Laaltain

آپریشن ضرب عضب اور تزویراتی گہرائی کے نظریات

11 اگست، 2014
Picture of نصیر جسکانی

نصیر جسکانی

پاک فوج نے طالبان دہشتگردوں کی بڑھتی ہو ئی کارروائیوں ، ہمسایہ ممالک بشمول چین ، ایران اور افغانستان کی شکایات اور امریکی حکومت کے بارہا مطالبے کے نتیجے میں 15جون کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیاتھا۔ پاکستان میں رجعت پسند مذہبی و سیاسی جماعتو ں نے حسبِ معمول آپریشن کی مخالفت کی تاہم قومی سطح کی مذہبی ، اقلیتی اور سیاسی جماعتوں نے اب تک آپریشن ضربِ عضب کی مکمل تائیداور حمایت کی ہے۔9اگست کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کی طرف سے بلائی گئی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کی موجودگی میں پاک فوج نے شرکاء کو آپریشن ضرب عضب کے تمام اہداف کامیابی سے حاصل کر نے کا مژدہ سنایا، آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کے ارادے کا اظہار بھی چند روز پیشتر کیا جا چکا ہے۔عسکری قیادت کے مطابق اب تک کی کارروائی میں ساڑھے پانچ سو سے زائد دہشتگردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور میران شاہ ، بویہ ، دیگان اور میر علی کے علاقے دہشت گردوں سے خالی کروا لیے گئے ہیں۔ آپریشن میں غیر ملکی دہشتگردوں کی ہلاکت اور گولہ بارود، خود کش جیکٹیں اور بارودی سرنگیں بنانے والی فیکٹریاں تباہ کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں جو یقیناً پاک فوج کی بڑی کامیابی ہے۔
آپریشن سے متعلق پائے جانے والے ابہام اور آزادانہ ذرائع سے فوجی دعووں کی تصدیق کی سہولت نہ ہونے کے باعث یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عسکری قیادت شایدابھی تک تزویراتی گہرائی کے نظریات اور اچھے برے طالبان کی تفریق کی قائل ہے۔
پاک فوج کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کے دعووں کے باوجود مختلف سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب میں حقانی نیٹ ورک کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ۔ذرائع ابلاغ کو دستیاب حساس معلومات کے مطابق آپریشن ضربِ عضب سے قبل حقانی نیٹ ورک کی قیادت کو شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے میں مدد فراہم کی گئی اور علاقے میں اس تنظیم کی تنصیبات کونشانہ نہیں بنایا گیا۔ آپریشن کے نتیجے میں ابھی تک طالبان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی کے ہلاک ہونے کی خبر موصول نہیں ہوئی جس سے عام پاکستانیوں کے ذہن میں خدشات سر اٹھانے لگے ہیں۔آپریشن سے متعلق پائے جانے والے ابہام اور آزادانہ ذرائع سے فوجی دعووں کی تصدیق کی سہولت نہ ہونے کے باعث یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عسکری قیادت شایدابھی تک تزویراتی گہرائی کے نظریات اور اچھے برے طالبان کی تفریق کی قائل ہے۔
نوے کی دہائی میں تزویراتی گہرئی کے نقطہ نظر کے تحت اپنائی جانے والی افغان پالیسی سے پاکستان پہلے ہی شدت پسندی، فرقہ واریت اور جہادی دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج سب متفق ہیں کہ پاکستان کوسلامتی کے خطرات بیرونی نہیں اندرونی دشمنوں سے ہیں ۔ پاکستانی اسٹبلیشمنٹ کی سر پرستی میں افغان اور کشمیر جہاد کے لئے تشکیل پانے والے مسلح مذہبی جہادی گروہ پلٹ کر آج پاکستان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کے بیشتر واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ فوج کے بنائے ہوئے ان گروہوں کی وحشت اور بربریت سے سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عام پر امن شہری بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں اب تک پاکستان کو ہندوستان سے ہونے والی چھوٹی بڑی جنگوں سے زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی بعض مذہبی سیاسی جماعتیں ان دہشتگردوں کیلئے ابھی تک نرم گوشہ رکھتی ہیں اور انہیں معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں ۔ یہ جماعتیں شدت پسندی اور دہشت گردی کو امریکی ڈوروں حملوں کا ردعمل قرار دیتی ہیں۔
پاکستان کی سیا سی اور عسکری قیادت اگر دہشتگردی کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو صحیح معنوں میں عسکری و فکری محاذدں پر شدت پسندوں کے خلاف جنگ کرناہو گی ۔
پاکستانی تعلیمی نصاب اور مذہبی لٹریچر سےنفرت انگیز مواد اور جہادی متن کا اخراج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ سب سے اہم محاذ ہے جس کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی.
اچھے اور برے طالبان کی تفریق رد کرتے ہوئے پورے ملک میں آپریشن کے دائرے کو وسیع کرنا ہو گا اور شدت پسندی کی ترویج کا باعث بننے والے مدارس کو دہشتگردوں کی نرسری بننے سے روکنا ہو گا۔ اقلیتوں کے خلاف اشتعال پھیلانے والے افراد کو بلا تفریق انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا، دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دیناہو گی اور کالعدم جماعتوں کو نام بدل بدل کر کام کرنے سے روکنا ہو گا۔ پاکستانی تعلیمی نصاب اور مذہبی لٹریچر سے نفرت انگیز مواد اور جہادی متن کا اخراج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ سب سے اہم محاذ ہے جس کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی، برداشت ، رواداری اورپر امن بقائے باہمی پر مبنی تعلیمی نصاب مرتب کئے بغیر شدت پسندوں کی حمایت میں کمی لانا ممکن نہیں۔ دیگرممالک میں عدم مداخلت پر مبنی خارجہ پالیسی کو رائج کرنا اور حکومت ، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کے اشتراک سےتمام طبقات کی نمائندگی پر مبنی جمہوری نظام کا قیام ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی واحد امید ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *