حساب تو ہم نے بچپن سے پڑھا ہے، گنتی بھی خوب رٹی لیکن عملی زندگی میں استعمال کا موقع تب آیا جب ہم نے نوجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا۔ سنا تھا کہ زندگی میں کچھ پانا ہے تو ایک دو تین پر یقین رکھنا ہے بس جی اس قول کی صداقت کا احساس دل میں لیے بس صبح شام پسلیاں گننا ہی اپنا مشغلہ ٹھہرا۔ جی ہاں! سب گنتے ہیں اپنی پسلیاں کچھ چھپا کر کچھ بتا کر، تو جناب ہم بھی اس آس پر گنتے رہتے کہ کبھی تو کوئی پسلی کم ہوگی اور چھم سے یا دھم سے کود کر ہماری زندگی میں آجائے گی۔ وہ تو کچھ معاشرتی حدود و قیود کا بھی خیال تھا اور کچھ معاش کی چادر بھی قد سے چھوٹی پڑتی تھی ورنہ ہم تو اپنی ساری ہی پسلیوں کو مجسم اپنے آگے پیچھے پھرتے دیکھنے کے خواہاں تھے۔ چاہے سینہ تان کر کھڑے ہونے کے واسطے پسلیوں کی جگہ تختے ٹھکوانے پڑجاتے۔
خیر تو جناب بات تھی پسلیوں کی اور وفورجذبات میں ہم نے تمام ہی رازہائے درون افشاکردیے۔ حالانکہ یہ درونی راز ہمارے پاس ہماری پوری مرد جاتی کی امانت تھے اور ہم سمیت تمام مردوں کے بلاتفریق عمر و مرتبے کے پسلیوں کے بارے میں ایسے ہی جذبات و خیالات رکھتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
 
جامِ مئے توبہ شکن توبہ میری جام شکن
 
سامنے ڈھیر میرے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
 
بعینہ ہم سب مرد اپنی آنکھوں میں توبہ کے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ڈھیر لیے چلتے ہیں اور کبھی بھی،کہیں بھی ،کسی کی بھی” پسلی "کہیں بھی نظر آجائے فوراً آنکھیں مخمور ہوجاتی ہیں اور رگ و پے میں ترنگ کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ ایسے میں پسلی کا حسن و شباب ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اصل بات تو اس کا پسلی ہونا ہے۔ رنگ برنگ شوخ تتلی جیسی پسلی ہو یا سرتاپا برقعے چادر میں ملفوف، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہمارا تعلق تو ہماری تسکین قلب سے ہے نا۔ ویسے بھی ان پسلیوں کا دل تھوڑی ہوتا ہے، نہ ہی یہ انسان ہیں یہ تو محض پسلیاں ہیں۔ انسان تو ہم ہیں، ہمارے جذبات ہیں، خوشیاں اور احساسات ہیں۔ اور یہ پسلیاں تو تخلیق ہی اسی لیے کی گئی ہیں کہ ہم مردوں کی دل بستگی کا سامان بنیں، ہمارے دل کے قریب رہ کر دل کو طمانیت بخشتی رہیں۔
ہم انسان(یعنی مرد) اشرف المخلوقات ہیں اور ہمارا شرف یہی ہے کہ یہ کُل دنیا ہمارے لیے مسخر کی گئی ہے۔ اب یہ ہماری منشا ہے کہ ہم یا تو پلنگ توڑتے رہیں یا پھر ان پسلیوں کو توڑتے رہیں۔ نہ پہنچیں چاند تاروں تک، کیوں نئی دنیائیں تسخیر کریں، بہتر نہیں کہ ہم نئی نئی” پسلیاں” ہی تسخیر کرتے رہیں۔ یہ پسلیاں بھی ہمارے لیے ہی مسخر کی گئی ہیں اس لیے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمارے شایان شان خدمات بجا لائیں۔ ہماری روٹی پانی، آرام آسائش کا خیال رکھیں، ہمارے فخر و مباہات کا سامان بنیں اور ہماری جذباتی و نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی کریں۔ ویسے ایک بات تو ماننے کی ہے یہ پسلیاں اگرچہ ہیں تو ٹیڑھی مگرہیں نہایت کار آمد تخلیق۔ ان سے سارے کام بھی کرواتے رہو، برتن بھانڈے، صفائی ستھرائی، پکوائی دھلائی سب ہی کچھ کرواتے رہو اور جب چاہو ان کو لعن طعن کرتے رہو۔ باندی بنی ہاتھ باندھے یہ ہماری خدمت میں حاضر ہمارے جذبہ حکومت کو تسکین دیتی رہتی ہیں۔ اب جب یہ پسلیاں اتنی کارآمد ہیں تو کون کافر نہ چاہے گا کہ ایک چھوڑ چار چار ہوں۔
یہی وجہ ہے جہاں بھی نظر دوڑائیے یہ پسلیاں ہی سب کے دل و دماغ پر چھائی ہیں۔ عالم، فاضل، شاعر، لکھاری، طبیب، سائنسدان ہوں یا نائی قصائی دھوبی دکاندار سب ہی دن رات پسلی پسلی کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ شاعر، یہ لکھاری جو ان کے فسانے سناتے نہیں تھکتے، جن کے ہر رنگ میں پسلی کا ذکر ہے، پسلی کی حیا، پسلی کی وفا، بانکپن، شوخی، شرارت، خوش نگاہی، رنگ روپ ،چھب، سانچے میں ڈھلا جسم، ماتھے کی لٹ سے لے کر پیر کے تلوے تلک قصیدوں میں پروئے جاتے ہیں۔ گھر میں موجود اپنی پسلی کو ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے، برتن مانجھتے اس کے گٹے پڑے سخت خشک اور کھردرے ہاتھوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے مومی انگلیوں، حنائی ہاتھوں اور ہاتھو ں کی شمعوں کے استعارے باندھتے ہیں۔
تو اے پسلی!، میری پیاری پسلی، جان رکھو، یہ مذہبی اشخاص، یہ سماجی حضرات، یہ موقع شناس عقلمندانِ وقت لاکھ تم کو مطعون کریں، جنت سے نکلوانے والی کہیں، یا ہر برائی کی جڑ گردانیں، کچھ خیال نہ کرنا۔
معالج ہیں تو مریض کو کم اورساتھ آئی پسلی کو زیادہ تاکتے ہیں۔ بلکہ اس مہمان پسلی کا ہاتھ تھام کر مریض کی نبض چیک کرنے کی بھی ایک نئی تکنیک ہے۔ ایک بار ایک ڈاکٹر کے کلینک جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے مقابل ایک پسلی اپنے بچے کے پاؤں میں درد کی شکایت لیے بیٹھی تھی۔ اور ڈاکٹر موصوف کچھ سنے بغیر قریب تر ہوتے ہوئے اسٹیتھواسکوپ سے بچے کی دھڑکن اور تھرمامیٹر سے بچے کا بخار دیکھنے کے بہانے اپنے جذبات کا بخار اور اپنی دھڑکن کا فسانہ اس پسلی کو سنانے کی بھرپور سعی میں مصروف عمل تھے۔ ہم سمیت وہاں موجود سب ہی مردوں کا دل جل کر کباب ہورہا تھا آخر ارمان تو سب ہی کے پاس تھے نا۔ جون ایلیا صاحب نے شاید ایسے ہی کسی موقع پر یہ جملہ کہا ہوگا کہ “کسی بھی حسین پسلی کو کسی مرد کے ساتھ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے میری ذاتی حق تلفی ہوئی ہو ” جون صاحب سے اختلاف نہیں بس ایک اضافہ چاہوں گا وہ یہ کہ پسلیاں ساری ہی حسین ہوتی ہیں ۔ اف! کم بخت! اٹھلاتے بادل کی طرح اٹھتی اور برکھا کی طرح برستی یہ پسلیاں، اب کوئی ہم جیسا بیچارہ آہیں نہ بھرے تو کیا کرے۔
 
اب کچھ عرض اس پسلی سے:
 
تو اے پسلی!، میری پیاری پسلی، جان رکھو، یہ مذہبی اشخاص، یہ سماجی حضرات، یہ موقع شناس عقلمندانِ وقت لاکھ تم کو مطعون کریں، جنت سے نکلوانے والی کہیں، یا ہر برائی کی جڑ گردانیں، کچھ خیال نہ کرنا۔ تم نہیں جانتی ہو، تمھارے پاس مرد کا دل جو نہیں، جب بھی کوئی زبان سے تم کو برا کہے اس کے ملامت بھرے الفاظ نہیں، اس کی آنکھیں دیکھا کرو، ہاں، تمھارے ذکر پر کچھ مزید گلابی ہوتی اس کی آنکھیں۔ اس کا چہرہ دیکھا کرو، جذبات سے کچھ اور سرخ ہوتا، اس کی آواز کا لوچ، کچھ جتاتی، دلی ترنگ کی عکاس مسکراہٹ دیکھا کرو۔ لفظوں کے پیچھے کیا جانا، لاکھ تم کو دشنام ملیں، جان رکھو! لفظ تو دھوکا دیتے ہیں۔

4 Responses

Leave a Reply

%d bloggers like this: