Laaltain

فینٹم ؛ ایک ناکام پراپیگنڈا فلم

21 ستمبر، 2015
اگر فلم صرف ایک کام کرنے میں کامیاب رہی کہ اس نے بھارت کے مسلمانوں کے روایتی تصور کو بدلنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں بسنے والے تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جو لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں فلم فیٹم دیکھ لیتے تو شاید کبھی اس فلم پہ مقدمہ نہ کرتے ۔اگر ان کے وکیل نے یہ فلم دیکھی ہوتی تو وہ یہی رائے دیتا کہ حافظ جی جانے دو یہ تو اپنا ہی کام آسان کر رہی ہے
اگر حافظ سعید فلم فیٹم دیکھ لیتے تو شاید کبھی اس فلم پہ مقدمہ نہ کرتے ۔اگر ان کے وکیل نے یہ فلم دیکھی ہوتی تو وہ یہی رائے دیتا کہ حافظ جی جانے دو یہ تو اپنا ہی کام آسان کر رہی ہے ۔ان سب کو چھوڑئیے پاکستانی شام کے اخبار کے شو بز رپورٹرسے بھی اگر رائےلی جاتی تو وہ یہی کہتا کہ اس فلم پہ مقدمہ کر کے اسے اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ تو شام کے اخبار میں ایک کالم سے زیادہ جگہ کی بھی حقدار نہیں ہے ۔
فلم کے پروڈیوسر ساجد نڈیا والا اور ہدایت کار کبیر خان نے کیا سوچ کریہ فلم بنائی یہ راز صرف وہی جانتے ہیں ۔اس سے قطع نظرافسوس یہ ہے کہ فلم کے سکرپٹ پہ نہ ہونے کے برابر کام کیا گیا ہے ۔کہانی میں ایسے ایسے جھول موجود ہیں جو دیکھنے والے کو بار بار تنگ کرتے ہیں ۔جیسے را چیف رائے(شبشاچی چکربارتی) کو ایک کل کے لونڈے کا لشکر طیبہ کے سربراہ کو پاکستان میں گھس کر مار نے پر اکسانا اورپھررا کے سربراہ کااس منصوبے کو اعلی حکام کے سامنے رکھ دینا بے حد بچگانہ معلوم ہوتا ہے۔ اعلی حکام کی جانب سے انکارپر وہ خود ہی اس مشن کو سرانجام دینے کے لیے ایک سابق فوجی دانیال خان کو تلاش کر لیتا ہے ۔یعنی فلم ہمیں یہ بتانے اور سمجھانے میں کامیاب رہتی ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را میں بھی ایسے روگ عناصر ہیں جو وہاں کی سیاسی قیادت کے قابو میں نہیں اور وہ خودفیصلہ کرتے ہیں کہ انڈیا کا وسیع تر قومی مفاد کیا ہے ۔چلیے اس سے یہ تو پتہ چلاکہ بھارت میں بھی ایک ایسا بیانیہ موجود ہے جس کے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سیکیورٹی ادارے ہی ملک کے وسیع تر قومی مفاد کا تحفظ کر سکتے ہیں اور سیاستدان مصلحتوں کا شکار ہیں ۔ موددی سرکار کے ہوتے ہوئے ایسے بیانیے کا سامنے آنا بھی ایک اچھنبے کی بات ہے۔
ایف بی آئی اور سی آئی اے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہیڈلی کو کس نے قتل کیا وہ اس کی قبر پہ فاتحہ خوانی کرکےفلم ہدایت کار کبیر خان کو شاباش دیتے ہیں کہ بھائی جان ہمیں اس قدر احمق دکھانے کا شکریہ
دوسرا بڑا جھول اس وقت نظر آتا ہے جب دانیال خان (سیف علی خان)بڑی آسانی سے لشکر طیبہ کے سب سے اہم اور خفیہ ایجنٹ کو آسانی سے تلاش کر کے گیس دھماکے میں مار دیتا ہے ۔اس حرکت پہ نہ تو ایم آئی سکس کے کان کھڑے ہوتے ہیں نہ لشکر اور نہ آئی ایس آئی کے ۔پھر یہی ایجنٹ امریکی جیل میں پہنچ جاتا ہے جہاں بمبئی دھماکوں کا مجرم” ہیڈلی” قید ہے ۔ دانیال اپنے ساتھ زہر بھی جیل میں لے جاتا ہے ۔را کی ایک مددگار کے تعاون سے جیل میں رقم بھی منتقل کروا لیتا ہے اور پھر بڑی آسانی سے پائپ پہ چڑھ کے ہیڈلی کے شاور میں وہ زہررکھ دیتا ہے ۔امریکی حکام ہیڈلی کی موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا خیال کرتے ہیں اور اسے بنا پوسٹ مارٹم کیے دفن کر دیتے ہیں ۔ایف بی آئی اور سی آئی اے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہیڈلی کو کس نے قتل کیا وہ اس کی قبر پہ فاتحہ خوانی کرکےفلم ہدایت کار کبیر خان کو شاباش دیتے ہیں کہ بھائی جان ہمیں اس قدر احمق دکھانے کا شکریہ ۔ہیڈلی کی موت پر بھی آئی ایس آئی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
فلم میں بھارتی فوج کو اپنے ہی سپاہیوں کے ساتھ ناانصافی کرتے دکھایا گیا ہے ۔ہیرو دانیال خان کے پس منظر کے مطابق اس کےفوج سے نکالے جانے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے گولہ باری کے دوران بہتر گھنٹے بنا کچھ کھائے پیے لڑ نے کی وجہ سے نڈھال دانیا ل خان اور اس کے ساتھی کمک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ ریڈیوسگنل ڈاون ہونے کی وجہ سے پیغام بھیجنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ مجبورا ہیرو اپنے سپاہیوں کو چھوڑ کر خودمورچے سے نکلتا ہے۔ابھی وہ مورچے سے تھوڑی دور ہی جاپاتا ہے کہ ایک گولہ مورچے کو تباہ کردیتا ہے، اس دھماکے کے نتیجے میں ہیرو دانیال خان بے ہوش ہوجاتا ہے۔ ہیرو کے مطابق اسے فوج سے ذلیل کر کے اس لیے نکال دیا گیاکیوں کہ فوج کے خیال میں وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔گویا بھارتی فوج کے اندر اس قدر اہلیت بھی نہیں ہے کہ وہ سچ کو پرکھ سکتی اور اپنے سپاہی کو انصاف فراہم کر سکتی ۔ یہاں اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ کس طرح یہ سپاہی دوسری بار دھوکہ کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور را کے چیف کے کہنے پر اس مشن کی حامی بھر لیتا ہے ۔ دانیال خان کا باپ بھی ہندوستانی فوج کا سابق افسر ہے اور بیٹے کی ‘بزدلی’ کہ وجہ سے اس سے بات نہیں کرتا ۔ لیکن فلم کے اختتام تک ناظر کو پتا نہیں چلتا کہ باپ کو بیٹے کی بہادری کے بارے میں پتا چلا یا نہیں اور کیا اس نے بیٹے کو معاف کیا یا نہیں؟
جوکوئی بھی فینٹم دیکھے گا اس کے ذہن میں یہ تاثر کہیں نہ کہیں ضرور موجود رہے گا کہ این جی اوز کی کترینہ کیف جیسی خوبرو دوشیزائیں انسانیت کی خدمت کے جذبے سے نہیں بلکہ را، موساد، سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ کے طور پہ کام کر رہی ہیں
فلم میں این جی اوز کو بھی بلا وجہ گھیسٹا گیا ہے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹرز ود آوٹ باڈرز (Doctors Without Borders)نے فلم پہ مقدمہ بھی کیا ۔این جی او نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی کا نام فلم میں گم راہ کن انداز میں استعمال کیا گیا ہے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے عملے کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ پاکستان میں اسامہ بن لادن کاپتہ چلانے کے لیے مبینہ طور پرسی آئی اے کی طرف سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کیا گیا۔جس کے بعد پاکستان میں پولیو مہم کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں ۔ پاکستان میں آئے روزدائیں بازو کی جماعتیں این جی اوز کے کردار پہ اعتراضات اٹھاتی رہتی ہیں اور ان کے کارکنوں کو اکثر غیر ملکی ایجنٹ تصور کیا جاتا ہے ۔فلم نےدائیں بازو کی جماعتوں کے اس تاثر کو مضبوط کیا ہے ۔ جوکوئی بھی فینٹم دیکھے گا اس کے ذہن میں یہ تاثر کہیں نہ کہیں ضرور موجود رہے گا کہ این جی اوز کی کترینہ کیف جیسی خوبرو دوشیزائیں انسانیت کی خدمت کے جذبے سے نہیں بلکہ را، موساد، سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ کے طور پہ کام کر رہی ہیں ۔یہاں ہمیں کبیر خان کو پھر دادا دینی چاہیے کہ اس نے بڑی خوبصورتی سے موجودہ ہندوستانی سرکار کے نظریات کو فروغ دیا ہے۔
فلم کے پلاٹ کو ہالی ووڈ کی سنسنی خیز فلم “سیریانہ ” کے سے انداز میں ہائپرلنک تکنیک سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔ہندوستان ٹائمز نے فلم کے ریویو میں لکھا کہ کتیرینہ اور سیف کی اداکاری مرجانے کی حد تک بور ہے اور اس راءے سے فلم دیکھنے والا کوئی بھی فرد انکار نہیں کر سکتا۔فلم میں امینہ بائی کا کردار جو لشکر کے بڑے دہشت گرد (لکھوی)کو مارنے کے لیے دانیا ل اور مستری کی مدد کرتا ہے اس کے کرادار کی کایا کلپ دھکے سے فلم میں ڈالی گئی ہے۔ پلاٹ کے بہت سے کھلے سرے دھکے سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں جہاں مصنف کو مشکل پیش آئی اس نے اس کا آسان حل ایک نئے کردار کے معتارف کرا کے ڈھونڈ لیا اور پھر اس کے لیے ایک ایسا پس منظر بھی گھڑ لیا جس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی ۔جیسے دانیال کے بیروت جانے کی وجہ شاید یہی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح آئی ایس آئی کی آنکھوں میں آ جائے اور را اس سے ہاتھ کھینچ لے ، اسی طرح شام میں ہونے والی مڈبھیڑ سے ہیرو اور ہیروین کے درمیان محبت کروائی جا سکے جو روایتی بالی وڈ فارمولہ تکنیک ہے۔
فلم صرف ایک کام کرنے میں کامیاب رہی کہ اس نے بھارت کے مسلمانوں کے روایتی تصور کو بدلنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں بسنے والے تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جو لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں
اگر حافظ سعید فلم پر مقدمہ نہ کرتے تو شاید دو سے تین شوز کے بعد فلم ڈبے میں بند کر دی جاتی ہے ۔دنیا بھر میں چار ہزارسے زائد سکرینو ں پہ ریلز ہونے کے باوجود بھی فلم کوئی خاطر خواہ کاروبار نہیں کر سکی ۔بھارت کے بڑے بڑے اخبارات اور میڈیا گروپس اپنے اپنے ریویو میں فلم کو تین اعشاریہ دو سے زیادہ ریٹنگ نہیں دی ۔فلم صرف ایک کام کرنے میں کامیاب رہی کہ اس نے بھارت کے مسلمانوں کے روایتی تصور کو بدلنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں بسنے والے تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جو لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔اس کی وجہ شاید بمبئی حملوں کے بعد مسلمانوں پر اٹھنے والے سوالات ہیں ۔فلم کی موسیقی میں سوائے اس کے کہ ایک گانا افغان جلیبی اسرار اور اختر چنال نے گایا ہے لیکن یہ گیت بھی ناظرین کی توجہ ھاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
(لکھاری عامر رضا ایک فری لانس ڈرامہ نویس اور صحافی ہے ۔وہ جیوٹی وی کے لیے ورلڈ سینما کے پروپیگنڈا اور عالمی تعلقات پہ پروگرام‘‘ تھرٹی فائیو ایم ایم ایٹ وار ’’بھی تحریر کر چکے ہیں )۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *