سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی ریاست کی ایک زبردست انگڑائی نے اگرچہ دہشت گردوں کو ایک بڑی عوامی اکثریت کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، جس میں اِن کی واضح شکست کے آثار نمایاں ہیں ۔لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں پر ریاست کو اپنے واضح موقف پر مستحکم رہنے کے لیے زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور حکمرانوں کو غیر مقبول ہوجانے کا خدشہ بھی لاحق رہے گا۔اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ اپنی اصلیت میں ابھی تک غیر مقامی ہے اور اس سے فوری تاثر یہی اُبھرتا ہے کہ ہم غیروں کی جنگ میں اُلجھنے جارہے ہیں جہاں ہماری تباہی ناگزیر ہے۔لیکن اس جنگ میں جتنا نقصان پاکستانی ریاست اور عوام کو اُٹھانا پڑا ہے شاید کسی دوسرے فریق کو نہیں۔اس دوران سرحدوں کے اندر اور باہر کی جنگی پیچیدگی نے پاکستانی ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس ’’متنازعہ‘‘ نعرے کی ملکیت کا دعوی ریاست پاکستان کے سر ہے۔تفصیلات میں اُلجھے بغیر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں واضح طور پر ایک غیر فعال جنگی فریق کی حیثیت سے پاکستان کو فعال ممالک سے کہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی صورت حال زیادہ تشویشناک ہو نے کا امکان ہے۔ریاست کے سیکورٹی ادارے دہشت گردی کے پھیلتے ہوئے امکانات کی وجہ سے پہلے سے زیادہ مصروف ہیں اور دفاعی اخراجات کا رخ اپنی افواج کی ضروریات کو پورا کرنے سے زیادہ دہشت گردی کے تدارک کی طرف ہے جس کی وجہ سے ریاست مالی بحران کا شکار ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ اپنی اصلیت میں ابھی تک غیر مقامی ہے اور اس سے فوری تاثر یہی اُبھرتا ہے کہ ہم غیروں کی جنگ میں اُلجھنے جارہے ہیں جہاں ہماری تباہی ناگزیر ہے۔
یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا صرف ایک پہلو ہے جس کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے ریاست کو مشکلات کا سامنا ہے جب کہ اس جنگ کے لاتعداد پہلووں کی طرف مکمل توجہ کا مرحلہ ابھی آگے کھڑا ہے۔عوامی سطح پر جوں جوں یہ رائے مستحکم ہورہی ہے کہ سفاک دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیا جائے، ایسے ہی ریاستی اداروں پر پڑنے والے دباو میں اضافہ ہورہا ہے اور عوامی توقعات بڑھ رہی ہیں۔واضح رہے کہ ان توقعات اور دباو کا تعلق مقامی ہے جب کہ بیرونی توقعات اور خدشات کی الگ سے فہرست سازی کی جاسکتی ہے۔جیسے مثال کے طور پر ماضی میں ریاست کو ایبٹ آباد واقعہ،حقانی نیٹ ورک ،کابل میں بھارتی سفارت خانے پر حملہ اور اس سے پہلے ممبئی حملوں کے سلسلے میں بیرونی توقعات اور خدشات سے سابقہ پڑا، بلکہ ممبئی حملوں کے الزام میں ایک پاکستانی کی پچھلے دنوں عدالتوں سے ضمانت منظور ہونے کے بعد آج بھی پاکستان پر دباو برقرار ہے۔یہ صرف چند مثالیں ہیں جب کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی بین الاقوامی جنگ کے دوران پاکستان کو جس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کا بوجھ جہاں پاکستانی سماج پر پڑا ہے وہاں ملکی معیشت اور خارجہ محاذ پر بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک ایسی داستان ہے جس کی جزئیات بہت تکلیف دہ ہیں اورجہاں اس سلسلے میں بیرونی عناصر کا ایک اہم کردار ہے وہاں اندرونی طور پر بھی لاتعداد کوتاہیاں اور غیر ذمہ دارانہ رویے اہم کردار کے حامل ہیں۔
عمومی تصور یہ ہے کہ دینی مدارس کے خلاف اسلام دشمن کمر بستہ ہیں اور مدارس کا خاتمہ اِن کا مقصد ہے۔یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو عام لوگوں کو جذباتی طور پر متاثر کرسکتا ہے، لیکن کسی سطح پر بھی اس عزم کا اظہار ریاستی و حکومتی عہدیداروں کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔
اگر ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ طے کرلیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی مقامی طور پر ایسی فضاء قائم ہونے دی جائے گی جس کا فائدہ اُٹھا کر انتہا پسند ریاست کو کمزور کرسکیں ،تو آگے کا راستہ کوئی آسان راستہ نہیں اور نہ ہی اس میں کسی فوری خوشخبری کا کوئی امکان ہے۔ یہ ایک مسلسل اور بہت حد تک بے رحم کوشش کا سفر ہے جس کے ثمرات اگرچہ بہت خوش گوار ہوں گے لیکن تندہی اور مشکل حالات کے بعد ہی ان کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر اس وقت حکومت کو اس مطالبے کا فوری سامنا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بہت حد تک غیر منظم اور مبینہ طور پر انتہا پسندی و فرقہ واریت کے فروغ میں معاون مذہبی مدارس کا محاسبہ کیا جائے۔ یہ بظاہر ایک سیدھا اور صاف مطالبہ ہے لیکن اس عمل میں موجود پیچیدگی اور حساسیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ مدارس کی بہت بڑی تعداد نہ صرف سماجی بلکہ طاقتور سیاسی و مذہبی وابستگیوں کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے کئی سابقہ طاقت ور حکومتوں کی کارکردگی اس حوالے سےصفر رہی ہے۔عمومی تصور یہ ہے کہ دینی مدارس کے خلاف اسلام دشمن کمر بستہ ہیں اور مدارس کا خاتمہ اِن کا مقصد ہے۔یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو عام لوگوں کو جذباتی طور پر متاثر کرسکتا ہے، لیکن کسی سطح پر بھی اس عزم کا اظہار ریاستی و حکومتی عہدیداروں کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔لیکن مدارس کو کسی سرکاری نظم و ضبط میں لانا اور اِن کو بالکل ہی ختم کردینا دو قطعی طور پر الگ امور ہیں۔اور اگر کہیں ایسا کوئی مدرسہ سامنے آتا ہے جو فرقہ وارانہ قتل و غارت یا ریاست کے خلاف انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ایک جائز قانونی عمل تصور ہوگا۔اس کے لیے مدارس کی انتظامی انجمنوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کے تصور کو بحثیت مجموعی نقصان پہنچنے سے محفوظ بنایا جائے اور اِن کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔اگر حکومت اس سلسلے میں مشاورت اور منصوبہ بندی سے کام لیتی ہے تو سنجیدہ دینی طبقات یقینی طور پر اس حوالے سے تعاون کریں گے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت ایسے تمام شہروں اور قصبات میں جہاں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کی موجودگی کے باعث زندگی معمول پر نہیں رہی، وہاں جامع منصوبہ بندی کے تحت تعمیر نو طرز کے پروگرام شروع کرنا ہوں گے تاکہ متاثرہ اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو معمول کی زندگی گزارنے کے قابل بنایا جائے۔اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی قدرتی آفات سے زیادہ مہلک نقصان کی حامل ہوتی ہے اور جو علاقے اس کی لپیٹ میں آتے ہیں وہاں دیگر نقصانات کے ازالے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے شکستہ اعتماد کو بھی بحال کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانا ہی اصل فتح نہیں جب کہ اصل معرکہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے باعث پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ اور اس کی وجوہات کا بہترین تدارک ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ اصل امتحان یہی وہ مرحلہ ہے، جو نہ صرف دہشت گردی و انتہا پسندی کے متاثرین کو معمول کی زندگی میں واپس لے کر آتا ہے بلکہ اُن عوامل کا بھی تدارک کرتا ہے جو اس تباہی کا اصل موجب تھے۔خدانخواستہ اگر ریاست اور اس کے ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس قسم کی کامیابی حاصل نہیں کرپاتے اور وقتی طور پر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو پسپا کرنے میں ہی کامیاب ہوتے ہیں اور مقامی مسائل کا حل نہیں ہوپاتا تو اصل خطرہ پھرموجود رہے گا۔ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ انتہا پسندوں کی دوبارہ واپسی پہلے سے کہیں زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہوئی ہے۔

Leave a Reply