا کیے جو میرا قلم بھی لکھنے سے قاصر ہے۔
ہمارے ہاں محبت اور محبت کا عالمی دن دونوں ہی متنازعہ حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ لوگ جو محبت کے حامی ہیں وہ بھی ویلنٹائنز ڈے کے خلاف محاذ آرا نظر آتے ہیں شاید اس کی وجہ تسمیہ جناب ویلنٹائن صاحب کا نام ہوسکتا ہے۔ مغرب سے آئی ہر(امپورٹڈ) شے ہمیں مرغوب ہے سوائے اس ایک دن کے۔ کچھ لوگ محبت کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے وہ ایک دن کا پابند نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ روزانہ محبت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں محبت کرنے میں حرج نہیں لیکن وہ اپنے سوائے دیگر تمام کی محبت میں کی گئی “حرکات و سکنات” کو لغو اور بیہودہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ محبت کو پاک اور ناپاک کے تصور سے جوڑتے ہوئے اس کے ڈانڈے زوجین، بہن بھائی، ماں باپ اور دیگر اہل خانہ کی محبت سے جوڑ کر اسے مشرف بہ مذہب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک محبت انتہائی گرا ہوا اور گھٹیا جذبہ ہے جس سے ہر صورت اپنے خاندان کی خواتین کو اس سے بچانا ان کا اولین فریضہ ہے خواہ وہ خود دن بھر اور سال کے تین سو پینسٹھ دن صنف نازک ہی نہیں اپنی صنف تک کی اسکن ٹائٹ جینز اور تیسری جنس تک کے لچکوں سے آنکھیں سینکنا اور رگ و پے میں تناو کی لہریں دوڑانا محبوب مشغلہ جانتے ہوں۔
بہت سارے لوگ محبت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لیے اسے جائز بھی خیال کرتے ہیں لیکن ان کی “روشن خیالی” یہ گوارا نہیں کر پاتی کہ ان کے اہل خانہ خصوصا خواتین محبت کر لیں، یا اگر محبت کر بھی لیں تو وہ محض پسندیدگی تک ہی ہو۔
بہت سے لوگ عمر بھر دل اور آنکھوں میں کسی حسین کی شبیہہ اور پہلو میں ان چاہی زوجہ اور درجن بھر بچے لیے گھومتے ہیں لیکن محبت کے کھلے عام اظہار کو ثقافت و روایات کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو محبت سے جڑے اظہار و افعال بھی شجر ممنوعہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں پر بھی ایک عرصہ تک یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ ایک دن گھر کے آنگن میں ایستادہ درخت سے لٹکے بچے توڑ کر انھوں نے پال لیے ہیں۔ یہ کہانی اس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک بچے خود نہ ٹوک دیں کہ ہم میں سے کوئی معمول کے مطابق بھی پیدا ہوا تھا یا نہیں۔
بہت سارے لوگ محبت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے لیے اسے جائز بھی خیال کرتے ہیں لیکن ان کی “روشن خیالی” یہ گوارا نہیں کرپاتی کہ ان کے اہل خانہ خصوصا خواتین محبت کرلیں یا اگر محبت کر بھی لیں تو وہ محض پسندیدگی تک ہی ہو۔ لو بھلا جب سب ہی صنف نازک محبت کرنے سے رک جائیں گی تو جو لڑکے اور مرد جو صنف مخالف سے محبت کرنا چاہتے ہیں۔ محبت کے لیے ہم سب نے ہی جو دوغلا رویہ اپنا رکھا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب ہی محبت کو پسند کرتے ہیں اور اپنانا بھی چاہتے ہیں لیکن ہم سب ہی خوف کا شکار بھی رہتے ہیں۔ پہلا خوف معاشرے کا ہے کیوں کہ معاشرہ ہمیں چھت پر کھڑے ہو کر بجلی کا کنڈا لگانے کی اجازت تو دیتا ہے اور اس بجلی چوری سے ہماری شرافت و نجابت پر حرف نہیں آتا۔ سڑک پر آتے جاتے ایک دوسرے کو مغلظات بکنے اور دست و گریباں ہوجانے سے بھی ہماری عزت قائم رہتی ہے۔ ہم گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں سے دروازے یا فون پر جھوٹ کہلواسکتے ہیں کہ ہم گھر پر نہیں ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے سامنے لوگوں کی غیبت، برائیاں کرسکتے ہیں لوگوں کے خلاف سازشیں رچ سکتے ہیں لیکن محبت نہیں کرسکتے۔ ہم صنفی امتیاز، منفی انداز فکر، بے جا احساس تفاخر اور شقاوت قلبی تو اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں لیکن محبت کرنا نہیں سکھا سکتے۔
ہم سارا دن نیوز چینل پر ریپ اور زیادتیوں کی داستانیں اپنے بچوں کی سماعتوں سے گزارتے نہیں جھجکتے لیکن جہاں محبت کا دن منانے کی بات آئے ہم سارا دن ٹی وی آف کر سکتے ہیں۔
ہم سارا دن نیوز چینل پر ریپ اور زیادتیوں کی داستانیں اپنے بچوں کی سماعتوں سے گزارتے نہیں جھجکتے لیکن جہاں محبت کا دن منانے کی بات آئے ہم سارا دن ٹی وی آف کر سکتے ہیں۔ بچپن میں جب وی سی آر پر فلمیں دیکھی جاتی تھیں تب ہر فلم پہلے والدین کے سنسر سے گزر کر بچوں کو دکھائی بھی جاتی تو بھی ہر پندرہ منٹ بعد بچوں سے سر جھکانے کو کہا جاتا اور متنازعہ منظر اور بالعموم گانے تیزی سے ریوائنڈ کردیے جاتے۔ لیکن اس سب سنسرشپ کے باوجود بچے اس بچپن میں بھی یہ بخوبی جان جاتے کہ والدین کی ہمدردیاں ہیرو ہیروئن اور ان کی محبت کے ساتھ ہیں۔ لیکن عملی زندگی میں یہی والدین محبت کے خلاف اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھتے۔
ایک ماں ہونے کے ناطے میں اپنے بچوں کے لیے سوچتی ہوں کہ میرا رویہ کیا ہوگا جب میری بیٹیاں محبت کریں گی۔ اور یہ میری دلی خواہش ہے کہ وہ زندگی میں محبت ضرور کریں اور اس ایک میٹھے جذبے کی چاشنی سے خود کو محروم نہ کریں لیکن! ہاں میں خوف زدہ رہتی ہوں محبت سے نہیں بلکہ محبت کے نام پر ملنے والے دھوکے سے۔ فی زمانہ محبت کو معتوب کرنے اور اسے رانداہ بنادینے میں ان دھوکے بازیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ محبت کا انجام شادی ہونا ضروری نہیں لیکن اگر ایسا ہوجائے تو اس سے بڑی خوش نصیبی بھی کوئی اور نہیں۔ پر آج کل جو کلی کلی منڈلانے اور رس چوس کر اڑ جانے کا رواج ہے اس نے محبت کے شفاف آئینے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ہم محبت میں اعتماد دینے اور یقین کے ساتھ محبت لینے والے ماحول کو فروغ دیں، محبت کو مثبت جذبہ سمجھتے ہوئے دھوکا دہی اور فریب کاری کی حاصلہ شکنی کریں تو ہمیں نہ معاشرے کے بگاڑ کا خدشہ رہے گا نہ ہی محبت سے خوف محسوس ہوگا۔