طالبان سے جاری حکومت کے امن مذاکرات میں تعطل کے بعد سے خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں کے تعلیمی ادارے شدت پسندوں کے نشانے پرہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے سے اب تک خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں قائم نجی تعلیمی اداروں کو بھتہ وصول کرنے والے شدت پسند گروہوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں میں اضافہ ہو اہے۔ بھتہ ادا نہ کرنے والے سکولوں پر کم شدت کے بم حملوں سمیت فائرنگ کے واقعات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نافذ کرفیو کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں، تاہم قبائلی علاقوں سے ملحقہ آبادیوں میں موجود شدت پسند گروہوں کے خوف کی وجہ سے طلبہ کی حاضری کم ہو رہی ہے۔ والدین کے مطابق وہ اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے کے لئے انہیں سکول بھیجنے سے گریزاں ہیں۔پشاور کے ایک نجی سکول میں پڑھنے والے بارہ سالہ گلنار کے والد ضمیراللہ اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے فکر مند نظرآئے۔ "حکومت بچوں کو سکول میں داخل کرنے کی مہم تو چلا رہی ہے لیکن ان کے تحفظ کی کوئی کوشش نہیں کر رہی۔”
قبائلی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نافذ کرفیو کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں، تاہم قبائلی علاقوں سے ملحقہ آبادیوں میں موجود شدت پسند گروہوں کے خوف کی وجہ سے طلبہ کی حاضری کم ہو رہی ہے۔ والدین کے مطابق وہ اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے کے لئے انہیں سکول بھیجنے سے گریزاں ہیں۔پشاور کے ایک نجی سکول میں پڑھنے والے بارہ سالہ گلنار کے والد ضمیراللہ اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے فکر مند نظرآئے۔ "حکومت بچوں کو سکول میں داخل کرنے کی مہم تو چلا رہی ہے لیکن ان کے تحفظ کی کوئی کوشش نہیں کر رہی۔”
قبائلی علاقوں سے ملحقہ آبادیوں میں موجود شدت پسند گروہوں کے خوف کی وجہ سے طلبہ کی حاضری کم ہو رہی ہے۔ والدین کے مطابق وہ اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے کے لئے انہیں سکول بھیجنے سے گریزاں ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے موجودہ خیبر پختونخواہ حکومت کی مذاکرات پالیسی پر تنقید کی گئی ہے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر ایک سب انسپکٹر نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کا مورال گر چکا ہے اور حکومت کی جانب سے کوئی واضح ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس شدت پسندوں کے خلاف کوئی حکت عملی اپنانے میں ناکام ہے۔ہنگو میں نامعلوم شدت پسندوں کی فائرنف سے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 کے دو اساتذہ شمیم بادشاہ اور لیاقت علی کی ہلاکت سے اساتذہ میں بھی خوف و ہراس پھیل چکا ہے، ہنگو میں چند ماہ کے اندر اساتذہ پر یہ تیسرا حملہ ہے۔ فروری کے مہینے میں ہنگو کے علاقے کچھ بانڈہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے تین اساتذہ کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد مڈل سکول کے ایک استاد پر بھی فائرنگ کی گئی تھی جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ اساتذہ تنظیموں کے مطابق وہ اپنا کام کرنا چاہتے ہیں اور حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Leave a Reply