مدتوں سے جنگوں کے پجاری اپنے ذاتی مفادات کے اوپر خوبصورت نظریات کی ملمع کاری کرتے ہیں گرم گرم نعروں کا سہارا لے کر نکلتے ہیں نسلِ آدم کے خون سے اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے ہیں مشرق سے لیکر مغرب تک امنِ عالم کو لہو لہو کر تے ہیں عالمی عدالت میں نجات دہندہ کا لقب پاتے ہیں اور سپر پاور بن کر ساری دنیا کے وسائل کشید کرتے ہیں۔ میں مصیبت کی اس گھڑی میں حامد میر کے خاندان کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو بھی ہوں تاکہ افواہوں کی اس منڈی میں بھانت بھانت کی بولیاں بند ہو سکیں اور نسلِ آدم کے خون پر اپنا دھندا چمکانے والے عالمی توپوں کے رخ پہچاننے میں مدد بھی مل سکے جو بڑی تیزی سے افغانستان سے پاکستان کی طرف مڑ رہی ہیں لیکن افسوس یہاں تو؛
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
صحافت کے میدان میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جسےInvestigative Journalism یعنی تحقیقی یا تفتیشی صحافت کہا جاتا ہے جس میں کسی بھی واقعہ کی سرسری خبر نہیں دی جاتی بلکہ واقعہ کے ہر پہلو کو تسلی سے جانچا پرکھا اور سمجھا جاتا ہے اور پھر اس کو رپورٹ کیا جاتا ہے جس کا ہمارے ملک میں شاید رواج نہیں ہے یا شائد ایسا مال بکتا نہیں ہے اس لیے ہمارے دیس میں تفتیشی صحافت کی بجائے صحافتی تفتیش کی جاتی ہے یا یوں کہ لے ایک اینکر سج سنور کر سکرین پر مختلف زاویوں سے نمودار ہوتا ہے اور سکرین پر بیٹھ کر وہ مذہب سے لیکر سیاست تک، قومی سے لے کر عالمی مفادات تک، نسلی سے لے کر لسانی تضادات تک، دینی سے لے کر دنیاوی معاملات تک، معاشی سے لے کر معاشرتی پالیسیوں تک اور دفاعی سے لے کر تعلیمی بجٹ تک سب موضوعات پر اس گھن گرج سے بات کر رہا ہوتا ہے کہ پروگرام میں بلائے گئے مہمان ماہرین ایک دوسر ے کا منہ دیکھتے راہ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو پروگرام میں بلا کر ان کی اس قدر تضحیک کی جاتی ہے کہ مہمان پروگرام سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور اس پرگرام میں کبھی نہ آنے کا تہیہ کر لیتے ہیں ایسا تو گھر میں آنے میں بھکاری کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا لیکن یہی تو آج کل پروگرام کی معراج سمجھا جاتا ہے شاید منافع اور ریونیو کارپوریٹ میڈیا کی سب سے پہلی ترجیح بن چکا ہے اور اگر پرافٹ اور ریونیو ہی پہلی ترجیح ہے تو پھر چھوڑو یہ آزاد صحافت اور آزادئ صحافت کے نعرے خاموشی سے اپنی نوکری کرو اور اپنے بچوں کا پیٹ پالو۔ قوم کو سچ اور حقیقت بتانے کے چکر میں خدارا مزید بیوقوف مت بناؤ۔
میں چونکہ صحافت اور ابلاغیات کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور strategic Communication میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے اس لیے میں یہ معمہ کسی حد تک سمجھنے کی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹوکا بہیمانہ قتل ہو یا حامد میر پر قاتلانہ حملہ، سوات میں سروں کو فٹ بال بنا کر کھیلنے کی ویڈیو ہو یا اسامہ بن لادن کی فوٹو شاپڈ تصویر، مہران بیس حملہ ہو یا اسلام آباد کچہری دھماکہ ان سب سانحات کو صرف ایک ذمہ داری قبول کرنے سے طالبان کے کھاتے میں کیوں ڈال دیا جاتاہے یا کسی انجانے میل ایڈریس سے آنے والی اقبالِ جرم کی ای میل پڑھ کر جند اللہ کے سر کیوں تھوپ دی جاتی ہے کیا دنیا اتنی شفاف ہوگئی ہے کہ سب کچھ آپ کو گھر بیٹھے بتایا جا رہا ہے یا دنیا آپ کو سچ سے کوسوں دور رکھنا چاہتی ہے یہ سب حربے اس سرکاری بیانیہofficial version کا حصہ ہیں جو نائن الیون کے فوراٰ بعد دفترِ تزویراتی ابلاغیات پنٹاگون سے شروع ہوئے اور جن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے واشنگٹن، لندن اور اسلام آباد میں دفاتر قائم کیے گئے تاکہ جنگ کو اپنے انداز سے دیکھا اور دکھایا جائے اور اس سے منافع اور وسائل کی جنگ جیتی جائے۔
شائد اسی لیے میرے دیس میں آج تک دہشت گردی کا کوئی مقدمہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا بلکہ مقدمہ کی سماعت سے بہت پہلے ہی مقدمہ کی فائل پر ذمہ داری قبول کرنے کی چٹ یا کسی ای میل کا حوالے دے کر مقدمہ کی فائل کو ہمیشہ ہمیشہ کی لیے بند کر دیا جاتا بالکل اسی طرح جس طرح گاؤں کا کوئی وڈیرے اپنے بیٹے کو قتل کے مقدمہ سے بچانے کے لیے گاؤں کے کسی غریب مزدور سے اقبالِ جرم کا بیان دلوا دے اوراپنے بیٹے کو تتی ہوابھی نہ لگنے دے۔ اگر کوئی دانشور،صحافی یا تجزیہ نگار کوشش کرے تو ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ آخرذمہ داری قبال کرنے کی یہ بیاں بازیاں اور اقبالِ جرم کی یہ بڑھکیں کن مذموم مقاصد کی پیداکردہ ہیں اور یہ بیاں بازیاں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں تک جاتی ہیں۔
لیکن ہمارے دیس میں تحقیق صرف جڑی بوٹیوں تک محدود ہو گئی ہے اور تفتیش صرف حوالدار تک، ہمارے ملک میں تفتیش کار ایجنسیاں بند کمرہ میٹنگز میں مصروف ہیں اورمیرے دیس کے دانشور اپنی اپنی چائے کی پیالی میں طوفان نہیں بلکہ طوفانِ بد تمیزی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں میرے دیس میں مذہب کے ٹھیکیدار شادیوں کی تعداد کے پیچیدہ شرعی مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں اور میر ی اس پاک سر زمین کے سیاستدان اقتدار کی غلام گردشوں میں بوتلوں کی تلاش میں پھر رہے ہیں تو ایسے حالات میں کون کرے گا تحقیق اور تفتیش توایسے حالات میں دنیا کے ازلی سچائیاں ٹیلی وژن سکرین پر چلنے والے ٹکر میں ہی تلاش کی جائیں گی اور کائنات کی تخلیق کے اسرارو رموز اخبارات کی شہ سرخیوں میں ہی ڈھونڈھے جائیں گے نیوز روم کے ماحول کو نفسا نفسی کا عالم کہا جائے گا اور بریکنگ نیوز کو عن الحق کی صدا سمجھا جائے گا۔
مجھے نہائت افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ میرے کچھ صحافی دوست اور خاص طور پر ٹیلی وژن کے لیے کام کرنے والے دوست خبر کو بیچنے کے لیے خبر کے ساتھ جو ٹریٹمنٹ یاسلوک کرتے ہیں وہ ہندی کے ایک بڑے موزوں لفظ سے ملتا ہے لیکن کیا کیا جائے میں نے یہ کالم اخبار میں دینا ہے ٹیلی وژن میں نہیں اور اخبار لوگ کچھ جاننے کے لیے پڑھتے ہیں نہ کہ لطف لینے یا دینے کے لیے اور ویسے بھی اخبار پڑھنے یا لکھنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ٹیلی وژن سے لطف لینے کے لیے کسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی صرف آپ کے دماغ کاموزوں ہونا ضروری ہوتاہے۔
ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ متنازعہ معاملات میں بعض اوقات مفادپرست طبقے یا کوئی تھرڈ پارٹی اپنے مفاد ات کی خاطر کوئی گھناؤنا کھیل کھیل جاتی ہے اور کاروباری دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں بلکہ ایسی وارداتوں کو موثر اور مثبت سمجھا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے ریاست کے دونوں ستون جو تھم بن چکے ہیں اپنے مفاد ات اور اپنی انا کی جنگ میں ایک مزموم حملے کی تحقیقات سے رخ نہ پھیر یں دونوں اداروں کو اس واردات کی تحقیقات میں اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے نہ ہی صحافتی اداروں کو اپنی مارکیٹ کو علاقائی بندھنوں سے نکال کر پورے گلوب تک پھیلانے کے لیے صحافیوں کے خون پسینے سے کھیلنے کی اجازت دی سکتی ہے اور نہ ہی ریاستی اداروں کو سوچ پر پابندی لگانے کے لیے بیلٹ اور بلٹ کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ دیا جا سکتاہے۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: