میرے خوابوں میں سے ایک خواب فلسفہ (Philosophy)اور اس کے ذیلی مضامین جیسے جمالیات(Aesthetics) اورقدریات(Axiology) پڑھنا ہے۔ قدریات سے دلچسپی معاشرتی مسائل اور ان کے معاشرتی اقدار سے گہرے تعلق کی وجہ سے اور بھی بڑھی ہے، میرے نزدیک ہمارے معاشرے میں کئی مسائل کی جڑ ہماری اقدار ہیں، یہ اقدار ہی ہمارے طور اطوار طے کرتی ہیں، ہمیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کا شعور بخشتی ہیں اور ہمارے مستقبل کا تعین بھی کرتی ہیں۔سماجی اقدار ہمارے رہن، سہن، بول چال، لین دین، حتیٰ کہ ہمارے پہناوے اور فنون سے پیوستہ ہیں۔ عموماً مشرقی اقدار کو فرسودہ تصور کرتے ہوئے انہیں مسترد کیا جاتا ہے تاہم فارن افیئرز نامی بین الاقوامی جریدے میں لی کوان یوصاحب کا انٹرویو پڑھنے اورسنگاپور کی ترقی کا راز جاننے کے بعد مشرقی ممالک کی سماجی اقدار سے متعلق ایک نئے ڈھنگ پر سوچنے کا موقع ملا۔اس انٹرویو میں لی کوان یو صاحب نے سنگاپور کی ترقی میں جنوب مشرقی ایشائی اقوام کی ثقافت اور اقدار کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے، اور مغربی معاشرتی اور سیاسی نظام پر تنقید کی ہے۔ لی صاحب کا ماننا ہے کہ مغربی حکومتیں اپنے شہریوں کےتمام مسائل کو حل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے جب کہ مشرق میں یہ کام خاندان کے ذمہ ہوتا ہے۔ لی صاحب کے خیال میں مغرب کا تصور شہریت جس انفرادیت پسندی پر استوار ہے اور شخصی آزادی کی انتہا پر موجود ہے وہ بسا اوقات ریاست کے لئے ہی پریشانی کا باعث بن جاتا ہےجبکہ ہم اپنے شہری کے بھلے کے لیئے ہی اس کے کچھ انسانی حقوق مجروح کر ڈالتے ہیں، ایسا کرنے سے وہ شہری اور معاشرہ دونوں فائدے میں رہتے ہیں۔لی کوان یو کے خیال میں مشرق و مغرب مختلف و منفرد ہیں، جدیدیت و مغربیت دو مختلف چیزیں ہیں اور ہمیں اپنی اقدار و اطوار کی مناسبت سے ہی ترقی کرنی چاہیئے، ہر وہ چیز جواہل مغرب کے ہاں کامیاب ہے یہاں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ہندوستان میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد سے مغرب اور مشرق کی ثقافت، اقدار اور ریاستی تصورات کے درمیان فرق کو محسوس کرتے ہوئے علمی حلقے مغرب کی تقلید، مغرب و مشرق کے امتزاج یا مشرقی اقدار کے احیاءجیسے فکری مراکز میں تقسیم ہیں۔
ہندوستان میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد سے مغرب اور مشرق کی ثقافت، اقدار اور ریاستی تصورات کے درمیان فرق کو محسوس کرتے ہوئے علمی حلقے مغرب کی تقلید، مغرب و مشرق کے امتزاج یا مشرقی اقدار کے احیاءجیسے فکری مراکز میں تقسیم ہیں۔میری رائے میں مشرق کے مسائل کو مشرق اور مغرب کے امتزاج سے ہی اپنی شناخت، اقدار اور روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح سنگاپور نے اپنی ثقافت کو سمجھا، پرکھا، پروان چڑھایا اور آہستہ آہستہ ان میں جدت پیدا کی ، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ ہمیں جمہوریت کے مغربی نمونے پر صرف اس لےق اعتبار نہیں کرلینا چاہیئے کہ یہ امریکہ، برطانیہ و فرانس میں کامیاب ہوئی تھی بلکہ ہمیں اپنی اقدار کی روشنی میں اسے اپنانا چاہیئے۔ اسی طرح انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کے تصورات جس انداز اور ڈھنگ سےمغربی عوام کے لئے قابل قبول ہیں وہ کسی بھی طرح مشرق کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔
ہمارے ’روٹی، کپڑا و مکان کے مطالبے کا اگر فرانسیسی انقلاب کے داعیوں کے آزادی، برابری اور برادری نعرے سے موازنہ کیا جائے تو مشرق اور مغرب کی ترجیحات کا فرق جاننا مشکل نہیں۔مشرقی ممالک میں جمہوریت یا آمریت، ریاست اور مذہب کی علیحدگی یا مذہبی ریاست کا قیام ، انفرادی آزادی یا خاندانی ترجیحات کے درمیان انتخاب کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام اور اختلاف واضح کرتا ہے کہ مشرقی ممالک کی ترجیحات، زندگی گزارنے کے تصورات اور معیارات مغرب سے بالکل مختلف ہیں۔
مشرق یا مغرب کی تفریق انسانی حقوق، جمہوریت اور شخصی آزادی کی مشترکہ انسانی بنیادوں کی نفی نہیں کر سکتی اور صرف مشرق اور مغرب کے تہذیبی فرق کی بنا پر انسانی حقوق اور آزادیوں سے مشرق کو محروم نہیں رکھا جا سکتا
ذرا اپنے بزرگوں سے پوچھیں کہ پاکستان کا کون سا دور سب سے اچھا تھا؟
جواب آئے گا، ایوب خان کا!
اور اگر کسی نوجوان سے پوچھا جائے کہ کس کا دورِ حکومت بہترین تھا؟ تو جواب ملے گا، مشرف کا!
اس حقیقت کے باوجود کہ ایوب خان اور پرویز مشرف آمر تھے اور ان کے سیاسی فیصلوں سے ملک کو نقصان پہنچا، شہری اور سیاسی حقوق غصب کئے گئے، عوامی سطح پر ان کی مقبولیت اور پذیرائی جمہوری حکومتوں سے زیادہ ہے۔عوامی سطح پر اس پذیرائی کی وجہ وہ ثقافتی اور تہذیبی فرق ہے جس کی وجہ سے مغرب اور مشرق کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے مختلف نکتہ نظر اپناتے ہیں۔گو کہ مشرق یا مغرب کی تفریق انسانی حقوق، جمہوریت اور شخصی آزادی کی مشترکہ انسانی بنیادوں کی نفی نہیں کر سکتی اور صرف مشرق اور مغرب کے تہذیبی فرق کی بنا پر انسانی حقوق اور آزادیوں سے مشرق کو محروم نہیں رکھا جا سکتا،تاہم مشرق اور مغرب میں پایا جانے والا ثقافتی بعد ایک دوسرے سے متضاد سماجی نقطہ نظر کا باعث ضرور بنتا ہے۔ سماجی نقاط ہائے نظر کا یہ تضاد ہی مشرق میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے اطلاق کے لئے ایک مختلف طرز عمل کا تقاضہ کرتا ہے۔
انسانی آزادی اور حقوق کے تصورات عالمگیر اور آفاقی ہیں لیکن پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک میں بنیادی انسانی ضروریات کے فقدان کی وجہ سے عوامی سطح پر مسائل کی فہرست میں شہری حقوق ہمیشہ روزگار، صحت اور تعلیم کے بعد آتے ہیں۔ مشرق کے عوام اپنے، سماجی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی و ماحولیاتی حقوق،معاشرت اور شناخت کو سیاسی و شہری حقوق، شخصی آزادی اور انفرادیت پسندی پر فوقیت دیتے ہیں، اور میرے خیال میں اس میں کوئی برائی نہیں ہے! اگر ہم اپنے عوام کی اس خواہش کو سمجھ لیں، اس خواہش کے پیچھے کار فرما عوامل کو پہچان لیں اور اپنی پالیسیوں کو بھی عوام کی امنگوں، امیدوں اور اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرلیں توہم بھی ترقی کر ہی جائیں گے۔

Leave a Reply