جھاڑ دو یہ جھوٹا قلم
اجاڑ دو یہ کچا کاغذ
بانٹ دو میرے سارے لفظ
بے اولاد دماغوں کے اندر
یہ دیکھو یہ لکھا تھا کل
ایک زرد دھرتی کا غم
آج اس سے روٹھ کر بہہ گیا
کل کے جذبات کا رنگ
اب کیوں کر لکھ دوں میں
تمھارے نقش کا سخن؟
میری آنکھ اندھی ہے
میری سانس جھوٹ کا سفر
میرے خیال میں اترے
ٹانگ توڑ بدصورتی کا ڈھب
 
میرا دل ٹہلتا رہتا ہے
بس بازاروں کے اندر
میری جیب میں اب تو
پتھر بھی نہیں ہیں
کہ سلیقے سے ڈوب مروں
پھولا پھولا جاؤں گا
دریا پر بہتا جیسے گند
ہاں جلا ڈالو مجھے
کسی ننگی سڑک کے کنارے
جہاں بھیک مانگتا ڈھونگی
ہزار گاڑیوں کی
اپنی اپنی تنہائی میں
صبح شام ایک کرتا ہے
 
ہاں مار ڈالو مجھے
ایسے کے پھر نہ یاد آؤں
کسی متروک درخت کی
جڑوں میں دبانا
جیسے گھاس اگے عاشق
دبا دیتے ہیں
کوئی وقتی خوبصورتی
یا یہ المیے اوڑھے مجنوں
کسی سرکاری دیوار پر
لکھ دیں کوئی فضول جنونی نام
جسے دیکھ کر دل میں
کچھ نہیں ہوتا
 
ہاں کاٹ دو اس زباں کو تم
یہ نہیں سونا اگلتی
یہ میری کانسی کی تاریخ
تم اس آہن گردی میں
نچھاور کر دینا
جیسے مغلوب قوم کے بےغیرت بیٹے
سب نچھاور کردیتے ہیں
توڑ دینا مجھے اور پھر
مجھ سے بنا لینا ایک گھر
پھر اسکو آگ لگانا
اور ناچنا اسکے گرد
میں کاربن کا اندیشہ ہوں
میں تیل کا پجاری
میں نفرت کا ایندھن ہوں
سوکھی لکڑی مریل سی
دہک اٹھوں گا میں
ایک ہی تیلی میں
پھر میری آگ کو ابالنا
جیسے دوزخ بنانا چاہتے ہو
 
بس جلا دو مجھے
مگر یہ نہ کہو کہ میں
لکھتا رہوں مردہ لفظوں کاسہرا
آنکھ پھٹے خیالوں میں
ایک ایسی کمینی دنیا میں
جس میں سب شیشوں سے
چمٹے بیٹھے ہیں
جیسے بموں کی بوندوں میں
کوئی ماں اور اسکا چیختا چلاتا بچہ
بس کردو اب تم بھی
یا دے دو مجھے دہن آواز
اور ایک ایسی خوبصورتی
جو بدصورت آنکھوں کے لیے
بنائی گئی ہوگی
مجھ معاف کردو
میں نہیں لکھ سکتا
نہ پچھلوں کی طرح
اورنہ تمھاری طرح

Leave a Reply