یہ تحریر اوریا مقبول جان کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ملالہ سے متعلق گیارہ اکتوبر کو کئے گئے تجزیے کے ردعمل میں لکھی گئی ہے۔ اس تجزیے کے دوران انہوں نے کہا کہ ملالہ کو امن کی سفیر وہ لوگ کہہ رہے ہیں جو عراق پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں، نوبل انعام کی حیثیت کچھ نہیں ہے، اس ایوارڈ کا مطلب قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔
اکوڑہ خٹک کے ان علماء کے لئے بھی جو سمجھتے ہیں ملالہ مغرب کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے اور ان کے ایجنڈا پر ہے۔ عدنان رشید کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو کہتے ہیں کہ ملالہ جرات مند نہیں، وہ لوٹی تو اسے دوبارہ نشانہ بنائیں گے ۔ فیس بک پر ان سب تبصروں کے لئے بھی جو سمجھتے ہیں کہ ملالہ پاکستان کی بدنامی ہے، اور ملالہ ڈرون حملے میں زخمی ہوتی تو شاید اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔ ان کے لئے بھی جو سمجھتے ہیں کہ گولی کھانے میں بھلا کیا ہے ملالہ نے خود اپنی مرضی سے تو گولی نہیں کھائی اور پھر یہ تو پاکستان میں یہ کون سی نئی بات ہے۔
آگہی سے ڈرتے ہو؟؟
صاحب!
وہ جو تاریک راہوں میں نہیں مارے گئے کیا وہ ذمہ دار ہیں ان کے جو تاریک راہوں کا رزق ہوئے؟ وہ جو زندہ رہ گئے ہیں ان سے مرجانے والوں کی لاشوں پر خراج مانگا جائے گا کیا؟ بہتر تھا کہ عیسیٰ ابن مریم کی صلیب کسی اورسے اٹھوائی جاتی خاص طور پر ان سے جو روم کے روساء کی امارت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ،اسے کیوں مسیح کہتے ہو ؟یہ کیسے مسیح ہو سکتا ہے اس کو تو تین سو برس بعد وہ لوگ مسیح کہیں گے جو آج اسے مصلوب کر رہے ہیں؟ گوتم کو نروان ملا تو برگد کے پتوں نے اعتراض کیوں نہیں کیا جاو بھئی نروان سے تمہارا کیا لینا دینا یہ تو ان کو ملنا چاہئے جو تمہاری راج دھانی کی ہر کونے میں اپنے پرکھوں کی طرح بیجائی کرتے ہیں، دھوپ سہتے ہیں، اور پسینے کی ہر بوند کے ساتھ اس دھرتی سے نروان کی فصل کا پھل پاتے ہیں؟ تم بدھا نہیں ہو تمہیں تو وہ لوگ بدھا کہہ رہے ہیں جو خود آگہی کے ہر دکھ سے محروم ہیں۔ کسی نے کیوں نہیں کہا کہ رسول اللہ !کیا کرتے ہیں؟ ان کو معاف کرتے ہیں جو آپ کے بعد کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوں گے، جو آپ پر پتھر برساتے رہے، جھوٹا کہتے رہے، جو آپ کے خانوادہ کو بھی نہیں بخشیں گے؟ کوئی کیوں نہیں تھا وہاں تیان من سکوائر پر جو سمجھاتا کہ اس ایک آدمی کی تصویر کیوں کھینچتے ہو ظلم کے خلاف تو بہت سے اور لوگوں کی تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔ کہاں تھے وہ جو کہتے کہ لو بھئی جیل میں رہنے اور نظر بند ہونے سے بھی بھلا کوئی تبدیلی آتی ہے،جیل تو چور اور لٹیرے بھی جاتے ہیں پھر یہ جو کالے گورے کی تقسیم ختم کرنے کو تیس برس جیل میں رہا یہ کون سا کارنامہ ہے۔ مفت کا کھانا اور رہنا۔ اس میں کیا عظمت ہے؟ اور کیا ایک گولی کھانا بھی کوئی کارنامہ ہو سکتا ہے ؟ گولی بھی وہ جس کا چلنا اور پھر اس کے زخم کا مندمل ہونا دونوں ابھی تک مشکوک ہیں۔ اب بھلا اس ملک میں گولی کھانا بھی کوئی مسئلہ ہے۔ ہزاروں ہی ہیں جو مرتے ہیں مگر کسی فائل میں ، کسی اخباری تراشے میں اور کسی بریکنگ نیوز میں ان کے لئے تو کوئی تمغہ کوئی سند امتیاز نہیں، پھر ایک ملالہ ہی کیوں؟؟
مگر صاحب اگر یوں ہے تو پھر تاریخ کی کوئی عظیم شخصیت عظیم نہیں۔ وہ شخص جس نے پہلی بار آگ دریافت کی، جس نے سوچا کہ مجھے بنانے والا کون ہے، جس نے کہا کہ علم نیکی ہے، جو جنگ کریمیا میں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتی رہی، جو ملیشیا پہنتا ہے اور ایمبولینس میں لاشے، مریض اور زندگیاں ڈھوتا ہے، جس نے کہا کہ میں حق ہوں اور جس نے کہا کہ ہر شے پر شک ہو سکتا ہے مگر اس پر نہیں کہ میں شک کر رہا ہوں، جس نے خیال کو رنگ کی صورت میں غار کی دیوار پر ابھار دیا، جس نے کھیتی میں پہلا بیج ڈالا، جسے لگا کہ کھیتی کسان کی اور کارخانہ مزدور کا۔۔۔ جو اٹھا اور کہا کہ سیاہ رنگت کمتری کی علامت نہیں۔ جس نے دھوتی پہن کر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی جو جیل میں رہے اور جیت گئے، جو انقلاب زندہ باد کہتا تھا اور شادمان چوک پر جھول گیا۔ جس نے پہلا حرف لکھا تھا۔ جو یہ سوچتا تھا کہ سمندر کے اس پار بھی کوئی نئی دنیا ضرور ہے۔ جس کے لئے زمین چپٹی اور کائنات کا محور نہیں تھی۔ وہ بھی تو جو بس کی سیٹ گورے کے لئے خالی کرنے کو تیار نہ ہوئی اور جو کہتی تھیں کہ وہ بھی ووٹ ڈالیں گیں؟ جس نے بھرے مجمع میں کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ پھریہ سب معمولی لوگ ہی تو تھے۔ لاکھوں جو ان کا نام لیتے ہیں ، ان کے دن مناتے ہیں ، اپنے کمروں کی دیواروں پر ان کے پوسٹر چپکاتے ہیں اور فیس بک وال پر ان کے اقوال اور تصاویر شئیر کرتے ہیں سبھی مغالطے میں ہیں۔نہیں سبھی مغالطے میں نہیں ؛ ان میں، مجھ میں اور آپ میں ایک فرق ہے، ان کے پاس ایک بڑا مقصد تھا اور ہمارے پاس ایک بڑی بے یقینی۔ صاحب ڈرئیے نہیں جب تاریخ لکھی جائے گی تو کسی گولی چلانے والے اور مایوسی پھیلانے والے کا نام بھی ملالہ ہی کے نام وجہ سے زندہ رہے گا۔۔۔۔
مگر اس نام کے دیے جلانے والے اور شمعیں روشن کرنے والے کون ہوں گے اس کا فیصلہ تاریخ کر ے گی۔ کون کس کا ساتھ دے گا یہ فیصلہ تو آج ہم سب نے کرنا ہے لیکن آنے والے زمانے کسے کس نام سے یاد رکھیں گے اس کا فیصلہ آج سچ کی حمایت کرنے والوں سے ہوگا، کیوں کہ ماتم حسین بھی کسی زینب کا محتاج ہے۔ کسی حواری کو مخبری کی بھینٹ چڑھنے والے کے زندہ ہونے اور پانی پر چلنے کی کرامات کا بیان بھی تو کرنا ہے۔ کوئی تو ہو جو کنعان میں یوسف کے انتظار میں نابینا ہو جائے۔ اعتراف کرنے اور ایمان لانے کی روایت بھی تو کسی کو زندہ رکھنی ہے۔ کسی کو تو گولی کھانے والی کے استقلال کا ساتھ دینا ہوگا۔ مگر سچ کا ساتھ دینے کی روایت کو زندہ رکھنے والوں کو اپنے قبیلے کے ہر جرم کی صفائی کب تک دینی ہے؟ کب تک روایت کرنے والوں کی شناخت کی پرچیوں پر درج قومیت اور ولدیت پر بتایا جائے گا کہ کون مستند ہے اور کون غیر مصدقہ؟ تاریخ کے تعصب کا بوجھ کتنی نسلیں اٹھائیں گی؟کیا ملالہ کی تحسین کرنے والوں کا شجرہ دیکھ کر ان کی نیت اور مقصد کی پرکھ ہو گی؟ مانا کہ وہ مغرب جو ملالہ کے ساتھ کھڑا ہے اس کے ماضی میں نو آبادیاتی استحصال بھی ہے اور دو عالمی جنگوں کے کروڑوں مقتولین بھی۔وہ امریکہ بھی ہے جو سرخ امریکیوں کی نسل کشی سے تعمیر ہوا، جو عراق اور افغانستان پر فوج کش ہوا ۔لیکن ملالہ کو اعزاز دینے والا مغرب وہ مغرب ہے جہاں والٹئیر، روسو اور سارتر تھے، ہٹلر، مسولینی یا چرچل نہیں۔ میرے لئے امریکہ کی پہچان مارٹن لوتھر کنگ، ویت نام جنگ اور گوانتانا مو کے خلاف تحریکیں ہیں بل اور میلنڈا گیٹس فاونڈیشن ہیں، میرے لئے اسرائیل کی پہچان ایریل شیرون یا شیمون پیریز نہیں اسرائیلی یہودیوں اور ماوں کی وہ امن تحریکیں ہیں جو فلسطین کے ساتھ امن چاہتی ہیں۔ وہ یورپ امن، مساوات اور حقوقِ انسانی کے تصورات کا یورپ ہے جو صرف جنگی جنون کی حامل حکومتوں کا ہی نہیں دنیا کو امن دینے کی تحریکوں کا بھی وطن ہیں۔ کیا نوبل انعام صرف وہ ہے جو براک اوبامہ اور اسرائیلی وزراءاعظم کو ملا یا وہ بھی ہے جو نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ، مدر ٹریسا، دلائی لامہ،آنگ سان سوچی، یاسر عرفات، شیریں عبادی، ٹی ایس ایلیٹ، رسل، ہیمنگوے، نجیب محفوظ، جوزے ساراماگو، مارکیز اور پابلو نیرودا کو بھی ملا ہے۔ ملالہ کی حیثیت کا تعین اس کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کے ماضی پر نہیں ہوگا بلکہ یہ دیکھ کر ہو گا کہ بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے لئے کون کب کہاں اور کیسے اپنے حصے کی دشنام سمیٹ کر طعن و تشنیع کی سنگ باریوں اور سازشوں کے دھندلکے میں اپنے اور دوسروں کے لئے علم برداری کی صعوبت سہتا ہے۔
اور اگر ملالہ پر تنقید اور اس کی پذیرائی سے انکار کی وجہ یورپ اور امریکہ کی تاریخ پر پڑے خون کے چھینٹے ہیں اور یورپ اور امریکہ کا ہر فرد اس کا ذمہ دار ہونے کے باعث کسی سازش کا حصہ ہے تو اپنے اجداد کی خونریزیوں کا حساب ہم سب کو بھی دینا ہوگا۔ وہ جو تلواریں اٹھائے ہندوستان پر چڑھ دوڑے، بحر ظلمات کے اس پار کی ہر بستی کو تاراج کرتے رہے وہ جو بغداد کے حرم آباد کرنے کو دشمن کی عورتیں غنیم کا مال بنا کر لے آئے، جو اسکندریہ کے کتب خانوں کو جلانے والے تھے جو آئے اور پانچ ہزار مندروں کو ڈھا کر ہندوستان کو کلمہ پڑھاتے رہے، جو ہر اختلاف کرنے والے کے منہ پر کفر تھوکتے رہے جو شہروں کے دروازوں پر پہنچتے تھے تو خوف وبا بن کر ہڈیوں کے ڈھانچ تک چاٹ گیا، وہ اسلاف کی میراث کون اٹھائے گا۔ ہلالی تلوار سے رستے لہو کے قطرے جو اگرچہ لال ہی ہے مگر بہانے کو جائز تھا اس کاخون بہا کون دے گا۔ کل کو اگر ہر کسی نے اپنے اپنے گڑے مردے اکھاڑ کر عدالتیں سجا لیں تو کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا جس کے اسلاف کے ہاتھوں کسی دوسرے کے بڈھڑوں کی داڑھیاں خون سے تر نہ ہوں۔ کوئی ایک بھی نہیں ہو گا جس کے اسلاف میں لوٹی گئی اور لٹوائی گئی عورتوں کے دودھ کی کوئی دھار نہ ہو۔ اوریا صاحب اگر ہر یہودی اسرائیل کی ہر گولی کا ذمہ دار ہے تو پھر آپ بھی پرکھوں کے بہائے گئے خون کے ہر قطرے کے زمہ دار ہیں۔ اگر ہر امریکی بغداد کی عورتوں سے جنسی زیادتی کا ذمہ دار ہے تو پھر بنگالیوں کے ہاں نیلی آنکھوں والے بچوں کی ولدیت میں بھی پاکستانی مردوں کا نام لکھنا پڑے گا۔ اگر ہر یورپ واسی نوآبادیاتی استحصالی ہے تو پھر مال غنیم کی ایک ایک پائی ہم سے بھی وصول کی جانی چاہئے جس سے بغداد، دمشق اور بصرہ کی گلیاں آباد ہوئیں۔ پھر بنگال میں دھوتیاں کھول کھول کر مسلمانیاں سبھی نے جانچی ہیں۔ وہ ایک گولی جو سکول جاتی وین میں بیٹھی لڑکی کو لگی اس کا ٹریگر سب نے دبایا ہے۔ پھر مغرب کس مسلم دنیا کو جانے اور اس سے بات کرے؟ مغرب کیا طارق بن زیاد ، اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ محسود کی مسلم دنیا سے بات کرے یا عبدالسلام، نصرت فتح علی خان اور ملالہ سے جو علم، فن اور تحریک کی علامت اور مغرب سے ہمارے رابطے کی بنیاد ہیں۔ خون کی لکیریں تاریخ میں ہر قوم ہر خطے ہر مذہب اور ہر انسان کے ہاتھوں پر ہیں اور انہیں ہاتھوں میں کتاب دینے کا خواب وہ واحد امید ہے جو اس دنیا کا مستقبل ہے۔ ملالہ نہیں ملالہ کا خواب اہم ہے جو سبھی کو لفظ سے روشناس کرانے کا ہے،جو ہر زبان سے "کُن” کی تکرار سننے کا ہے اور ہر "فیکون” کے معجزے کے اظہار کا ہے۔
وہ معجزہ جو صرف امید کے بطن سے پھوٹتا ہے ، وہ امید جو ہر زمانے اور خطے میں چہرے بدلتی رہی ہے،جو آگہی اور زندگی کی امید ہے۔میرے زمانے میں ملالہ امید کا استعارہ ہے ان بچیوں کے لئے جنہیں بیٹوں کی چاہ میں پیدا نہیں ہونے دیا جاتا یا پیدا کیا جاتا ہے، ان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچیوں کے لئے جو کم عمری میں ماں بنتی ہیں اورسکول جانے سے محروم ہو جاتی ہیں، ان کے لئے جو جبری جنسی مشقت کے لئے استعمال ہوتی ہیں، ہر اس عورت کے لئے جو اپنی کفالت کے لئے مردوں کی محتاج صرف اس لئے ہے کیوں کہ وہ بچپن میں سکول جا کر پڑھ نہیں پائی، ان ساڑھے تین ارب عورتوں کے لئے جو س دنیا کا نصف ہوتے ہوئے بھی مواقع اور وسائل میں عورت ہونے کی وجہ سے پسماندہ رکھی گئی ہیں۔ ان سات ارب انسانوں کے لئے جو ایک بہتر دنیا کی امید رکھتے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ امید ہے؟ اس دنیا میں جس کا بیانیہ، تاریخ اور رُخ مرد طے کرتے آئے ہیں ایک لڑکی نہیں ہر لڑکی کی اہمیت سے انکار کا رویہ ہے جو ملالہ اور اسکے خوابوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کا رویہ ہے۔ یہ ان مردوں اور عورتوں کا شکست خوردہ رویہ ہے جو زندگی کا سامنا اب صرف اس لئے کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں زندگی کے نام پر پھر سے انہیں دھوکہ نہ دے دیا جائے، آگہی کے نام پر تیرگی نہ مل جائے، جو ہر امکان سے اور ہر انہونی سے ڈرتے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ اب ہم سب ہر امید سے اور کسی خوش گوارساعت کی آمد سے بھی ڈرتے ہیں ۔ اس گھڑی کیا اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہیں۔ یہاں کسی کے لئے اب یہ کوئی بات ہی نہیں کہ وہ خوف زدہ اور اور سہمے ہوئے لوگوں کے بیچ بھی اپنی آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہے اور آج بھی جب لوگ شناخت دیکھ کر مارے جاتے ہیں تو وہ اپنی پہچان پر شرمندہ نہیں ،کہتی ہے کہ میں ملالہ ہوں۔ جہاں طاقتور اور لاکھوں ووٹرز کی حمایت والے طالبان کا نام تک نہیں لے سکتے وہ ایک بستہ اٹھا کر چند کتابوں کے حرف اپنا نے کے لئے ان کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے؟ جو پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کتابوں کی خیرات بانٹنے کا سوچتی ہے؟ اس معاشرے میں جہاں گولی کی آواز تو کیا گولی چلنے کے امکان پر ہی لوگ اپنے گھروں کے دروازوں پر کنڈیاں چڑھا لیتے ہیں، رات پڑتے ہی گلیوں میں قدم رکھتے ڈرتے ہیں وہاں گولی کھانے والے ہی امید کی کرن ہوتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک ٹوٹتے وطن کی تعمیر اور اندھیرے میں خواب دیکھنے کی کوشش کرنے والے آنکھیں کھولنے کی جرات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب نے آنکھیں اندھیرے سے ڈر کر نہیں روشنی سے گھبرا کر بند کر لی ہیں۔ایسے میں اگر ملالہ خواب دیکھتی ہے تواس شہرِ آشوب میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں چاہئے۔
بہت عمدہ تحریر ہے، امید ہےالباکستانیوں کی آنکھوں سے پٹی ہٹ جائے۔
fzol column,what you say about aafia siddiqui?Islam give the rights to every woman.what you say about those people who destroy the iraq,kashmir,afghanistan as well as all the educations institutes of these countries??????I am a Molvi.i proud it Alhmdulillah.
A wonderful writing
A wonderful article but, sorry to say, it would act like a flute before buffaloes! This nation needs bullets in their heads that may, may be, teach them some lessons!
Tahreer focused bu hai. Zameen aasmaan k kalabay milay hoy hain. Hr koi us masoom k kandhy pa bandook rakh kr apni apni ana ko taskeen dy raha hai.
Excellent piece of work. Salute to the writer. keep it up
ارے صاحب ۔ عافیہ کا غم کھانے والوں کو کون سمجھائے۔ چلئے عافیہ مظلوم پر اس سے ملالہ کی مظلومیت کا کیا لینا دینا۔
جب تم امریکہ کے پچھواڑے میں گھس رہے تھے اور جب تم نے امریکہ کے اشاروں پر ڈانس کرنا شروع کیا تھا تب بیچاری ملالہ کا باپ بھی پیدا نہیں ہوا ہو گا۔ اب اگر امریکہ تم کو جوتے مارتا ہے تو اس میں ملالہ کا کیا گناہ۔
Inspiring but don’t forget other fact!
so sad at writer.
lafzon k khail mn apny apko gali deny waly aesy "daniswar???? jo apny apko r apni maon k rehmon ko mashkok kr ry hn enko khuda "iman” "yaqeen” ki doulat ata frmaey..ameeen
Allah tallah fermata hai jahudi aur hesaai kabi tumharae dost nh i ho saktae ……..ye tu wo qomae hain jinho nae hazer Muhammad (saws) ki hayat e mubarka mae un k sath b dagah kiya tu en sae ap ks khaer ki tawaqoo lagae bathae hain jo enki aaman tehreko sae inspire ho rae hn…..
"عافیہ صدیقی ملالہ سے ”
علم نعرہ اگر ہے تیری آزادی کا
تماشہ کیوں لگا رکھا ہے میری بربادی کا
جا پوچھ جا کر اپنے یاروں سے
کیا حال کیا ھے پی ایچ ڈی قیدی کا
ا موت تو موت ہے، امریکی ڈرونز سے معصوم بچے بچیوں کے جسم خون کے لوتھڑوں میں دیواروں سے چپک جاتے ہیں اس موت سے کتنا درد ہوتا ہے کوئی زندگی والا نہیں بتا سکتا لیکن جب طالبان اپنے کسی دشمن کو ذبح کرتے ہیں تو ساری دنیا کیوں چیخ اٹھتی ہے؟ کیا اس میں زیادہ درد ہوتا ہے یا پھر قتل کرنے کا یہ طریقہ آئی ایس او سٹینڈرز کے خلاف ہے؟ جنگ تو جنگ ہے۔ جب مسلط کرو گے جوابی کاروائی تو ہو گی۔ کتنا عجیب لگے کہ سانپ یہ ڈھنڈورا پیٹے ” اپنے گھونسلے میں فاختہ نے مجھ پر پُر تشدد کاروائی کی فاختہ ایک دہشت گرد پرندہ ہے”۔ اور کیمرہ فاختہ کے اجڑے گھونسلے کو چھوڑ کر سانپ کے زخم دیکھانے میں مصروف ہو جائے۔ واہ دنیا کے مصنفوں