کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر مجھے تو اب لگنے لگا ہے کہ پاکستانی سیاست کا دماغ بھی نہیں ہوتا۔ کہنے کو تو میرا دل بھی بہت کچھ چاہتا ہے مگر کیا کروں صاحب نہ تو میں کسی پارٹی کا چئیرمین ہوں نہ ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، نہ سندھ کا وزیرِجیل خانہ جات اور نہ ہی پاکستان کا وفاقی وزیرِ داخلہ، نہ قائد انقلاب ہوں اور نہ کسی مذہبی جماعت کا امیر۔ میں تو غریب ہوں بلکہ عجیب و غریب جسے صبح کی روشنی نکلنے سے رات کی تاریکی طاری ہونے تک ہر تاریخ، دن اور مہینہ بہتری کی ایک امید کے سہارے گزارنا پڑتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میری پھر بھی مزے میں گزر جاتی ہے اور پھر ایک دنگزارا کرتے کرتے میں ہی گزر جاتا ہوں۔
آپ چاہیں تو "تم اتنے مہاجرکیوں ہو یار”، "بہت ہی کوئی مہاجر کا بچہ ہے تُو”، "بندہ سب کچھ ہو مہاجر نہ ہو” یا پھر اپنے خان صاحب کے انداز میں اس گالی سے پہلے "اوئے” لگا کراس لفظ کے مفاہیم میں جدت طرازی کے نئے افق تلاش کر سکتے ہیں۔
خیر ایک نہ ایک روز گزرنا تو سبھی کو ہے وہ بھی بنا کسی پروٹوکول کے ،چاہے بھلے عام آدمی ہو ہو یا حکم ران۔ انہیں بھی جو خدائی کا دعویدار ہیں اور اُنہیں بھی جنہیں اپنے انسان ہونے کا گمان ہے۔لیکن عقل کے یہ اندھےکب کچھ سمجھے ہیں جو اب ان سے امید لگائی جائے۔ بہرحال عقل ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ہونا تو بس مینڈیٹ چاہیے۔کہتے ہیں مینڈیٹ اور کچی شراب کا نشہ مرنے کے بعد ہی اترتا ہے اور اِن دونوں نشوں میں چُور ہو کر مرنے والے کو آج کل فیشن کے طور پر”شہید” کہا جاتا ہے بالکل اُسی طرح جس طرح چند ماہ قبل امریکہ کے ہاتھوں مرنے والا کتا بھی شہادت کے رتبے پر فائز کیا جا چکا ہےخیروہ تو مولانا ہیں جسے جب اور جہاں چاہیں فائز کرواسکتے ہیں۔یوں بھی ہیں تو وہ بھی اسی پاکستانی سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی، اور سیاست بھی وہ جسے کھیلنے کے لئے عقل کا ہونا شائدلازمی شرط نہیں ۔اِسی لئے ہمارے مُلک کے بڑے بڑے سیاستدان آج تک یہی سمجھتے ہیں کہ ملکی گاڑی واقعی پانی سے چل سکتی ہے۔
ہماری سیاست میں گالیوں اور گولیوں کا چلن بھی نیا نہیں اور نہ ہی صحافیوں اور سیاستدانوں کے اعلٰی عدلیہ،مخالفین اور ہر آئے گئے کے خاندانی رشتوں میں ابہام پیدا کرنے کے بعد عدالتوں میں مکر جانے کی روایت نئی ہے۔حتیٰ کہ ایک صاحب تو سرحد پار سے آئے پاکستانیوں کو ہی گالی قرار دے کر مکر گئے ہیں۔ اسے میری بد قسمتی جانیے یا حُسنِ اتفاق کہ راقم بھی اِسی گالی آلودہ طبقہ کی دوسری تیسری نسل کا فرد ہے یعنی آپ مجھے "مہاجر بچہ” لکھ، پڑھ، سمجھ اور پکار سکتے ہیں۔ آپ اپنے مزاج کی گرمی اورشدت کے مطابق اس گالی کے ہمراہ مختلف صیغوں،سابقوں اورلاحقوں کا استعمال فرما کر دل کی مزید بھڑاس بھی نکال سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو "تم اتنے مہاجرکیوں ہو یار”، "بہت ہی کوئی مہاجر کا بچہ ہے تُو”، "بندہ سب کچھ ہو مہاجر نہ ہو” یا پھر اپنے خان صاحب کے انداز میں اس گالی سے پہلے "اوئے” لگا کراس لفظ کے مفاہیم میں جدت طرازی کے نئے افق تلاش کر سکتے ہیں۔
میری نظر میں کسی کو گالی دینے اور کسی کے وجود کو گالی بنا دینے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور یہی فرق اب مزید واضح ہوتا نظر آرہا ہے۔مہاجرطبقہ کو ماضی میں ہندوستانی، مکڑ، مٹروے اورپناہ گیر کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا تھا۔پاکستان 1947 میں بن چکا تھا تو یہاں رہنے والے تمام لوگوں کوپاکستانی کہا اور پکارا جانا چاہیے تھا اور جب یہ تمام "ہندوستانی” پاکستان بننے کے بعد سندھ آکر یہاں رچ بس گئے تھے اگر انہیں تب ہی مکڑ، مٹروا یا پناہ گیر قرار دینے کی بجائے سندھی مان لیا جاتا تو انہیں اِس مہاجر شناخت کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور نہ ہی مہاجر ہونے کو آج ایک گالی قرار دینا پڑتا۔ بہرحال ہمارے چند سیاسی دوست جو گزشتہ تین دہائیوں سے مہاجروں کی نمائندگی کرنے کا دعوی کر رہے ہیں وہ اج پھر "متحدہ” سے "مہاجر” ہو چکے ہیں۔
جہاں تک بات ہے متحدہ کے مہاجر کارڈ استعمال کرنےیا مہاجر قومی موومنٹ کی طرف واپسی کی تو بھائی مت بھولئے کہ الیکشن 2013 کے نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں ووٹ کی تقسیم لسانی بنیادوں پر ہے ورنہ اے این پی پنجاب سے، نواز لیگ سندھ سے جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پنجاب اور کے پی کے سے ضرور کامیاب ہوتے اورپاکستان پیپلز پارٹی جیسی قومی سطح کی جماعت کو اپنا چئیرمین لانچ کرنے کے لئے اُسے ایک سندھی قوم پرست لیڈر کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ہماری سیاست میں گالیوں اور گولیوں کا چلن بھی نیا نہیں اور نہ ہی صحافیوں اور سیاستدانوں کے اعلٰی عدلیہ،مخالفین اور ہر آئے گئے کے خاندانی رشتوں میں ابہام پیدا کرنے کے بعد عدالتوں میں مکر جانے کی روایت نئی ہے۔حتیٰ کہ ایک صاحب تو سرحد پار سے آئے پاکستانیوں کو ہی گالی قرار دے کر مکر گئے ہیں۔ اسے میری بد قسمتی جانیے یا حُسنِ اتفاق کہ راقم بھی اِسی گالی آلودہ طبقہ کی دوسری تیسری نسل کا فرد ہے یعنی آپ مجھے "مہاجر بچہ” لکھ، پڑھ، سمجھ اور پکار سکتے ہیں۔ آپ اپنے مزاج کی گرمی اورشدت کے مطابق اس گالی کے ہمراہ مختلف صیغوں،سابقوں اورلاحقوں کا استعمال فرما کر دل کی مزید بھڑاس بھی نکال سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو "تم اتنے مہاجرکیوں ہو یار”، "بہت ہی کوئی مہاجر کا بچہ ہے تُو”، "بندہ سب کچھ ہو مہاجر نہ ہو” یا پھر اپنے خان صاحب کے انداز میں اس گالی سے پہلے "اوئے” لگا کراس لفظ کے مفاہیم میں جدت طرازی کے نئے افق تلاش کر سکتے ہیں۔
میری نظر میں کسی کو گالی دینے اور کسی کے وجود کو گالی بنا دینے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور یہی فرق اب مزید واضح ہوتا نظر آرہا ہے۔مہاجرطبقہ کو ماضی میں ہندوستانی، مکڑ، مٹروے اورپناہ گیر کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا تھا۔پاکستان 1947 میں بن چکا تھا تو یہاں رہنے والے تمام لوگوں کوپاکستانی کہا اور پکارا جانا چاہیے تھا اور جب یہ تمام "ہندوستانی” پاکستان بننے کے بعد سندھ آکر یہاں رچ بس گئے تھے اگر انہیں تب ہی مکڑ، مٹروا یا پناہ گیر قرار دینے کی بجائے سندھی مان لیا جاتا تو انہیں اِس مہاجر شناخت کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور نہ ہی مہاجر ہونے کو آج ایک گالی قرار دینا پڑتا۔ بہرحال ہمارے چند سیاسی دوست جو گزشتہ تین دہائیوں سے مہاجروں کی نمائندگی کرنے کا دعوی کر رہے ہیں وہ اج پھر "متحدہ” سے "مہاجر” ہو چکے ہیں۔
جہاں تک بات ہے متحدہ کے مہاجر کارڈ استعمال کرنےیا مہاجر قومی موومنٹ کی طرف واپسی کی تو بھائی مت بھولئے کہ الیکشن 2013 کے نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں ووٹ کی تقسیم لسانی بنیادوں پر ہے ورنہ اے این پی پنجاب سے، نواز لیگ سندھ سے جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پنجاب اور کے پی کے سے ضرور کامیاب ہوتے اورپاکستان پیپلز پارٹی جیسی قومی سطح کی جماعت کو اپنا چئیرمین لانچ کرنے کے لئے اُسے ایک سندھی قوم پرست لیڈر کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
جو جماعت اپنے نومولود پارٹی چیئرمین کی لندن میں انڈہ ٹماٹر سے تواضع کرنے والے مخالفین کو "بھارتی ایجنٹ” اور” کشمیر کاز کا دشمن” قرار دے سکتی ہےاسے اپنے مخالفین سےبھی کسی بھی حد تک جانے کی امید رکھنی چاہئےکیونکہ صاحب ہے تویہ سیاست ہی۔
خیر صاحب ذکر تھا گالی کا تو بات اب گالی سے نکل کر توہینِ رسالت تک جا پہنچی ہے۔ گالی والے اس بیان کا مہاجر سیاسی پنڈتوں نے جب جائزہ لیاہوگاتو اس کے قریباً سارے ہی پہلو زیرِبحث آئے ہوں گے جس میں شائد سب سے اہم پہلو ہی اس بیان کو مذہبی تناظر میں دیکھنا اور دکھانا قرار پایا ہوگا۔جوں ہی ایم کیو ایم کی جانب سے توہین کا معاملہ شروع ہوا مجھ سمیت سبھی لبرل "نمونوں” نے ایم کیو ایم کے لبرل پارٹی ہونے کے باوجودمذہب کی آڑ میں سیاسی مقاسد کے حصول پرسخت تنقید شروع کردی۔مگر ہم سب یہ بھول گئے کہ یہ سیاست کے کھیل ہیں اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوا کرتا ہاں اگر سیاست کرنے والوں کی کھوپڑی میں دماغ ہو تو مخالفین کو ایسے مواقع ملیں ہی کیوں؟ ایک ایم کیو ایم ہی کیا جناب پورا ملک دفعہ 295 کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہاہے۔ خود پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ حکمرانی میں اپنی ہی پارٹی کے گورنر سلمان تاثیر کی ممتاز قادری کے ہاتھوں شہادت کے بعد اس موضوع پر بات کرنا تک چھوڑ دیاہے۔ ایک دہائی سے زائدعرصہ ملک پر حکومت کرنے کے باوجود اِس قانون کو بہتر شکل دینے کے لئے عملی اقدامات نہ کرنا بھی پیپلز پارٹی کے لبرل ہونے کے دعووں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔جو جماعت اپنے نومولود پارٹی چیئرمین کی لندن میں انڈہ ٹماٹر سے تواضع کرنے والے مخالفین کو "بھارتی ایجنٹ” اور” کشمیر کاز کا دشمن” قرار دے سکتی ہےاسے اپنے مخالفین سےبھی کسی بھی حد تک جانے کی امید رکھنی چاہئےکیونکہ صاحب ہے تویہ سیاست ہی۔
well written
ہماری سیسات کا دماغ ہے جو ہمیشہ ساتویں آسمان پر رہتا ہے۔ یہ دماغ سیاسی جوڑتوڑ اور مفادات کی سیاست کھیلنے کے لیے عوامی سطح تک آتا ہے اور پھر مطلوبہ مقاصد کے حصول کے بعد اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس چلا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے اسی دماغ کا تو شاخسانہ ہے جو آج عوام درحقیقت ایک طاقت بن ہی نہ پائے کہ اگر یہ پڑھ لکھ جاتے امن و امان ہوتا اور عوام کی کوئی ایک رائے اور شعور ہوتا تو ان کی اس سیاست کی یہ لنکا ہی ڈھا دی جاتی۔ لیکن جناب کہاں یہ ایسا ہونے دیں گے ۔ اور دیوانے سے جو دوچار نظر آتے ہیں اور کچھ حق کی آوازیں سی بلند کرتے ہیں وہ یا تو ملک سے فرار نظر آتے ہیں یا پھر بوریوں میں بند پامال نظر آتے ہیں۔
یار پورا مضمون پڑہنے کے بعد بس ایک ہی بات ذہن میں آئی ہے اور وہ ہے:
‘ارے تم کہنا کیا چاہتے ہو؟’
ویسے دیکھے بھاالے لگتے ہو! پچھلے فیسٹول آف آئیڈیاز میں آئے تھے یا جامعہ کراچی میں پائے جاتے ہو؟
ویسے تحریر مزے کی ہے! کئی ایک مسائل کی نشاندہی ہوگئی ہے!
اللہ کرے ہمارے سیاستدان سخن دلنواز اپنا لیں بڑا سکون ہوجائے گا! آمین!