Laaltain

یہ بی بی سی لندن ہے

5 اکتوبر، 2015
“یہ بی بی سی لندن ہے اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئیے” اپنے دور کی خوبصورت آواز کے ساتھ ایک خوبصورت نام ۔۔۔ خبریں سننے کے لئے شائق سامعین کی ایک بڑی تعداد ریڈیو کے گرد جمع ہونا شروع کردیتی تھی۔ پھر کس کی مجال کہ دوران خبر کسی خبر پر تبصرہ کرتا بس ایک گھنٹہ ساکت ہوکر گزارنا پڑتا تھا۔وقت گزرتا چلا گیا اور وقت اکیسویں صدی میں داخل ہو گیا ٹیکنالوجی نے ترقی کر لی اور نت نئے ایجادات سامنے آ گئیں۔ اکیسویں صدی نے چند چہروں کو بڑھاپے کی شکل دے کر انہیں بی بی سی سے نہ چاہتے ہوئے دل کے ساتھ رخصت ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان میں وقار احمد، رضا علی عابدی، نعیمہ احمد مہجور اور دیگر کئی خوبصورت آوازیں شامل تھیں جنہیں اپنے چاہنے والوں سے دور ہونا پڑا۔ لیکن شفیع نقی جامعی، ماہ پارا صفدر، عارف وقار کی موجودگی نے بی بی سی کے ساتھ برسہا برس کے اس رشتے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے اندازِ بیان اور بے لاگ تبصروں نے دور جدید میں ٹی وی چینلوں کی چکا چوندکے سامنے بی بی سی کی آب وتاب کو مدھم ہونے سے بچا لیا۔
بی بی سی آج بھی اسی طرح سنا جا سکتا ہے اور سنا جاتا ہے جس طرح ہم سے پہلے کی نسلوں نے سنا تھا۔آپ چاہے کسی جنگل میں ہوں یا پہاڑ ی کے نیچے، دو سیل پر چلنے والا ٹرانزسٹر آپ کو اس کی نشریات سے محروم نہیں ہونے دیتا۔
بی بی سی آج بھی اسی طرح سنا جا سکتا ہے اور سنا جاتا ہے جس طرح ہم سے پہلے کی نسلوں نے سنا تھا۔آپ چاہے کسی جنگل میں ہوں یا پہاڑ ی کے نیچے، دو سیل پر چلنے والا ٹرانزسٹر آپ کو اس کی نشریات سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ادارے نے نہ صرف بی بی سی اردو سروس کا انٹرنیٹ صفحہ متعارف کرواکر انٹرنیٹ صارفین تک رسائی حاصل کر لی ہے بلکہ ایف ایم بلیٹن اور پاکستانی چینلز پر آدھے گھنٹے کے سیربین کے ذریعے اپنے شائقین میں اضافہ بھی کرلیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے آفیشل صفحات اور اکاونٹس کی موجودگی سے انٹرنیٹ صارفین کا بی بی سی سے رابطہ مزید آسان ہوگیا ہے۔جیسے جیسے بی بی سی کی اردو سروس ریڈیو سے نکل کر ٹی چینلز، ایف ایم اور انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہونا شروع ہو ئی ویسے ویسے ہی اس ادارے کی نشریات کی نوعیت اور اوقات میں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ادارے نے اپنی ریڈیو سروس سے دو اردو پروگراموں رات 10:30بجے نشر ہونے والے شب نامہ اور صبح کے پروگرام جہان نماء کو ختم کرکے اپنے ریڈیو سامعین کے لئے صرف ایک گھنٹے کا سیربین پروگرام باقی رہنے دیا ہے۔ اس عمل سے بی بی سی کے سامعین کو خدشات لاحق ہو گئے ہیں کہ دیگر پروگراموں کی طرح بی بی سی اردو سروس کا واحد پروگرام سیربین بھی دور جدید کی ٹیکناالوجی کا نذر نہ ہوجائے اور بی بی سی کے ساتھ کئی دہائیوں کا رشتہ ختم نہ ہوجائے۔
انہی سامعین میں سے ایک جھاؤ کے علاقے سستگان سے تعلق رکھنے والے بزرگ شخص عبدالستار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ بی بی سی کے ساتھ میراناطہ 1965سے قائم ہے اس وقت سے اس نشریات کو باقاعدگی سے سنتا چلا آرہا ہوں۔‘‘
’’ بی بی سی وہ واحد ریڈیوہے جو خبروں کو تول کر اپنے سامعین تک پہنچانے کا سامان فراہم کرتا ہے۔ گو کہ ٹی وی چینلز کا رجحان معاشرے میں دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن یہ تمام مل کر بھی بی بی سی اردو کی ریڈیو نشریات کی اہمیت کو ختم نہیں کر سکے۔ ایسے لگتا ہے کہ بی بی سی کے ساتھ ایک قسم کی وابستگی اب عادت کی شکل اختیار کر چکی ہے اگر کسی دن بی بی سی کی نشریات مجبوری سے نہ سنوں تو ایسے لگتا ہے کہ سب کچھ ادھورا ہے۔‘‘
بی بی سی اردو کی ریڈیو نشریات میں سے دوپروگرام ختم کرنے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ،”ان دونوں پروگراموں کو ختم کرنے سے مجھے بے حد دکھ ہوا۔ بالخصوص صبح کا جہاں نما جہاں اخبارات سے لےکر موسم کے حال تک کی خبریں ہوتی تھیں سے ہم محروم ہو چکے ہیں”۔
گو کہ ٹی وی چینلز کا رجحان معاشرے میں دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن یہ تمام مل کر بھی بی بی سی اردو کی ریڈیو نشریات کی اہمیت کو ختم نہیں کر سکے۔
عبدالستار اب شب نامہ اور جہاں نما کی جگہ بی بی سی کی ہندی سروس سنا کرتے ہیں اور حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ دیگر زبانوں کی نشریات باقاعدگی سے تین تین وقت نشر کی جاتی ہیں لیکن اردو کے سامعین کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں برتی گئی جس کا انہیں بی بی سی ادارے سے گلہ رہے گا۔رضا علی عابدی کا پروگرام ’’جرنیلی سڑک‘‘ اور سدھو کا پروگرام ’’ جمہورا جی بابا‘‘ اس کے پسندیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے۔
عبدالستار کی طرح بی بی سی کے ہزاروں دیگر سامعین آج بھی بی بی سی کی ریڈیو نشریات کو اسی طرح سنتے ہیں جس طرح وہ کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کیونکہ جب آپکا ناطہ کئی دہائیوں کا ہو تو اس رشتے کی جڑوں کو یہ جدید ٹیکنالوجی کمزور نہیں کر سکتی۔اسی لیے بی بی سی اردو سروس نے عہدحاضر میں بھی پرانے تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے خطوط کے سلسلے کو ختم نہیں کیا ہے ۔ اس سلسلے کی میزبانی عارف وقار اور صبا اعتزازکرتے ہیں جوہر رات سیربین کا حصہ ہوا کرتا ہے۔اتوار کی شام سیربین میں ہفتہ وار کالم’’بات سے بات‘‘ کا سامعین کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے جسے وسعت اللہ خان اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ رہی بات شفیع نقی جامعی اور ماہ پارا صفدر کی تو پروگراموں کی جان انہی کی مرہون منت ہے۔
ساتویں عالمی اردو کانفرنس میں رضا علی عابدی کو مقالہ پیش کرتے ہوئے سنا تو بی بی سی کی نشریات کانوں میں تازہ ہو گئیں، وہی آواز اور وہی انداز۔ پروگرام کے اختتام پر مصافحہ کرتے ہوئے میں نے اپنا تعارف کرایا۔ بلوچستان کا حوالہ دیا تو مسکرانے لگے اور کہا،”بیٹا بڑی حسرت ہے کہ بلوچستان آجاؤں اگر صحت اجازت دے”۔
بی بی سی کی ریڈیو سروس سے رشتہ صرف ایک سامع کا نہیں بلکہ ان دہائیوں کا ہے جن کے دوران سچائی تک رسائی کا صرف ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ بی بی سی کی اردو نشریات تھی، جب ریاستی ادارے جبر کے ہتھکنڈوں کو آزماتے ہوئے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر پہرے بٹھا دیتے ہیں تب سب کان بی بی سی کی جانب ہی متوجہ ہوتے ہیں۔ خدا کرے کے آواز اور سماعت کا یہ رشتہ انٹرنیٹ کی لا محدود وسعتوں میں بھی اپنے قارئین ، سامعین اور ناظرین تک خبریں، تبصرے اور تجزیے پہنچاتا رہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *