کتاب : برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست
(اعلی حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی اوران کی تحریک 1920-1870)
مصنفہ : اوشا سانیال
صفحات : 404
ناشر : گلوبل میڈیا پبلی کیشنز
مترجم : وارث مظہری
مبصر : سید تالیف حیدر

رضوی، بریلوی، سنی، خانقاہی اور مزار پرست ان اصطلاحوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو مخاطب کرنے کا رواج جنوبی ایشیا میں عام طور سے پایا جاتا ہے۔
رضوی، بریلوی، سنی، خانقاہی اور مزار پرست ان اصطلاحوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو مخاطب کرنے کا رواج جنوبی ایشیا میں عام طور سے پایا جاتا ہے۔ جبکہ افریقہ، یورپ اور عصر حاضر میں امریکہ تک میں مسلمانوں کا یہ مخصوص گروہ اتنی تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ان کو دیگر مسلک کے ماننے والوں نے اپنے سے قدرے مختلف اور ممیز کرنے کے لئے ان اصطلاحوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا ہے۔یہ جماعت آخر کون ہے؟ ان کے عقائد کیا ہیں؟ یا ان کے مذہب کو کس بنا پر مسلمانوں کے دیگر مسالک سے ممیز کیا جا سکتا ہے؟ ان سوالات پر عام طور سے مسلمان غور نہیں کرتے۔ اس کے بر عکس چند ایک ایسی علامتیں ہیں جن کے عوام و خواص میں پائے جانے پر ان کی اس شناخت کا تعین ہوتا ہے، مثلا ً اگر مجھے کسی شخص کو رضوی، بریلوی ، سنی، خانقاہی یا قبر پرست تصور کرنا ہے تو میرے لئے اتنا کافی ہے کہ میں کسی مسلمان شخص کے ظاہری چند ایک عقائد جس میں بالخصوص مزارات پر حاضری دینا، فاتحہ خوانی کروانا، نذر و نیاز کو اہمیت دینا، رفع یدین نہ کرنا، عید ملادالنبی منانا یا محرم، صفر، شعبان اور رمضان کو چھوڑ کر دیگر اسلامی مہینوں کی وضع کردہ رسومات کی پابندی کرتے ہوئے دیکھناوغیرہ کا بغور جائزہ لوں اور اسے ان اصطلاحوں میں سے کسی ایک سے نواز دوں۔ یہ مسلکی اور مذہبی شناخت قائم کرنے کا ایسا جہالت آمیز اور متعصب طریقہ ہے جو مسلمانوں میں ایک عرصے سے رائج ہے۔ اس رویے کے رواج پانے میں ایک دو دن کا وقفہ نہیں گزرا ہے بلکہ اس طرح کی شناخت عطا کرنے کا رواج مسلمانوں میں ایک زمانے سے عام رہا ہے۔ خاص کر ان اصطلاحوں کے حوالے سے بات کی جائے تو اس رویہ کی نشاۃ ثانیہ جدید اسلامی عہد میں1857 کے فورا بعد عمل میں آئی جس عہد میں شمالی ہند میں سنیت اور شاہ اسماعیلیت کے مجادلے نے ہوا پکڑی۔اس کی ایک لمبی تاریخ ہے کہ کس طرح اور کن کن مرحلوں سے ہوتے ہوئے اس عدم احتیاط اور پروپیگنڈے کے مزاج نے ہندوستان کے مسلم عوام کو اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔ اس بحث سے قطع نظر اس تاریخ سے واقفیت کی بنیاد پر اگر ہم مسلمانوں کے اس اصطلاح سازی اور اصطلاح درازی کے رویہ پر غور کریں تو ہمیں علم ہو گا کہ اس بریلویت اور رضویت جیسی احمقانہ اصطلاحوں کے پودے کس آب پاشی سے وجود میں آئے ہیں۔

افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب مسلمانوں میں اپنی مذہبی تاریخ سے دلچسپی کا
برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست کی مصنفہ اوشا سانیال

برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست کی مصنفہ اوشا سانیال

عنصر دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ مسلکی مناقشہ اور ان کے پیچیدہ مباحث تو کجا مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو اپنے مذہبی معاملات تک کا علم نہیں ہے۔ ایسے حالات میں "روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں” کی صورت نمایاں ہوتی ہے۔ یہ بات میں اس موقع پر اس لئے کہہ رہا ہوں کیوں کہ اس کا مبین ثبوت اوشا سانیال کی کتاب سے ملتا ہے ۔ یہ بات بڑی عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہے کہ جہاں ایک طرف مسلمانوں میں عوام و خواص کا یہ رویہ عصر حاضر میں عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان کو مسلمانوں کے سب سے بڑے مسلک اہل سنت و جماعت کے مسلکی اور مسلکی در مسلکی معاملات کا ذرا بھی علم نہیں ہے اس عہد میں ایک غیر مسلم عورت نے اس حوالے سے ایک جامع اور مبسوط تحقیقی مقالہ سپر قلم کر دیا۔ مسلم علما کی وہ مٹھی بھر جماعت جو ان مسلکی اور جدید اسلامی تحرکات کے زیر و زبر سے ایک زمانے سے واقف ہے ان کے لئے کیا کہا جائے کہ وہ اتنے اہم موضوع پر اب تک ایسی ایک بھی کتاب نہ لکھ سکےجس نوع کی کتاب اوشا سانیال نے اپنی لگن اور محنت سے چند بر سوں میں مرتب کر دی۔

اوشا سانیال نے اس کتاب کے مشمولات کا جس تدبر اور احتیاط سے جائزہ لیا ہے اس سے ان کی تحقیقی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ صرف احمد رضاخاں اور ان کی تحریک اسلامی کے حوالے سے یہ ایک مستند ترین تھیسس ہے بلکہ جدید مسلم تحریکات و رجحانات سے واقفیت کے لئے جن چند ایک عالمی سطح کی کتب کا مطالعہ ناگزیر ہو جاتا ہے اس کتاب کا اندارج بھی انھیں چند ایک کتب کی فہرست میں کیا جا سکتا ہے۔ اوشا سانیال نے اس کتاب کے مشمولات کا جس تدبر اور احتیاط سے جائزہ لیا ہے اس سے ان کی تحقیقی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بات خود اپنے آپ میں کم حیرت کا باعث نہیں کہ اوشا سانیال نے اپنے تحقیقی مقالے کے لئے جس عہد کا انتخاب کیا تھا اس عہد میں مسلمانوں سے متعلق کئی ایک موضوعات کتب تاریخ کے حوالے سے ایک دوسرے میں اتنے مدغم ہو کر نمایاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس میں سے صرف اور صرف اعلیٰ حضرت اور ان کی تحریک کو منتخب کر کے تمام تر نکتہ رسی کے ساتھ ان مباحث کو اس الجھی ہوئی ڈور سے نکال لینا ایک مشکل ترین امر تھا۔ بریلویت بنام سنیت کس طور رائج ہوئی؟ مسلمانوں میں احمد رضا خاں بریلوی کی تحریک سے کس طرح کے رجحانات عام ہوئے؟ بریلویت کے مشتقات کیا کیا ہیں؟ خانقاہیت اور بریلویت میں کیا فرق ہے؟ ہندوستان میں سیاسی سطح پر سنیت یا بریلوی نظریات نے کس طرح اپنی شرکت ظاہر کی؟ نو آبادیاتی نظام کی کشمکش میں اس جدید اسلامی تحریک بنام رضویت نے کیا کردارادا کیا؟ یا انیسویں صدی کے نصف آخر سے بیسیویں صدی کے نصف اول کے عہد تک مسلکی خانہ جنگیوں سے مذہبی عقائد و نظریات کی تشکیل نو کا کام شمالی ہند میں کس طرح انجام دیا گیا؟ ایسے تمام اہم سوالات کے جوابات پر اوشا سانیال نے محققانہ اور ناقدانہ انداز میں غور کیا ہے اور اپنی تھیسس کے ذریعے ان اشکالات پر غیر جانبدار اور پر فہم مقدمات قائم کئے ہیں۔

اس کتاب کے مشمولات کے طور پر اوشا سانیال نےاظہار تشکر، تعارف، مسلسل نو ابواب، اختتامیہ، نتیجہ بحث اور ضمیمہ کو پیش کیا ہے ساتھ ہی کتاب کے آخر میں کتابیات کے عنوان سے ان تمام کتب کی فہرست بھی دے دی ہے جن کتب کے مدد سے انہوں نے اس تحقیقی مقالے کو پائے تکمیل تک پہنچایا۔ اوشا سانیال نے تمام مشمولات کو مستقل عناوین کے تحت تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کو اتنے جامع اور مدلل عنوان کے تحت بانٹا ہے کہ کتاب کی مشمولات کے مطالعے سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ مشمولات کتب اس طور ہیں :
تعارف:اہل سنت اور شناخت کی تشکیل : اواخر انیسویں صدی
باب اول: سیاست اور مذہب : اٹھا رویں صدی اور انیسویں صدی میں
باب دوم : سنی عالم مولانا احمد رضا خاں بریلوی
باب سوم : اہل سنت تحریک کی ادارتی اساس : 1880 کی دہائی سے 1920 کی دہائی تک
باب چہارم : مارہرہ کے سادات بر کاتیہ : اواخر انیسویں صدی
باب پنجم : مذہبی اقتدار اعلی کی شخصی تخصیص
باب ششم : مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا تصور سنت
باب ہفتم: اہل سنت اور دوسرے مسلمان : اواخر انیسویں صدی
باب ہشتم: دیوبندیوں اور وہابیوں سے متعلق اہل سنت کے نظریات
باب نہم: خلافت، ہجرت اور ترک موالات کی تحریکات سے متعلق اہل سنت کا نقطہ نظر
اختتامیہ : پاکستان کے بارے میں اہل سنت کا نقطہ نظر
نتیجہ بحث :
ضمیمہ :
کتابیات : (Bibliography)

اس فہرست سے ہی کتاب کی جامعیت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اوشا سانیال نے کتنی محنت اور جاں سوزی سے اس کتاب کو تصنیف کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب اس قدر محققانہ انداز میں اب تک نہیں لکھی جا سکی ہے۔
اوشا سانیال نے یہ کتاب اصلا ً انگریزی زبان میں لکھی ہے ،بالخصوص اسی طرز پر جس طرز پہ بابرا مٹکاف نے اپنی کتاب Islamic Revival in British India: Deoband 1860-1900کو تصنیف کیا تھا۔ اردو والوں کی یہ کوتاہی ہے کہ اب تک بابرا مٹکاف کی دیوبندی تحریک سے متعلق اس اہم ترین کتاب کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ہے لیکن یہ بات بھی کم قابل ستائش نہیں کہ ہمارے درمیان وارث مظہری جیسے ذی علم اور سنجیدہ مترجم موجود ہیں جنہوں نے اوشا سانیال کی اس کتاب کو انگریزی سے نہ صرف یہ کے اردو قالب میں منتقل کیا بلکہ ترجمے کے ان تمام اصولوں کو بروئے کار لا کر یہ فریضہ انجام دیا جس کے باعث اوشا سانیال کےموقف کی واضح ترین انداز میں اردو داں حلقے تک ترسیل ہو سکی ۔ وارث مظہری ان دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامیات سے وابستہ ہیں اور وہاں استاذی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کتاب کے ترجمے میں انہوں نے کس تکنیک کو استعمال کیا ہے اس کا اظہار انہوں نے کتاب کے اردو ترجمے میں عرض مترجم کے طور پر کر دیا ہے۔ عرض مترجم میں انھوں نے ایک مقام پر اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کیا ہے کہ بابرا مٹکاف کی کتاب کا اب تک اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ہے جب کہ اس کو مصنف نے آج سے تین دہائیوں قبل تمام تر مستند حوالوں سمیت مرتب کر دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ اردو کے علمی حلقوں خصوصاً مدارس کے لئے نہایت ہی مفید ثابت ہو گا۔

اب آخر میں اس کتاب کے ناشر جناب سید عبید الرحمن (ڈائرکٹر گلوبل میڈیا) نے عرض ناشر کے طور پر اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا ایک اقتباس بھی یہاں پیش کر دوں تاکہ اس کتاب کی اہمیت کو مزید واضح کیا جا سکے۔
"یہ کتاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ایک غیر جانب دار مصنفہ کے قلم سے ہے اور اپنے مو ضوع پر سیر حاصل مباحث پر مشتمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب اس قدر محققانہ انداز میں اب تک نہیں لکھی جا سکی ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ڈاکٹر وارث مظہری نے اس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی سعی مشکور کی اور گلوبل میڈیا نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس کے با وجود کہ گلوبل میڈیا انگلش میں منتخب کتابوں کی اشاعت کو ترجیح دیتا ہے تا ہم اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کی اس ادارے سے اشاعت عمل میں آرہی ہے ۔ گلوبل میڈیا کے پیش نظر شروع سے یہ بات رہی ہے کہ ایسی کتابوں کی اشاعت کو اہمیت دی جائے جو معیاری ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنے موضوع کے لحاظ سے منفرد خصوصیات کی حامل ہوں۔ اس کا اندازہ اس ادارے کی فہرست کتب سے لگا یا جا سکتا ہے جو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔”
(صفحہ نمبر 5، عرض ناشر، سید عبید الرحمن )

کتاب حاصل کرنے کا پتہ اور ناشر کا ای-میل۔اور موبائل نمبر
Address:
Global Media Publications
E-42,Ground Floor,Abul fazl Enclave
Jamia Nagar New Delhi 25

Email:
syedurahman@gmail.com

Mobile No:
09818327757

Leave a Reply