سنہری ڈائری میں تقدیر کے کیےایک اور ستم کو دفناتے وہ شاید بہت تھک چکا تھا اسی لیے فرار چاہتی نگاہوں کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے درختوں کو تکنے لگا،تکتے تکتے گھورنے لگا اور گھورتے گھورتے سوچنے لگا، “یہ درخت کس قدر قابل رحم ہیں، یوں لگتا ہے جیسے ان کے استاد نے انہیں سبق یاد نہ کرنے پرہاتھ اوپر کر کے کھڑا ہونے کی سزا دی ہو اورپھر یہی سزا ان کی تقدیر بنا دی گئی ہو۔۔۔ یا پھر شاید یہ سب منگتے ہیں، اپنی ہر خواہش ہر ضرورت کی تکمیل کےلیے فریاد کرتے، ہاتھ پھیلا ئے آسمان کو تکتے ‘منگتے’۔”
یوں بھی انسان اور درخت کا تعلق اتنا پرانا ہے جتنا انسان کا پہلا درد،اس کی پہلی خطا۔ شاید اسی لیے پتوں کی چیخ و پکار انسان کو انتقامی تسکین دیتی ہے۔
اکثر درخت تو اُسے باقاعدہ پریشان اور تھکن زدہ شکل و صورت بنائے نظرآتے، یوں جیسے وہ اپنے سر پر مسلط کیے گئے بوجھ کو پالتے پالتے تھک گئے ہوں اوراپنی جگہ، اپنی مٹی کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے ہوں (شاید اپنی دلی اور ذہنی کیفیات کے ہاتھوں وہ یہی سب دیکھنے پر مجبور تھا)۔ کچھ دیر وہ یہی سوچتا رہا پھر اچانک اس کے ہونٹ کپکپائے اور دو آنسو بے انت پانیوں کے ذخیرے سے نکل کر اس کے رخسار پر بہنے لگے۔ وہ جھلا کر بڑ بڑایا، “میں بھی تھک گیا ہوں،ان درختوں کی طرح تنہا، ساکت اور جامد کھڑے،اپنا بوجھ اٹھائے، ایسی زندگی گزارتے جو میں نے کبھی مانگی ہی نہیں، میں بھی تو قابل رحم ہوں۔ مجھے زندگی دے کر اپنی ہی زندگی سے ہاتھ جھاڑ لینے کی سزا سنا دی گئی ہے،اس ان چاہی دنیا میں چند مخصوص لوگوں کے درمیان ان چاہے رشتے پالنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ خدا نے مجھے قوت ارادی دے کراور بھی مجبور کردیا ہے۔میرے پاس اس نام نہادآزاد ارادے اور انتخاب کی آزادی کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں، کوئی راہ فرار بھی نہیں، میں اپنی ہی منتخب کردہ راہوں میں قید کر دیا گیا ہوں۔اس قید سے رہائی بھی میرے اختیار میں نہیں دی گئی۔ اگر میں اپنی مرضی سے اس قید سے نکل بھی جاوں تو بھی ایک ازلی قید میرا مقدر بنا دی جائے گی جس میں صرف جلن ہے،ازلی جلن۔۔۔۔ اور اگر میں خدا کی مرضی سے بھی اس قید سے نکلوں تو بھی میرے لیے قید ہی ہے؛ جنت یا دوزخ کی قید سے تو انسان مرنے کے بعد بھی آزاد نہیں ہوتا۔اس پہ ستم یہ کہ اپنی ہر کجی، ہر خامی، ہر خواہش کی تکمیل کے لیے ہمیں آسمان کو تکتا “منگتا” بنا دیا گیا ہے۔ یہی بڑ بڑاتے،ایسی ہی سوچیں لیے وہ اٹھا اور زمین پر بکھرے خزاں رسیدہ پتوں کو پیروں تلے کچلنے لگا۔ پتے اپنے کچلے جانے پر درد سے چلا ا ٹھے۔ چر۔۔ چررر۔۔۔۔ چرررر۔۔۔۔ ہر بار یہ آواز اسے عجیب سا سکون دیتی، یوں جیسے اس کے اس عمل سے اس کے اپنے دکھ درد آہ و زاری کے بعد دم توڑ رہےہوں۔
یوں بھی انسان اور درخت کا تعلق اتنا پرانا ہے جتنا انسان کا پہلا درد،اس کی پہلی خطا۔ شاید اسی لیے پتوں کی چیخ و پکار انسان کو انتقامی تسکین دیتی ہے۔ پھر جوں ہی پتوں کی سسکیاں تھمیں تو ہر طرف ایک سناٹاچھا گیا۔اتنی خاموشی ہوگئی کہ اس خاموشی نے اس کی روح میں کہرام مچا دیا۔اس کہرام سے نجات کی ہر کوشش جب ناکام ہوئی تو وہ جڑ پکرنے لگا اور اس کے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھ گئے۔
یوں بھی انسان اور درخت کا تعلق اتنا پرانا ہے جتنا انسان کا پہلا درد،اس کی پہلی خطا۔ شاید اسی لیے پتوں کی چیخ و پکار انسان کو انتقامی تسکین دیتی ہے۔ پھر جوں ہی پتوں کی سسکیاں تھمیں تو ہر طرف ایک سناٹاچھا گیا۔اتنی خاموشی ہوگئی کہ اس خاموشی نے اس کی روح میں کہرام مچا دیا۔اس کہرام سے نجات کی ہر کوشش جب ناکام ہوئی تو وہ جڑ پکرنے لگا اور اس کے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھ گئے۔