انسان کی تہذیبی اور تہذیب سے پہلے کی تاریخ کو دھاتوں کے لحاظ سے مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر عہد میں ضرب بھی دی جاتی تھی لیکن اس وقت سوال تقسیم کا ہے۔ ان ادوار میں سے ایک عہد پتھر کا بھی ہے گو کہ کانسی اور لوہا وغیرہ بھی اس درجہ بندی کے سلسلے کے مختلف ادوار ہیں۔ آپ کو پتا ہی ہوگا کہ وطنِ عزیز المعروف پاکستان بھی دنیا ہی میں واقع ہے۔
جس خطے میں ہمارا وطن واقع ہے یہاں کئی ہزار سال پہلے بڑی سلجھی ہوئی تہذیبیں متمدن رہیں۔ ان میں سے موہن جو ڈارو، ہڑپّہ، مہر گڑھ اور ٹیکسلا کے علاقہ کی قدیمی تہذیبیں شامل ہیں۔ لیکن ہم بلا کے اپنی ذات کے رسیا ہیں۔ ہم اتنی پرانی تہذیبوں کے رہن سہن کو اپنی موجودہ حیثیت کا حوالہ بننے اور اپنی موجودہ حالت سے موازنہ کرنے کی رجعت پرستانہ نفسیات سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ ہم فی نفسہ جدید ہیں۔ پر ہماری جدت والی فلم کی سی ڈی کچھ وقت پہلے کے منظر پہ آ کر اٹک گئی ہے۔
پاکستان کا پہلا تاریخی دورانیہ زمینوں کی الاٹمنٹوں اور کلیموں کے داخلوں کا تھا۔ اس بابت ہم زیادہ نہیں بولیں گے۔ یہ لوگ اب بہت اہم اور خاندانی ہو گئے ہیں۔
ہمارے یہاں سن سنتالیس کے بعد سے شروع ہونے والی تاریخ پہ بہت سی کاروائیاں ہوئیں۔ یار لوگ بہت بحث کرتے ہیں، ہم بھی پڑھتے ہیں۔ پر بولتے نہیں۔ بولتے اس لیے نہیں کہ تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس پہ ہمارے خیال میں حدود لگتی ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس چار پارسا گواہ موجود نہیں لہٰذا ہم اس ‘کارگزاری’ پہ پردہ ڈال کے کم از کم قذف کے گناہ سے پتلی گلی سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ اچھا، اچھا آپ روح کی فکر مت کیجئے اس کا کون سا خون بہتا دِکھتا ہے۔
آخر ہم بھی پاکستانی ہیں۔ اور تو اور عہدِ ڈاکٹر عطاالرحمن کی ایک یونیورسٹی کے دستار بندھے ہیں۔ علم کی تخلیق تو کرنا پڑے گی۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی تاریخ کے ساتھ تھوڑا ہاتھ سیدھا کرلیتے ہیں۔ شکریہ آپ نے اجازت سے نوازا۔ اچھا تو ہم پاکستانی تاریخ کو دیسی علمِ بشریات کے اوزاروں سے مختلف ادوار میں بانٹنے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔ ابھی آپ اتنا مان جائیں کہ پاکستان چودہ اگست سن سنتالیس کو معرضِ وجود میں آیا۔ چودہ اور پندرہ کے کھپاڑوں میں مت ڈالنا اب بھئی! کیا؟ پاکستان کب بنا؟؟؟؟ محمد بن قاسم کے ساتھ ہی بنیاد پڑگئی؟ ہیں؟ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ سب ٹھیک ہیں۔ پر مجھے بات تو کر لینے دیں۔
چوتھا عہد وی سی آر کا تھا۔ ملک میں اسلام تو محمد بن قاسم کے ساتھ آ گیا تھا۔ لیکن مردِ مومن اب زمین پہ اترا تھا۔ ہر طرف سے بت توڑے جا رہے تھے۔ سینما کا غبارہ بھی پھاڑ دیا گیا۔ تفریح بے چاری اب چھپ چھپا کہ وی سی آر پر منتقل ہو گئی تھی۔
پاکستان کا پہلا تاریخی دورانیہ زمینوں کی الاٹمنٹوں اور کلیموں کے داخلوں کا تھا۔ اس بابت ہم زیادہ نہیں بولیں گے۔ یہ لوگ اب بہت اہم اور خاندانی ہو گئے ہیں۔ کہیں ہتک نا ہو جائے۔ دوسرا عہد سن اٹھاون میں شروع ہوا جب ملک میں “عزیز ہم وطنو” کی پہلی قسط نشر ہوئی۔ ہاں ٹی وی نہیں تھا، ریڈیو پر بھی تو نشر ہی ہوتی ہے نا۔ یہ دور آج بھی آنیاں جانیاں کرتا رہتا ہے۔ بہت عام ہے۔ کسی بھی موسم کا پھل ہے۔ لہٰذا ہم صرف پہلی قسط کو ہی خاص نام دیں گے۔
تیسرا عہد جمہوریت کی بنیاد کا ہے۔ یہ حادثاتی طور پر درمیان میں آ گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ملک کے آدھے حصے میں کام تو تمام کرلیا گیا تھا۔ ظاہر ہے اب کسی پہ الزام رکھنے کے لئے اسے نائٹ واچ مین تو کھڑا کرنا ضروری تھا نا۔ ورنہ کیا خود پہ نزلہ گرنے دیتے۔ یہ عہد بس اپنی وکٹ بچانے کے لیے لایا گیا۔
چوتھا عہد وی سی آر کا تھا۔ ملک میں اسلام تو محمد بن قاسم کے ساتھ آ گیا تھا۔ لیکن مردِ مومن اب زمین پہ اترا تھا۔ ہر طرف سے بت توڑے جا رہے تھے۔ سینما کا غبارہ بھی پھاڑ دیا گیا۔ تفریح بے چاری اب چھپ چھپا کہ وی سی آر پر منتقل ہو گئی تھی۔ اب یہ نا پوچھنے لگ جانا اقبال ٹاؤن اور گلبرگ کون منتقل ہوئے تھے۔ وی سی آر کے عہد کے دائیں بازو میں سے سرکاری جہاد کا عہد زریں پیدا ہوا۔ یہ عہد خود تو پیدا ہو گیا لیکن یہ اتنے سالوں سے باقیوں کو بس مارے جاتا آ رہا ہے۔ اس عہد میں خودکش حملوں کی سلطنت کا سورج کبھی غروب نا ہوا۔ ادھر ڈوبا، ادھر نکلا اور بس چکر چلتا رہا۔
چوتھا عہد وی سی آر کا تھا۔ ملک میں اسلام تو محمد بن قاسم کے ساتھ آ گیا تھا۔ لیکن مردِ مومن اب زمین پہ اترا تھا۔ ہر طرف سے بت توڑے جا رہے تھے۔ سینما کا غبارہ بھی پھاڑ دیا گیا۔ تفریح بے چاری اب چھپ چھپا کہ وی سی آر پر منتقل ہو گئی تھی۔ اب یہ نا پوچھنے لگ جانا اقبال ٹاؤن اور گلبرگ کون منتقل ہوئے تھے۔ وی سی آر کے عہد کے دائیں بازو میں سے سرکاری جہاد کا عہد زریں پیدا ہوا۔ یہ عہد خود تو پیدا ہو گیا لیکن یہ اتنے سالوں سے باقیوں کو بس مارے جاتا آ رہا ہے۔ اس عہد میں خودکش حملوں کی سلطنت کا سورج کبھی غروب نا ہوا۔ ادھر ڈوبا، ادھر نکلا اور بس چکر چلتا رہا۔
اسی خودکشی کے عہد کا جڑواں بھائی الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔ اس پہ یار لوگ بہت لکھتے ہیں۔ بہت بولتے ہیں۔ کسی کے پاس کچھ بھی لکھنے کو نا ہو تو یہ اچھا خاصا موضوع فراہم کردیتا ہے۔ یہ عہد کافی بگڑے بچے جیسا ہے پر اپنے آپ کو سمجھتا بڑا فطین ہے۔ کسی بھی سفید پوش کی پگڑی اچھالنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس کے آنگن میں کئی فال نکالنے والے طوطے اور لا یعنی گیت الاپنے والی مینائیں بیٹھتی ہیں۔ اسی کھلنڈرانہ عادت میں بے احتیاطی کر بیٹھتا ہے۔ کھیلن کو چاند مانگ بیٹھتا ہے۔ کبھی تو کسی “کُھنگ” کے ساتھ اڑ جاتا ہے تو پھر اسے پتا چلتا ہے کہ کس بھاؤ بِکتی ہے۔ سب باتوں میں سے ایک بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ لوگ اس سے سخت عاجز ہیں لیکن پھر بھی بیوقوفوں کی طرح منہ کھولے اپنے دن کا بیشتر حصہ اس کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور اس پہ تبصرے بھی ڈکارتے ہیں۔
Image Courtesy: Sabir Nazar