"پانی کا موثر استعمال ہی آنے والے دنوں میں ہمیں اس کی فراہمی ممکن بنا سکتا ہے” یہ بات 20 مارچ 2015 کو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 43 ممالک کے 70 کروڑ افراد کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سال 2025 تک دنیا کی تقریباً دو ارب آبادی پانی کی شدید قلت کا شکار ہو گی جب کہ 2030 تک دنیا کی پچاس فیصد آبادی کو پانی کی دستیابی کے شدید دباؤ کا سامنا ہوگا۔ورلڈ واٹر ڈویلپمنٹ رپورٹ 2015 کے مطابق دنیا کے کل زیر زمین پانی کا پچاس فیصد استعمال پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، چین اور بھارت کی آبادی کررہی ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ دنیا کی آبادی 2050 تک 9 ارب ہو جائے گی اس کے ساتھ ہی کاشتکاری، صنعتی ذرائع اور زندگی کے تمام معمولات میں پانی کی ضرورت بھی 55 گنا بڑھ جانے کا خدشہ ہے جس سے پانی کے وسائل ختم ہو جائیں گے۔
پاکستان میں صورتحال:
دنیا کے کئی ممالک اس وقت پانی کی قلت کے مسئلے کا شکار ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1992 میں پاکستان میں پانی کی دستیابی سترہ سو مکعب میٹر فی کس تھی جو 2009 میں پندرہ سو مکعب میٹر فی کس رہ گئی اور موجودہ صورتحال میں دستیاب پانی کی سطح ایک ہزار مکعب میٹر فی کس رہ گئی ہے۔ ہنگامی حالات کے لیے بھی پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مجوزی عالمی معیار کے مطابق نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے شدید موسمی حالات کا سامنا کرنے والے ممالک میں کم سے کم سو دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تجویز کی ہے جبکہ پاکستان میں صرف تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کا شمار پانی کی قلت والے ممالک جیسے ایتھوپیا، لیبیا، الجزائر وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت کے آثار تھر اور بلوچستان میں قحط کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور اگر بروقت مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پورے ملک میں تھر قحط کی سی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔
پاکستان میں پانی کی قلت کے آثار تھر اور بلوچستان میں قحط کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور اگر بروقت مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پورے ملک میں تھر قحط کی سی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
پاکستان زیرزمین پانی کے استعمال کے باعث شہری علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی ہے ۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں میں غیر موسمی بارشوں اور مون سون بارشوں کے دورانیے میں تبدیلی اور اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے پانی محفوظ کرنے کے ذخیرے تعمیر نہ کرنے کے باعث آنے والے برسوں میں پانی کی شدید کمی کے باعث خوراک کا قحط بھی ممکن ہے۔
2025 میں پانی کی متوقع قلت
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کے عظیم نظام آبپاشی کے باوجود پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مستقبل قریب میں پانی کی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں اور پانی کی قلت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ امریکی جریدے دی اٹلانٹک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ پانی کی کمی کو قراردیا ہے۔ جریدے نے جولائی 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاو میں کمی اور پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے تشویشناک قرار دیا ہے۔ پاکستان میں دستیاب صاف پانی کا 90 فیصد زراعت اور صرف 10 فیصد پینے کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جو پانی فراہم کیا جارہا ہے وہ غیر معیاری ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کا ضیاع بہت زیادہ ہے، ملک کے اشرافیہ پینے کے پانی سے گاڑیاں دھوتے ہیں۔ زراعت کیلئے جتنا پانی ہم ٹیوب ویل سے تین ہزار روپے میں حاصل کرتے ہیں، اتنا ہمیں نہری پانی 100روپے میں پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے آبپاشی کے طریقے بدلنے اور پانی کا ضیاع روکنا پڑے گا ورنہ ملک میں سات سال بعد پانی کا قحط آ جائے گا۔ ان کے مطابق آبی ذخائر کی تعمیر پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں، سیلاب برداشت کرنے کے باوجود آبی ذخائر نہیں بنائے جا رہے، پاکستان بہت تیزی سے پانی کے قحط کی طرف بڑھ رہا ہے، پاکستان آبی قحط کا سامنا کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اسمارٹ واٹر مینجمنٹ کے تحت سرجوال این جی او نے پانی کی اے ٹی ایم مشینیں متعارف کرائی ہیں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی ایک ایک بوند کا حساب رکھا جاتا ہے۔
پانی کے بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی اقدامات:
پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) کا کردار نمایاں ہو کر سامنے آرہا ہے۔افریقہ میں اسمارٹ ہینڈ پمپس متعارف کرا دیے گئے ہیں جبکہ سنگاپور نے واٹر وائر کے نظام کو اپنایا ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اسمارٹ واٹر مینجمنٹ کے تحت سرجوال این جی او نے پانی کی اے ٹی ایم مشینیں متعارف کرائی ہیں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی ایک ایک بوند کا حساب رکھا جاتا ہے۔ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے دور دراز علاقوں میں بھی جدید نظام اور حساس سینسرز کے ذریعے لمحہ لمحہ نگرانی کی جاتی ہے۔
پانی کا عالمی دن ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے- اس دن کا مقصد لوگوں میں پانی کے موثر استعمال کا شعور پیدا کرنا، پانی کی آلودگی سے بچاؤ کے محفوظ طریقوں سے لوگوں کو روشناس کرانا اور اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہے، جو پانی کے قلت سے بچاؤ کے طریقے اور قوانین اپنے معاشرے کے لوگوں میں لاگو کرواتے اور اس پر اپنا پیسا اور محنت خرچ کرتے ہیں۔ہمیں بھی پانی کی کمی کی بڑھتی ہوئی صورتحال کو سمجھنا چاہیے اور پانی کے بہتر استعمال کے طریقہ کار کو اپنانا چاہیے۔

Leave a Reply