اُس رات خواب ہڑتال پر تھے اور نیند ان کی غیرموجودگی میں خود کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی نڈھال ہو چکی تھی ۔ نرم ترین بستروںمیں اتنی کروٹیں لی گئی تھیں کہ سخت ترین بدن بھی شل ہو کر رہ گئے تھے۔ رات بےحد بے چین تھی اور اس نے اپنی دسترس میں آنے والی ہر شے کو بے چین کر رکھا تھا۔
معاملہ یہ تھاکہ وہ سب عظیم لوگ جنہوں نے زندگی میں کسی کو چین نہ لینےدیا تھا اور جن کو مرے مدتیں ہوگئی تھیں، اس وقت اپنی جانب سے ایک بڑی شکایت لیے وقت کے سامنے مدعی تھے، جسے وقت اپنی ازلی لاتعلقی سے سن رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کسی فلسفی نے ایک لا یعنی سی بات کہی کہ‘ہر شخص اور معاملہ کے دو پہلو ہوتے ہیں، کوئی بھی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہو سکتا‘۔ وہی ہوا جو ہوتا ہے کچھ نے حمایت کی اور کچھ مخالفت میں بولے، زیادہ تر نے سنا ہی نہیں۔ لوگ تو کہہ سن کر اپنی راہ پڑے مگر ہمیشہ کے فسادی شوق کو یہ سن کر بڑا مزہ آیا۔ اس نے سوچا کہ نئے لوگ مدت سے مجھے فراموش کیے بیٹھے ہیں تو کیوں نہ ان پرانے ساتھیوں کو جگا لیا جائے جن کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا۔ شوق ان پرانے بادشاہوں کے پاس گیا جو مختلف اچھی بری باتوں کی وجہ سے کبھی اس کے اسیر رہ چکے تھے، ہمیشہ زندہ رہ جانے کے شوقین ان رہنماؤں کو بھی بلا لایا جن میں سے کچھ نے دوسروں کی موت کو اپنے لیے امرت گردانا تھا اور کچھ نے زندگیاں بچانے کو۔ شوق نے ان سور ماؤں کو بھی جگا ڈالا جو اپنا کام مکمل کر کے اطمینان کی منزل کو پہنچے اور زندگی اور موت میں یکساں مقبول رہےتھے۔ خبر ان کو بھی دی گئی جن کی زندگیاں شر پھیلانےکے جنون میں کٹی تھیں اور وہ مرنے کے بعدبھی اتنے ہی ملعون تھے جتنا کہ زندگی میں۔ سب، لا دین، کافر اور غاصب بھی اور تمام خدا کے نام لیوا، نیکو کار بھی۔ ہر نیک، سارے بد اپنی اپنی زندگی کی کتاب اٹھائے سرگرداں پھرنے لگے کہ ہم سے ہماری شناخت چھینی جا رہی ہے۔
بالآاخر طے یہ پایا کہ اپنی اچھائی اور برائی کے مکمل ثبوت کے ساتھ وقت کے پاس چلا جائے۔
وہ سب وقت کے پاس پہنچے اور اسے دیکھ کرٹھٹھک گئے۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا کبھی ان کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ سنہری بالوں اور ٹیڑھی گردن والا حسین وقت، لاپرواہ اور بے نیاز،اپنے کام پورے کرنے اوران سے آگے کچھ نہ سننے کا عادی۔۔۔ اُسے اپنے عظیم ہونے کا صرف احساس تھا، غرور نہیں۔ وہ مغرور ہو کر دکھاتا بھی کسے، کبھی کوئی اس کے سامنے ٹھہر ہی نہ پایا تھا۔ اس نے لا تعداد خدا اپنے سامنے بنتے اور مٹتے دیکھے تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس سے نظر ملانے کی جرأت نہ کر سکاتھا۔
لوگ حیران ہوئے کہ وقت اپنے سِوا ہر شے پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ وہ اسے دیکھ کر ذرا گھبرائے مگر ہمت کر کر کے اپنا مسئلہ بیان کر ہی دیا۔وقت سن کر ذرا سا مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں وہ سب تجربے بھی شامل تھے جواس کی ہمیشگی نے اس کو بخشے تھےاور انسان کی بے وقعتی کا تمسخر بھی۔لیکن وہ ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کا دل نہیں دُکھانا چاہتا تھا جو اپنے زُعم میں تھے اورخود کو عظیم سمجھتے تھے۔ وقت نے سر جھکا کر چند لمحے سوچا۔ وہ کچھ نرم الفاظ میں بات کرنا چاہتا مگر اُسے حیرت ہوئی کہ اس کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے لفظ ہیں ہی نہیں ہیں جو کسی کو کاٹ کر نہ رکھ دیں۔ وقت کو اپنی حیرت اچھی لگی۔اس نے شفقت اور خوش مز اجی سے لوگوں کی طرف دیکھا اور بولا”لوگو! بات یہ ہے کہ میں تم پر سے گزر چکا ہوں سو اب شناخت تمہارا مسئلہ نہیں رہی۔ تم وقت کی ضرورت تھے اوروقت نے تمہیں برت لیا۔ کائنات کی ہر چیز صرف اپنی زندگی کا دورانیہ پورا کر رہی ہے۔ اچھابرا کچھ نہیں ہوتا، تم سب زندگی بھر وقت کو کاٹنے کی بھونڈی کوشش میں مصروف رہتے ہو اور وقت تمہیں کاٹتا ہوا گزر جاتاہے۔ شناخت بھی کچھ نہیں ہوتی۔ تمہارے خدا تک خود کو قائم نہ رکھ پائے تو تمہاری کیا حیثیت ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے کہ سورماؤں کے حسین مجسمے تراش کر چوکوں میں نصب کیے جائیں یا توڑ کر راستوں کے برابر کر دیےجائیں۔ راہنماؤں کے اقوال رد کردیے جائیں اور قاتلوں کو مقدس سمجھ کر سر آنکھوں پر رکھا جائے۔۔۔ تم بھی گزر گئے ہو اور تمہارے نام لیوا بھی گزر جائیں گے۔ کسے پرواہ ہے کہ برائی اچھائی بن جائے اور نیکی بدی؟ آج کے خدا کل متروک ہو جائیں؟کیافرق پڑتا ہے؟”
لوگ سناٹے میں آگئے۔ شناخت بچانے کی کوشش میں وہ اپنا رہا سہا وجود بھی کھو بیٹھے تھے۔وقت اپنی کاٹ کی طاقت سے بے حد مطمئن ہوا اور سب سونے والوں کو بہترین خواب روانہ کیے۔ ا گلی صبح لوگ جاگے تو اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید تھے۔
وقت نے اپنے سنگھاسن سے لا محدود کائنات پر نظر کی اور لاپرواہی سے سنہری بال جھٹکے،سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق تھا۔
معاملہ یہ تھاکہ وہ سب عظیم لوگ جنہوں نے زندگی میں کسی کو چین نہ لینےدیا تھا اور جن کو مرے مدتیں ہوگئی تھیں، اس وقت اپنی جانب سے ایک بڑی شکایت لیے وقت کے سامنے مدعی تھے، جسے وقت اپنی ازلی لاتعلقی سے سن رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کسی فلسفی نے ایک لا یعنی سی بات کہی کہ‘ہر شخص اور معاملہ کے دو پہلو ہوتے ہیں، کوئی بھی مکمل اچھا یا مکمل برا نہیں ہو سکتا‘۔ وہی ہوا جو ہوتا ہے کچھ نے حمایت کی اور کچھ مخالفت میں بولے، زیادہ تر نے سنا ہی نہیں۔ لوگ تو کہہ سن کر اپنی راہ پڑے مگر ہمیشہ کے فسادی شوق کو یہ سن کر بڑا مزہ آیا۔ اس نے سوچا کہ نئے لوگ مدت سے مجھے فراموش کیے بیٹھے ہیں تو کیوں نہ ان پرانے ساتھیوں کو جگا لیا جائے جن کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا۔ شوق ان پرانے بادشاہوں کے پاس گیا جو مختلف اچھی بری باتوں کی وجہ سے کبھی اس کے اسیر رہ چکے تھے، ہمیشہ زندہ رہ جانے کے شوقین ان رہنماؤں کو بھی بلا لایا جن میں سے کچھ نے دوسروں کی موت کو اپنے لیے امرت گردانا تھا اور کچھ نے زندگیاں بچانے کو۔ شوق نے ان سور ماؤں کو بھی جگا ڈالا جو اپنا کام مکمل کر کے اطمینان کی منزل کو پہنچے اور زندگی اور موت میں یکساں مقبول رہےتھے۔ خبر ان کو بھی دی گئی جن کی زندگیاں شر پھیلانےکے جنون میں کٹی تھیں اور وہ مرنے کے بعدبھی اتنے ہی ملعون تھے جتنا کہ زندگی میں۔ سب، لا دین، کافر اور غاصب بھی اور تمام خدا کے نام لیوا، نیکو کار بھی۔ ہر نیک، سارے بد اپنی اپنی زندگی کی کتاب اٹھائے سرگرداں پھرنے لگے کہ ہم سے ہماری شناخت چھینی جا رہی ہے۔
بالآاخر طے یہ پایا کہ اپنی اچھائی اور برائی کے مکمل ثبوت کے ساتھ وقت کے پاس چلا جائے۔
وہ سب وقت کے پاس پہنچے اور اسے دیکھ کرٹھٹھک گئے۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا کبھی ان کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ سنہری بالوں اور ٹیڑھی گردن والا حسین وقت، لاپرواہ اور بے نیاز،اپنے کام پورے کرنے اوران سے آگے کچھ نہ سننے کا عادی۔۔۔ اُسے اپنے عظیم ہونے کا صرف احساس تھا، غرور نہیں۔ وہ مغرور ہو کر دکھاتا بھی کسے، کبھی کوئی اس کے سامنے ٹھہر ہی نہ پایا تھا۔ اس نے لا تعداد خدا اپنے سامنے بنتے اور مٹتے دیکھے تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس سے نظر ملانے کی جرأت نہ کر سکاتھا۔
لوگ حیران ہوئے کہ وقت اپنے سِوا ہر شے پر اثرانداز ہوتا ہے ۔ وہ اسے دیکھ کر ذرا گھبرائے مگر ہمت کر کر کے اپنا مسئلہ بیان کر ہی دیا۔وقت سن کر ذرا سا مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں وہ سب تجربے بھی شامل تھے جواس کی ہمیشگی نے اس کو بخشے تھےاور انسان کی بے وقعتی کا تمسخر بھی۔لیکن وہ ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کا دل نہیں دُکھانا چاہتا تھا جو اپنے زُعم میں تھے اورخود کو عظیم سمجھتے تھے۔ وقت نے سر جھکا کر چند لمحے سوچا۔ وہ کچھ نرم الفاظ میں بات کرنا چاہتا مگر اُسے حیرت ہوئی کہ اس کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے لفظ ہیں ہی نہیں ہیں جو کسی کو کاٹ کر نہ رکھ دیں۔ وقت کو اپنی حیرت اچھی لگی۔اس نے شفقت اور خوش مز اجی سے لوگوں کی طرف دیکھا اور بولا”لوگو! بات یہ ہے کہ میں تم پر سے گزر چکا ہوں سو اب شناخت تمہارا مسئلہ نہیں رہی۔ تم وقت کی ضرورت تھے اوروقت نے تمہیں برت لیا۔ کائنات کی ہر چیز صرف اپنی زندگی کا دورانیہ پورا کر رہی ہے۔ اچھابرا کچھ نہیں ہوتا، تم سب زندگی بھر وقت کو کاٹنے کی بھونڈی کوشش میں مصروف رہتے ہو اور وقت تمہیں کاٹتا ہوا گزر جاتاہے۔ شناخت بھی کچھ نہیں ہوتی۔ تمہارے خدا تک خود کو قائم نہ رکھ پائے تو تمہاری کیا حیثیت ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے کہ سورماؤں کے حسین مجسمے تراش کر چوکوں میں نصب کیے جائیں یا توڑ کر راستوں کے برابر کر دیےجائیں۔ راہنماؤں کے اقوال رد کردیے جائیں اور قاتلوں کو مقدس سمجھ کر سر آنکھوں پر رکھا جائے۔۔۔ تم بھی گزر گئے ہو اور تمہارے نام لیوا بھی گزر جائیں گے۔ کسے پرواہ ہے کہ برائی اچھائی بن جائے اور نیکی بدی؟ آج کے خدا کل متروک ہو جائیں؟کیافرق پڑتا ہے؟”
لوگ سناٹے میں آگئے۔ شناخت بچانے کی کوشش میں وہ اپنا رہا سہا وجود بھی کھو بیٹھے تھے۔وقت اپنی کاٹ کی طاقت سے بے حد مطمئن ہوا اور سب سونے والوں کو بہترین خواب روانہ کیے۔ ا گلی صبح لوگ جاگے تو اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید تھے۔
وقت نے اپنے سنگھاسن سے لا محدود کائنات پر نظر کی اور لاپرواہی سے سنہری بال جھٹکے،سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق تھا۔
وقت بتاتا ھے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا ؛ سدا رھے نام مولا کا
راہنماؤں کے اقوال رد کردیے جائیں اور قاتلوں کو مقدس سمجھ کر سر آنکھوں پر رکھا جائے۔۔