Laaltain

لکھاری اور رہگیر

17 اگست، 2016
Picture of جنید الدین

جنید الدین

حکومت مخالف تحریک پورے زوروں پر تھی۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس قائدین کی تقریروں اور بیانات سے بھرے ہوئے تھے۔

 

چائے خانوں، ڈھابوں، حماموں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ایک ہی بات موضوعِ بحث تھی کہ حکومت ختم ہونی چاہیے مگر جب اس سے اگلے لائحہ عمل کی بات چھڑتی تو بحث تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتی۔

 

باتیں کرنا ایک آسان مشغلہ ہے اس شخص کے لئے اور بھی زیادہ جسے کوئی ہنر نہیں آتا۔۔۔۔ تم لکھاری سب سے بے ہنر قوم ہوتے ہو اور اس لئے صرف بولتے رہتے ہو چپڑ چپڑ
دن بھر سیاسی کارکن تقاریر سنتے، احکامات لیتے، جن میں سے زیادہ تر طاقت سے اگلے کو کچلنے کے ہوتے، اور کسی بھی چوک چوراہے میں ان احکامات پر عملدرآمدشروع کر دیتے۔

 

انقلابیوں اور رد انقلابیوں کی تقسیم اس قدر واضح ہو چکی تھی کہ حکومت نے اولین کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فہرستیں تیار ہونے لگیں، سراسیمگی کا عالم کے لوگ اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے۔ اس بات کا خوف کہ کہیں کوئی ذاتی دشمنی کی بنا پر مخالف کوانقلابی کہہ کر گرفتار نہ کروا دے۔ اس سلسلے میں حکومت کے لئے سب سے بڑا درد سر وہ لکھاری تھے جو پرانے انقلابات کو پڑھ چکے تھے اور اپنی تحریروں میں آگ بھرنے کے لئے انہی سے چنگاری لیتے تھے۔
شورش کے ان اوقات میں رات دن کا فرق ختم ہو چکا تھا۔ پولیس کسی بھی وقت مخالفین کو پکڑنے کے لئے پہنچ جاتی اور چوراچوری کے برعکس دن دیہاڑے تھانوں کو آگ لگائی جا رہی تھی۔

 

اس بھیانک دن سے چند روز پہلے جب بیسیوں بیمار لوگوں نے شہر میں کرفیو کی وجہ سے اسپتال نہ پہنچنے کی بدولت جانیں دے دی تھیں شہر سے کچھ دور ہائی وے کے ساتھ متصل ایک حویلی میں دو اجنبی آپس میں محو گفتگو تھے۔

 

گفتگو ہر گز روایتی نہ تھی۔کبھی کبھار وہ دونوں ایک دوسرے کے اوپر چلاتے،کبھی تحمل سے بولنے لگتے اور کبھی ایک دوسرے سے دور ہٹ کر سگریٹ پینے لگ جاتے۔ گفتگو اتنی بے ہنگم تھی کہ ہر تیسرے سوال پر اس کا موضوع تبدیل ہو جاتا اور اگر کوئی بعد میں چلا جاتا تو ہر گز نہ جان سکتا کہ ابتداء کہاں سے ہوئی تھی۔

 

“یہ حویلی تو ایک دم شیکسپئیر کے کسی المیے کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔۔۔” دوسرے شخص نے کہا جو باہر سے اس جگہ آیا تھا۔۔۔۔ایک راہگیر جس کا مال واسباب لٹ چکا تھا اور اس نے رات گزارنے کے لئے قریب ترین جگہ کا رخ کیا تھا کہ صبح تھانے جا کر اس کی رپورٹ درج کرائے گا:

 

جب تمہیں ایک دن کا پتہ نہیں کہ جیو گے یا مرو گے تو اس ایک دن کے لئے تم نے اپنے دو سال ضائع کیوں کر دیے۔
تم نے شیکسپئیر کو پڑھا ہے؟ حویلی کے مالک نے، جو کسی چھوٹے سے مارکسی رسالے کا ادیب تھادریافت کیا۔
“نہیں”۔ اس نے جواب دیا۔

 

تو تم اسے ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟

 

“اس لئے کہ میں نے شیکسپئیر کے بارے میں کافی سن رکھا ہے، اور میں اس طرح سے بول بھی سکتا ہوں” اس نے کسی اداکار کی طرح بولتے ہوئے کہا۔

 

کیا سن رکھا ہے؟ لکھاری نے دریافت کرنا چاہا۔

 

“یہی کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہر انسان ایک اداکار!!”
“اس بات کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”

 

“تم نے کبھی حویلی اور اس میں پھیلی اداسی کو محسوس نہیں کیا۔۔۔۔۔کیا دنیا اتنی اداس نہیں بنتی جا رہی جتنی کہ یہ حویلی ہے۔ تم بھی تو ایک اداس شخص کا کردار ادا کر رہے ہو۔ اگر تم اداس نہ ہوتے تو ہر گز یہاں رہنا گوارا نہ کرتے، اور ابھی تو بہت خون بہنے والا ہے۔ کیا تمہیں نہیں لگ رہا؟” راہ گیر نے پوچھا۔

 

“الوؤں کے مرنے سے حویلیاں ویران نہیں آباد ہوتی ہیں” لکھاری نے فلسفیانہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔

 

“تم رائٹر لوگ دنگا فساد کو اتنا گلیمرائز کیوں کرتے ہو؟” راہگیر نے پوچھا۔

 

“اس لئے کہ شاید اسی طرح تم لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ” لکھاری نے جواب دیا…

 

“غسل خانہ کس طرف ہے؟”

 

“لڑائی کے نام سے ہی پیشاب آ گیا۔۔۔” ادیب نے سگریٹ مسلتے ہوئے کہا اور انگلی سے ایک طرف اشارہ کر دیا۔

 

“تم لوگ کہاں سے ایسی باتیں نکال لیتے ہو؟ اور یہ سگریٹ تم ادیبوں کی سلاجیت ہوتا ہے کہ سلگائی اور باتیں پیدا کرنا شروع ہو گئے”
“باتیں کرنا ایک آسان مشغلہ ہے اس شخص کے لئے اور بھی زیادہ جسے کوئی ہنر نہیں آتا۔۔۔۔ تم لکھاری سب سے بے ہنر قوم ہوتے ہو اور اس لئے صرف بولتے رہتے ہو چپڑ چپڑ۔۔۔۔۔ اور میری نظر میں تو لکھاری زمین کا بوجھ ہوتے ہیں اور یہ بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کتابیں پیسہ کمانے کے لئے لکھنے لگتے ہی ۔کیا تمہاری باتوں کا اثر کسی مزدور،کسان یا تاجر پر ہوتا ہے؟ نہیں بلکہ چند طالب علموں پر جنہوں نے اپنی جوانیاں ان لوگوں کے لئے داؤ پر لگا رکھی ہیں جن کا مستقبل ایک وقت سے اگلے تک روٹی کے بارے میں سوچنا ہے۔ جب تک یہ نوجوان لڑتے رہیں گے ان کو روٹی ملتی رہے گی اور بالآخر وہ بھی تھک کے بیٹھ جائیں گے کہ ان کے گھر والوں نے انہیں دوسروں کے لئے نہیں جنا۔۔۔ اور پھر سب ختم۔۔۔۔کیا میں نے کچھ غلط کہا؟” راہگیر نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا۔

 

“تمہارے پاس کیا تھا جو چھین لیا گیا؟”لکھاری نےبات بدلتے ہوئے کہا۔

 

“ایک موٹر سائیکل اور کچھ پیسے تھے۔”اس نے جواب دیا۔

 

“تنخواہ کتنی ہےتمہاری؟” ادیب نے پوچھا

 

“بارہ ہزار۔۔۔۔جتنی ایک مزدور کی ہوتی ہے۔”

 

“اسکوٹر کتنے کا تھا؟”

 

“چالیس ہزار کا”

 

“اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس؟”

 

“بچت کر رہا تھا۔۔۔۔ دو سال سے کہ موٹر سائیکل خریدوں گا اور جب لی تب یہ ہو گیا۔۔۔ ایسوں کے لئے تم لوگوں کو لڑنے کا کہتے ہو؟ ان کے ساتھ یہی ہونا چاہیے جو ہو رہا ہے۔۔۔مرنے دو سالوں کو!!” راہگیر نے غصے اور دکھ کے ملے جلے تاثرات میں کہا۔

 

“تمہیں پتہ ہے تم کب تک زندہ رہو گے؟ مطلب تم کسی حادثے کا شکار ہو سکتے ہو، کسی پولیس مقابلے میں مارے جا سکتے ہو، کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟” لکھاری نے استفسار کیا۔

 

“ہاں ہو سکتا ہے” راہگیر نے تائید کرتے ہوئے کہا۔

 

“جب تمہیں ایک دن کا پتہ نہیں کہ جیو گے یا مرو گے تو اس ایک دن کے لئے تم نے اپنے دو سال ضائع کیوں کر دیے۔کیا ان دو سال کے بے شمار گھنٹے جو تم نے پیسہ کمانے میں ضائع کیے ایک دن سے زیادہ نہیں بنتے اور بنتے ہیں تو تم نے اتنا گھاٹے کا سودا کیوں کیا؟ تم نے ایک دن بچانے کی خاطر دو سال ضائع کر دیے” لکھاری نے جذباتی انداز میں کہا۔

 

کیا ماحول تمہیں اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی اجازت دیتا ہے، خاص کر کہ اس وقت جب تم میں سے ایک پیسہ اور عہدہ کے لحاظ سے دوسرے سے بہتر ہے۔
اس کے ایسا کہنے پر راہگیر نے کوئی جواب نہ دیا۔ شاید اسے اپنی بیوقوفی پر شرمندگی ہو رہی تھی یا پھر اس فلسفی کی حقیقت سے ناآشنا باتوں نے اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔

 

“تم لوگ کہاں سے ایسی باتیں نکال لیتے ہو؟ اور یہ سگریٹ تم ادیبوں کی سلاجیت ہوتا ہے کہ سلگائی اور باتیں پیدا کرنا شروع ہو گئے”

 

“ہاں ہوتا ہے اور یہ باتیں تم لوگوں کے لئے پیدا کی جاتی ہیں، اتنی کہ ایک آدھ بھی تم لوگوں کو سمجھ آجائے تو کچھ پل چین سے گزر سکیں۔ مگر یہ باتیں کہاں تم لوگوں کی سمجھ میں آئیں گی۔ تمہارے کان یہ سننے کے لئے بنے ہی نہیں اور نہ تمہاری زبانیں یہ کہنے کے لئے۔ اور یہی فرق ہے تم میں اور ہم میں” لکھاری نے متکبرانہ انداز میں کہا۔

 

“ہاہاہا! تم بہت معصوم ہو، لاقانونیت میں حکمران اور عوام کے فرق کے علاوہ سب برابر ہوتے ہیں، تم کوئی اصول توڑو تو سہی,فرق خود ہی دیکھ لو گے۔ اور ہم تم پہ کیا اعتبار کریں؟ کیا تمہیں اپنے اوپر بٹھا لیں؟ لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اور تمہیں تمباکو کے علاوہ کچھ سجھائی نہ دے؟” راہگیر نے رعونت سے کہا…

 

“ایسا میں نے کب کہا؟”لکھاری نے استفسار کیا۔

 

“تمہارا مطلب تو یہی ہے۔” راہ گیر نے جواب دیا۔

 

میرا مطلب ہے کہ ایک دفعہ دل کی سنو، دل کیا کہتا ہے، ضمیر کی کیا پکار ہے۔ کیا ماحول تمہیں اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی اجازت دیتا ہے، خاص کر کہ اس وقت جب تم میں سے ایک پیسہ اور عہدہ کے لحاظ سے دوسرے سے بہتر ہے۔ اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ لکھاری نے کہا۔

 

لکھاری نے اسے روکنے کے لئے آوازیں دیں، چلایا کہ وہ اس کے ساتھ اسٹیشن جائے گا مگر وہ نہ رکا اور آن کی آن میں غائب ہو گیا۔
اس طرح بات کبھی مذہب پہ چھڑ جاتی تو کبھی کشمیر، اور فلسطین اسرائیل کی حالیہ لڑائی پر۔۔۔۔

 

باتیں کرتے ہوئے انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ستارہ کب ان کے سر کے اوپر سے گزر چکا تھا۔

 

وقت کیا ہو گیا ہے؟ راہ گیر نے پوچھا۔ “اذان ہوتے ہی میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔”

 

“اذان ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔” لکھاری نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔

 

تھوڑی دیر میں اذانیں ہونا شروع ہو گئیں اس نے جلدی سے ہاتھ ملایا اور حویلی سے باہر نکل گیا۔ لکھاری نے اسے روکنے کے لئے آوازیں دیں، چلایا کہ وہ اس کے ساتھ اسٹیشن جائے گا مگر وہ نہ رکا اور آن کی آن میں غائب ہو گیا۔
اگلے دن دوپہر کو اس کے چوکیدار نے اطلاع دی کہ انسپکٹر صاحب آئے ہیں،کل رات ہونے والی ڈکیتی کے سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اسے اندر آنے کا کہا۔

 

انسپکٹر کے اندر داخل ہوتے ہی لکھاری کے اوسان خطا ہوگئے۔ انسپکٹر وہی راہگیر تھا جو ساری رات اس کے ساتھ رہا تھا۔
“مجھے پتہ چلا تھا کہ تم غیر ریاستی حرکات میں ملوث ہو۔ اس لئے مجھے بھیس بدلنا پڑا۔”

 

 

تو پھر تمہیں کیا لگا؟” لکھاری نے پوچھا۔
“سب الٹ!”

 

یہ کہہ کر وہ پیچھے مڑا اور بغیر ہاتھ ملائے باہر نکل گیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پس نوشت: یہ کہانی محمد علی نیکو کار جیسے افسران کے نام ہے۔ جو نوکری سے زیادہ اصولوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے نوکری کی قربانی تو دے دی مگر عوام کے اوپر آنسو گیس چلانے سے انکار کر دیا کہ وہ ان کے جذبات کی ترجمانی قرار رہے تھے۔ حکومت سے زیادہ ریاست اہم ہوتی ہے۔ اور ریاست عوام کے بغیر وجود نہیں رکھتی۔

تبصرے

  1. Impressive. After a long time i read a rebilious story. Theme is so revolutionizes. Story structure is against the stable bore prose writings if today.
    I don’ t know how to talk like shakeapeare.dialogue ache hain

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تبصرے

  1. Impressive. After a long time i read a rebilious story. Theme is so revolutionizes. Story structure is against the stable bore prose writings if today.
    I don’ t know how to talk like shakeapeare.dialogue ache hain

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *